کراچی میں کشیدگی: دو روز میں 47 افراد ہلاک
3 اگست 2010شہر میں پرتشدد واقعات کا سلسلہ گزشتہ روز اس وقت شروع ہوا، جب متحدہ قومی موومنٹ سے تعلق رکھنے والے سندھ اسمبلی کے رکن رضا حیدر کو نامعلوم افراد نے ان کے محافظ سمیت گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔ رضا حیدر کے قتل کے بعد خونریز تشدد کا سلسلہ شروع ہو گیا اور پورا شہر خوف و ہراس کی لپیٹ میں آ گیا۔
شہر میں شدید کشیدگی ابھی تک برقرار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے کراچی کے تمام تعلیمی ادارے بند کر دئے ہیں اور پہلے سے طے شدہ امتحانات ملتوی کر دئے گئے ہیں۔ ایم کیو ایم کی جانب سے اعلان کردہ تین روزہ سوگ کے پہلے دن منگل کو کراچی میں تما م کاروباری مراکز بند رہے اور سڑکیں سنسان رہیں۔
متحدہ قومی موومنٹ نے اپنے اس رہنما کے قتل کی ذمہ داری عوامی نیشنل پارٹی ANP پر عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ رضا حیدر وزارت داخلہ کی اس فہرست میں شامل تھے، جس میں شامل افراد کی جان کو خطرہ تھا اور جن کے بارے میں حکومت کو باقاعدہ طور پر آگاہ بھی کیا گیا تھا۔
ایم کیو ایم کے رہنما فیصل سبزواری نے اس حوالے سے اے این پی سندھ کے صدر شاہی سید کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ شاہی سید نے اپنے بیان میں جو دھمکی آمیز رویہ اختیار کیا تھا، اس کی وجہ سے شکوک و شبہات پیدا ہوئے ہیں۔ دوسری جانب اے این پی سندھ کے صدر شاہی سید نے ایم کیو ایم کے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے اس دوہرے قتل کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
تاہم وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کے اس بیان نے صورتحال کو یکسر تبدیل کر دیا ہے کہ ایم کیو ایم کے اس رہنما کے قتل میں انتہاپسند کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ ملوث ہے۔ ایم کیو ایم نے وزیر داخلہ کے بیان کو رد تو نہیں کیا تاہم وہ اے این پی کو بری الذمہ قرار دینے پر بھی تیار نہیں ہے۔
ملک کی اقتصادی شہ رگ قرار دیا جانے والا شہر کراچی طویل عرصے سے بد امنی، قتل و غارت اور سیاسی بنیادوں پر ہدف بنا کر قتل کرنے کے واقعات کی وجہ سے توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت اور خفیہ ادارے ان سیاسی قوتوں اور گروپوں کو بخوبی جانتے ہیں، جو ان خونریز واقعات کے محرک ہیں تاہم سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے مبینہ طور پر اس کشیدگی کا رخ انتہا پسند گروپوں کی طرف موڑنے کی کوشش کی ہے۔
رپورٹ: رفعت سعید، کراچی
ادارت: عصمت جبیں