کراچی ٹیسٹ کے تیسرے دن کے اختتام پر آسٹریلوی کرکٹ ٹیم کی پوزیشن انتہائی مستحکم ہو چکی ہے لیکن اگر یہ ٹیسٹ برابر ہوا تو وجہ صرف یہی ہو گی کہ آسٹریلیا نے پاکستان کو فالو آن نہیں کیا۔
اشتہار
کراچی ٹیسٹ کے تیسرے دن کے اختتام پر آسٹریلوی کرکٹ ٹیم نے ایک وکٹ کے نقصان پر81 رنز بنا لیے ہیں اور اسے مجموعی طور پر پاکستان پر 489 رنز کی برتری حاصل ہو گئی ہے۔
جب پاکستان کی ٹیم اپنی پہلی اننگز میں صرف 148 رنز پر ڈھیر ہو گئی تو یہ خیال تھا کہ آسٹریلوی ٹیم پاکستان کو فالو آن کرے گی لیکن ٹیم مینجمنٹ کا فیصلہ اس حق میں نہیں ہوا۔ آسٹریلیا نے اپنی پہلی اننگز میں 556 رنز بنائے تھے اور اسے پاکستان پر 408 رنز کی برتری حاصل ہوئی۔
آسٹریلوی بولرز نے 53 اوورز میں ہی پاکستان کے ٹیم کو نمٹا دیا تھا جبکہ فاسٹ بولرز مچل سٹارک اور پیٹ کمنز نے تیرہ تیرہ اوورز ہی کرائے تھے۔ گو کہ کراچی میں دھوپ کی تپش تیز تھی لیکن اتنی بھی نہیں کہ بولرز اتنے اوورز کرانے کے بعد تھک جائیں اور انہیں ایک دن کے آرام کی ضرورت پڑ جائے۔
تاہم آسٹریلوی ٹیم نے فیصلہ کیا کہ وہ پاکستان کو دوبارہ بلے بازی کرانے کے بجائے خود بیٹنگ کرے گی۔ اس بات پر جنوبی افریقی کامنٹیٹر مائیک ہیسمان نے بھی حیرت کا اظہار کیا کہ پاکستان کو فالو آن کیوں نہیں کیا گیا؟
وقار یونس کے مطابق آج کے دور میں فالو آن کرنے کا رحجان کم ہوا ہے کیونکہ ٹیم منجمنٹ بولرز کو کچھ آرام دینا چاہتی ہے۔ تاہم آسٹریلیا کے اس فیصلے پر ان کا لہجہ بھی تیقن سے عاری ہی تھا۔
بلے بازوں کے چھکے چھڑا دینے والے گیند باز
کرکٹ کی دنیا میں سن 1990 کے دہائی سے لے کر اب تک سینکڑوں گیند بازوں نے بین الاقوامی کرکٹ کھیلی۔ تاہم ان میں چند ہی ایسے باؤلر تھے جو حریف بلے بازوں کے اعصاب پر سوار ہونے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
تصویر: Getty Images/C. Mason
وسیم اکرم (1984 تا 2003)
چھوٹے رن اپ کے ساتھ بائیں بازو سے تیز رفتار سوئنگ باؤلنگ کرنے والے وسیم اکرم کو خطرناک ترین باؤلرز میں سرفہرست کہنا غلط نہ ہو گا۔ دو دہائیوں پر مبنی اپنے کیریئر میں انہوں نے انتہائی ماہر بلے بازوں کے ناک میں بھی دم کیے رکھا۔ وسیم ایک روزہ میچوں میں پانچ سو وکٹیں لینے والے واحد تیز گیند باز ہیں۔ انہوں نے ایک روزہ میچوں میں بھی 414 وکٹیں حاصل کر رکھی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tallis
وقار یونس (1989 تا 2003)
وسیم اکرم اور وقار یونس کی جوڑی بھی خطرناک ترین باؤلرز میں شمار کی جاتی تھی۔ وقار یونس وکٹوں کی دوڑ میں وسیم اکرم سے پیچھے رہے۔ ان کے تیز رفتار اِن کٹرز خاص طور پر دائیں بازوں سے بیٹنگ کرنے والے بلے بازوں کی وکٹیں اڑا دیا کرتے تھے۔ وقار یونس نے بین الاقوامی ٹیسٹ میچوں میں 373 اور ایک روز میچوں میں 416 وکٹیں حاصل کیں۔
تصویر: AP
کرٹلی ایمبروز (1988 تا 2000)
سن نوے کی دہائی میں ویسٹ انڈیز کے کرٹلی ایمبروز اور کرٹنی واش کی جوڑی مخالف ٹیم کے بلے بازوں کو ناکوں چنے چبوانے میں شہرت رکھتی تھی۔ ایمبروز نے واش کے مقابلے میں وکٹیں تو کم حاصل کیں لیکن ان کا بلے بازوں پر دبدبہ کہیں زیادہ رہتا تھا۔ چھ فٹ سات انچ قد والے دراز قامت باؤلر کا شمار اپنے وقت کے خطرناک ترین گیند بازوں میں ہوتا تھا۔
تصویر: Imago Images/Mary Evans
شین وارن (1992 تا 2007)
آسٹریلوی لیگ اسپنر شین وارن بلے بازوں کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوتے تھے۔ شین وارن کو نہ صرف ہاتھ میں پکڑی گیند کو سپن کرنے میں مہارت حاصل تھی بلکہ وہ اپنے سامنے کھڑے بلے باز کے اعصاب پر سوار ہو جایا کرتے تھے۔ بلے باز کے دماغ کو پڑھ لینے کی صلاحیت انہیں مزید خطرناک بنا دیتی تھی۔ انہوں نے ٹیسٹ میچوں میں 708 وکٹیں حاصل کیں۔
تصویر: dapd
متھیا مرلی دھرن (1992 تا 2011)
سری لنکن اسپنر ٹیسٹ اور ون ڈے میں سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے والے کھلاڑی ہیں۔ انہوں نے صرف زیادہ وکٹیں ہی نہیں حاصل کیں، بلکہ بلے بازوں پر ان کا رعب بھی بہت تھا۔ دنیا کے ماہر ترین بلے باز بھی ان کی انوکھی آف اسپن باؤلنگ کا مقابلہ کرتے وقت چوکس ہو جاتے تھے۔ مرلی دھرن نے اپنے کیریئر کے دوران ٹیسٹ میچوں میں 800 اور ون ڈے میں 534 وکٹیں حاصل کیں۔
تصویر: AP
گلین میک گَرا (1993 تا 2007)
عالمی سطح پر تیز گیند بازی میں لائن اور لینتھ کے اعتبار سے میک گرا کا شاید ہی کوئی دوسرا باؤلر مقابلہ کر پائے۔ بلے بازوں کو باندھ کر رکھنے والے آسٹریلوی گیند باز نے ٹیسٹ میچوں میں 563 اور ون ڈے میچوں میں 381 وکٹیں حاصل کیں۔
تصویر: Getty Images/C. Mason
انیل کمبلے (1990 تا 2008)
بھارتی لیگ اسپنر انیل کمبلے گزشتہ چھ دہائیوں کے دوران ایسے واحد باؤلر ہیں جنہوں نے ٹیسٹ میچ کی ایک اننگز میں 10 وکٹیں حاصل کیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Kiran
ثقلین مشتاق (1995 تا 2004)
عالمی کرکٹ میں ون ڈے میچ کے آخری اوورز میں اسپن باؤلنگ کرانے اور ’دوسرا‘ متعارف کرانے والے پاکستان آف سپنر ثقلین مشتاق ہی ہیں۔ ثقلین 200 ون ڈے وکٹیں حاصل کرنے والے کم عمر ترین گیند باز بھی ہیں۔
تصویر: Imago Images/Mary Evans
شان پولک (1995 تا 2008)
جنوی افریقہ کے شان پولک نے کئی ٹاپ آرڈر بلے بازوں کو دفاعی حکمت عملی اختیار کرنے پر مجبور کیے رکھا۔ ان کی رفتار بہت تیز نہیں تھی لیکن عمدہ لائن اور لینتھ اور اس میں بھی ایک خاص تسلسل، ان کی کامیابی کا راز رہا۔ پولک نے ٹیسٹ میچوں میں 421 اور ون ڈے میں 393 وکٹیں حاصل کیں۔
تصویر: Imago Images/Colorsport
شعیب اختر (1998 تا 2011)
پاکستانی گیند باز شعیب اختر کی انتہائی تیز رفتار باؤلنگ نے انہیں ایک انتہائی خطرناک باؤلر بنایا۔ 150 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے آنے والے باؤنسرز اور یارکرز ان کے سامنے کھڑے بلے بازوں پر ہیبت طاری کر دیتے تھے۔ شعیب اختر کا سامنا کرتے وقت ساروو گنگولی، برائن لارا اور گیری کرسٹن جیسے بلے باز بھی پریشان دکھائی دیتے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Kodikara
لاسیت ملنگا (2004 سے اب تک)
سری لنکا کے تیز گیند باز لاسیت ملنگا نے اپنے کیریئر کے شروع ہی میں منفرد باؤلنگ ایکشن اور تیز رفتار یارکرز کے ساتھ بلے بازوں کی نیندیں حرام کر دی تھیں۔ ملنگا اب بھی کرکٹ کھیل رہے ہیں لیکن ان کی رفتار کچھ کم پڑ چکی ہے۔ انہوں نے اپنی زیادہ تر وکٹیں سن 2007 اور سن 2014 کے درمیان حاصل کیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/empics/PA-Wire/S. Cooper
جسپرت بمرا (2016 سے اب تک)
بھارتی گیند باز جسپرت بمرا گزشتہ چند برسوں کے دوران ایک خطرناک باؤلر بن کر ابھرے ہیں۔ گیند کی رفتار میں غیر معمولی انداز میں تغیر اور انتہائی درست یارکرز کے باعث بمرا خاص طور ڈیتھ اوورز میں انتہائی خطرناک باؤلر ہیں۔ بمرا 60 ون ڈے میچوں میں سو وکٹیں اور درجن بھر ٹیسٹ میچوں میں بھی 60 سے زائد وکٹیں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Dennis
12 تصاویر1 | 12
اب اگر آسٹریلوی ٹیم چوتھے دن لنچ سے کچھ دیر قبل پاکستان کو بلے بازی کی دعوت دیتی بھی ہے تو پاکستانی بلے بازوں کا مورال کچھ بلند ہی ہو گا، کیونکہ کراچی کی وکٹ بلے بازوں کو معاونت فراہم کر رہی ہے۔
پاکستان کی پہلی اننگز میں آسٹریلوی بولرز کو اکیسویں اوورز میں ہی ریورس سونگ مل گئی تھی، جس کی وجہ سے بالخصوص سٹارک نے شاندار بولنگ کی۔ تاہم ضروری نہیں کہ دوسری اننگز میں بھی آسٹریلوی بولرز یہ ردھم برقرار رکھنے میں کامیاب رہیں۔
کراچی کی وکٹ پر دراڑیں بڑی ہوتی جا رہی ہیں۔ سورج کی تیش سے یہ وکٹ مزید خراب ہو گی۔ وکٹ کو دیکھتے ہوئے اسی لیے آسٹریلیا نے ٹاس جیت کر پہلے بازی کا فیصلہ کیا تھا۔
آسٹریلوی ٹیم شاید پانچویں دن بیٹنگ نہیں کرنا چاہتی تھی، اس لیے بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس نے پاکستان کو فالو آن نہیں کیا۔ تاہم اگر فالو آن کیا جاتا تو آسٹریلیا کو غالبا دوسری اننگز میں بلے بازی کے لیے میدان میں اترنا ہی نہ پڑتا اور وہ اننگز سے ہی یہ میچ جیت جاتی۔
اب دیکھنا ہے کہ پاکستانی بلے باز اپنی غلطیوں سے کیسے سیکھتے ہیں اور کس انداز میں بلے بازی کرتے ہیں۔ یہ بات تو یقینی ہے کہ اب انہیں اسکور نہیں بنانا بلکہ صرف کریز پر جم کے کھڑے رہنا ہے۔ وکٹ جتنی بھی خراب ہو، اگر اس وکٹ پر رسک نہ لیا جائے تو آؤٹ ہونا کچھ مشکل ہی ہے۔
اگر یہ ٹیسٹ میچ بھی برابر ہوا تو یقینی طور پر آسٹریلیا کا پاکستان کو فالو آن نہ کرنا ہی بنیادی اور بڑی وجہ ہو گا۔ راولپنڈی ٹیسٹ میں پاکستانی بلے بازوں کا انداز دیکھتے ہوئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ کراچی ٹیسٹ بھی ڈرا کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔