1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی پولیس پر حملہ ساتھیوں کا بدلہ ہے، پاکستانی طالبان

رفعت سعید، کراچی13 فروری 2014

کراچی پولیس کے اہلکاروں کو لے جانے والی ایک بس کو بم دھماکے کا نشانہ بنانے کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کر لی ہے۔ اس حملے میں 13 پولیس اہلکار ہلاک جبکہ 46 دیگر زخمی ہوئے۔

تصویر: Reuters

حملے کا شکار ہونے والی بس میں سوار اہلکار بلاول ہاؤس اور سرکاری عمارات پر حفاظتی ڈیوٹیوں کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ کراچی کے علاقے رزاق آباد میں قائم پولیس ٹریننگ سنٹر سے 70 پولیس اہلکاروں کو لے کر جیسے ہی بس سڑک پر آئی وہاں پہلے سے کھڑی گاڑی میں زودار دھماکا ہو گیا۔ یہ دہشت گردانہ حملہ گزشتہ برس ستمبر میں شروع ہونے والے کراچی آپریشن کے دوران سب سے شدید حملہ ہے۔ جس کے بعد پانچ ماہ کے دوران دہشت گردی کا شکار ہونے والے پولیس اہلکاروں کی تعداد 78 ہوگئی ہے۔

کالعدم تحریک طالبان نے کراچی میں پولیس بس پر ہونے والے بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کرلی ہےتصویر: Reuters

پولیس افسران اور صوبائی حکومت کے وزراء اور وزیر اعلٰی سندھ نے اس دہشت گردانہ حملے کو کراچی آپریشن کا ردعمل قرار دیا ہے۔

آئی جی سندھ شاہد ندیم بلوچ کے مطابق سی سی ٹی وی کیمرے سے حاصل ہونے والی فوٹیج سے معلوم ہوا ہے کہ صبح سات بجکر سات منٹ پر ایک شخص نے سڑک کنارے سفید رنگ کی ہائی روف کھڑی کی اور وہاں سے چلا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سات بجکر چالیس منٹ پر ہونے والا یہ دھماکہ ریمونٹ کنٹرول کے ذریعے کیا گیا۔

کالعدم تحریک طالبان نے کراچی میں پولیس بس پر ہونے والے بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد کا کہنا تھا کہ ہم نے کراچی پولیس سے اپنے ساتھیوں کا بدلہ لیا ہے۔

پانچ ماہ کے دوران دہشت گردی کا شکار ہونے والے پولیس اہلکاروں کی تعداد 78 ہوگئی ہےتصویر: RIZWAN TABASSUM/AFP/Getty Images

وزیر اعلٰی سندھ سید قائم علی شاہ نے جناح ہسپتال میں زخمی پولیس اہلکاروں کی عیادت کے دوران اس حملے کو ٹارگیٹڈ آپریشن کا ردعمل قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ حملے کے باوجود پولیس کے حوصلے بلند ہیں اور دہشت گردی کی خاتمے کے لیے کوششیں جاری رہیں گی۔ ان کا کہنا تھا دہشت گرد بزدلانہ کاروائیوں سے حکومت کے حوصلے پست نہیں کرسکتے۔ انہوں نے حملے میں جاں بحق اہلکاروں کے لیے 20 لاکھ روپے فی کس اور زخمیوں کے لیے دو لاکھ روپے امداد کا بھی اعلان کیا۔

ایم کیو ایم کے چار رکنی وفد نے بھی زخمی پولیس اہلکاروں کی عیادت کی۔ اس موقع پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے حکومت سندھ کو مشورہ دیا کہ وہ پولیس کے متعلق پالیسی پر نظرثانی کریں۔ ڈاکٹر صغیر احمد نے کہا کہ ایم کیو ایم دہشت گردی کے خلاف اپنی پالیسی پر قائم ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس مسئلہ کے حل کے لیے مؤثر اور مربوط اقدامات کرے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت دہشت گرد عناصر کے خلاف آپریشن کر کے اور انہیں قانون کے کٹہرے میں لائے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق کراچی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں پر مسلسل حملوں کا بالواسطہ یا بلاواسطہ تعلق کراچی آپریشن سے ضرور ہے۔ کیونکہ ماضی میں جب اس طرح کے آپریشن ہوئے، پولیس کو بھاری نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں