’سن 1890 کا کراچی‘: شام کے سائے گہرے ہو چلے ہیں۔ گرمی اور نمی کی شدت کو کراچی کی سمندری ہواؤں نے معتدل کر دیا ہے۔ نقشہ ساز 'موزز جے سومیک‘ کی وسیع میز پر چاروں جانب کاغذات ہوا کے جھونکوں سے بکھرے جا رہے ہیں۔ سومیک 'فلیگ اسٹاف ہاؤس‘ کا نقشہ بنانے میں منہمک ہیں۔ انہوں نے فلیگ اسٹاف ہاؤس کی ڈیزائننگ میں سمندری ہواؤں سے فائدہ اٹھانے کا سوچا۔ فلیگ اسٹاف ہاؤس کا نقشہ تیار ہو گیا، جس میں ہوا داری اور روشنی کے لیے جا بجا کھڑکیاں اور روشن دان موجود ہیں۔
’2024 کا کراچی‘: میٹروپول ہوٹل کے چوراہے سے ذرا پہلے بائیں جانب ماضی کا فلیگ اسٹاف ہاؤس اور آج کا قائد اعظم ہاؤس میوزیم ہے، جہاں بجلی ناپید اور چھتیں بارشوں میں ٹپکتی ہیں۔ لائبریری جہاں برسوں سے کوئی پڑھنے والا نہیں آیا، خستہ حال ہے۔ جون 1875 میں لاہور میں جنم لینے والے کراچی کے پہلے مشہور نقشہ ساز 'موزز جے سومیک‘ تھے، جن کے اجداد کا تعلق سیفاردیک (ہسپانوی یہودی) اور مزراہی (عراقی یہودی) گھرانوں سے تھا۔ موزز نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ کراچی میں گزارا اور 1940ء کے عشرے کے وسط میں لندن جا بسے۔
کراچی کی تعمیرات میں ان کا کردار انتہائی اہم ہونے کے باوجود آج کتنے لوگ یہ جانتے ہوں گے کہ لکی اسٹار صدر پر واقع کراچی گوون فیڈریشن ہال، ماما پارسی اسکول، عبداللہ ہارون روڈ کا ایڈورڈ ہاؤس، کیماڑی پر قائم میولز مینشن، بندر روڈ کا خالق دینا ہال (غالباً وکٹوریہ مینشن بھی) موزز سومیک کے فن تعمیر کے اعلیٰ نمونے ہیں، لیکن ان عمارتوں کی تزئین و آرائش یا تحفظ کرنا تو دور کی بات، ہم تو اس شہر کے پہلے نقشہ ساز کا نام تک لینا گوارا نہیں کرتے۔
’سن 1893 کا کراچی‘: کراچی بلدیہ میں بطور سرویئر تعینات سولومن ڈیوڈ ایک محنتی اور ایماندار یہودی ہیں۔ چند برس قبل سولومن نے اپنے ہم مذہب افراد اور حکومت وقت کی مدد سے کراچی میں ایک یہودی عبادت گاہ قائم کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا، جو اب پایہ تکمیل کو پہنچ چکا ہے۔ زرد اینٹوں سے آراستہ اس عمارت کے بیرونی دروازے پر اردو، عبرانی اور انگریزی میں لکھے ''میگن شالوم سناگوگ‘‘ کا بورڈ آویزاں ہوتے دیکھ کر سولومن ڈیوڈ اور اس کی بیوی شیولا بائی خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔
’سن 1902 کا یہودی قبرستان‘: سولومن ڈیوڈ کی آخری رسومات ادا کی جا چکی ہیں اور اب انہیں ان کی آخری آرام گاہ یعنی کراچی کے قدیم قبرستان کی جانب لے جایا جا رہا ہے۔ یہاں پارسیوں، مسیحیوں اور یہودیوں کے علاوہ مسلمانوں کی قبریں بھی موجود ہیں۔ قبرستان میں درختوں اور پھولوں کے پودوں کے درمیان ہزاروں انسانوں کی سنگ مرمر کی بنی قبریں ترتیب اور قیمتی کتبوں سے سجی ہیں۔
’سن 2024 کا میوہ شاہ قبرستان‘: پرانے حاجی کیمپ کے جنوب مشرق میں قائم کراچی کا قدیم قبرستان، جسے میوہ شاہ قبرستان کہا جاتا ہے، اجاڑ اور ویران پڑا ہے۔ درختوں اور پھول پودوں کے بجائے وہاں کانٹے دار جھاڑیاں اگی ہیں۔ انہی جھاڑیوں میں گھرا ایک چھوٹا سا مقبرہ ہے، جس میں کراچی کی واحد یہودی عبادت گاہ شالوم سناگوگ کے بانی سولومن ڈیوڈ اور ان کی بیوی شیولا بائی کی خستہ حال قبریں موجود ہیں۔ بقیہ قبروں پر لگے کتبوں کے سنگ مرمر اور قیمتی پتھر بھی اکھاڑ کر لے جائے جا چکے ہیں۔ البتہ سینکڑوں قبروں پر بنا ہوا ستارہ داؤد آج بھی موجود ہے۔
میوہ شاہ قبرستان کی حفاظت پر مامور ایک بلوچ عورت اور اس کا بیٹا عارف تلسی نازبو کے پتوں سے پھول چن کر الگ کر رہے ہیں۔ اس خاتون کے بقول، ''کبھی کبھی بھولے بھٹکے لوگ، جو تصویریں بنانےکے بہانے اپنے پیاروں سے ملنے یہاں آتے ہیں، ہمارے ہاتھ پر اچھی رقم رکھ جاتے ہیں اور کسی خاص قبر پر بیٹھ کر گھنٹوں روتے ہیں۔ اب کراچی میں گنے چنے یہودی رہ گئے ہیں، جو بہائی یا پارسی شناخت لیے جی رہے ہیں۔ وہ اپنے پیاروں کو اب دفناتے بھی بہائی قبرستان گلستان جاوید میں ہیں۔‘‘ اس بلوچ عورت کے وجود میں تلسی نازبو کی مہک رچی ہوئی ہے۔
’سن 1930 کا کراچی‘: معروف پارسی سماجی کارکن اردشیر ماما کا فلاحی ادارہ ماما پیلس نقصان میں جا رہا ہے۔ سائمن وائس کراچی کی ایک مشہور یہودی کاروباری شخصیت ہیں، جو گریٹ ویسٹرن ہوٹل کے مالک ہیں۔ ان کے بیٹے سڈنی مارڈر کلارنی ہوٹل چلاتے ہیں۔ نقشہ ساز موزز سومیک کی شادی سائمن وائس کی بیٹی اور سڈنی مارڈر کی بہن ماریا سائمن سے ہوئی۔ سڈنی مارڈر نے ماما پیلس 1933 میں خرید کر اپنا ہوٹل یہاں منتقل کر دیا اور اس کو نام دیا ''کلارنی ہوٹل۔ مارڈر پیلس‘‘ جو بعد میں فقط پیلس ہوٹل کہلایا۔ حالات نے پلٹا کھایا تو سڈنی مارڈر نے 1947 میں یہ ہوٹل بیچ کر بیرون ملک کی راہ لی۔ 1970ء کے عشرے میں پیلس ہوٹل مسمار کر دیا گیا اور اس کی جگہ شیریٹن ہوٹل بنایا گیا، جو اب 'موون پک‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
’سن 1939 کا کراچی‘: رنچھوڑ لائن کے مرکزی چوک پر میگن شالوم سناگوگ میں آج کافی گہما گہمی ہے۔ عمارت رنگ برنگے قمقموں سے سجی ہوئی ہے۔ ہر عمر کی عورتیں اور مرد نئے اور دلکش ملبوسات زیب تن کیے ہوئے ہیں کیونکہ آج سمہاٹ تورہ (Simhat Torah) کا آخری دن ہے۔ میگن شالوم کے عقبی حصے میں کھجور کے پتوں سے بنایا ہوا عارضی گھر سُکّا (Sukkha) ہے، جہاں کچھ مرد اور عورتیں توریت پڑھ رہے ہیں جبکہ نوجوان یہودی لڑکے لڑکیوں کا ایک گروپ سناگوگ کے اندرونی حصے میں رقص اور کھیلوں کے مقابلے میں حصہ لے رہا ہے۔ ان میں سے بیشتر کراچی گرامر اسکول کے طلبا و طالبات ہیں۔ میگن شالوم سناگوگ کو قائم ہوئے سو سال بیت چکے ہیں۔
برصغیر کی تقسیم اور اسرائیل کے وجود میں آنے کے بعد میگن شالوم پر کئی حملے ہوئے۔ آگ بھی لگائی گئی۔ بالاخر 1988 میں اس یہودی عبادت گاہ کو مسمار ہی کر دیا گیا۔ صرف اس کا بورڈ ہوا میں معلق رہا۔
’سن 2024 کا کراچی‘: میگن شالوم کی جگہ اب مدیحہ اسکوائر کھڑا ہے، جہاں کے مکینوں کو غالباً اندازہ بھی نہیں کہ یہ زمین کبھی یہودی عبادت خانے کے طور پر استعمال ہوتی تھی جسے عرف عام میں سناگوگ کہا جاتا تھا۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔