1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی کی ترقی، صوبے اور وفاق کی سیاسی کشمکش کی نظر

31 مارچ 2019

پاکستانی وزير اعظم نے کراچی کی ترقی کے ليے 162 ارب روپے کا اعلان کيا ہے۔ ليکن کيا اس ترقی کی راہ ميں رکاوٹ بننے والی سياسی جماعتوں کے اختلافات اور سرکاری اداروں کی طرف سے تعطلی کے مسائل حل ہو پائيں گے؟

Karachi Stadtansicht
تصویر: picture-alliance/Zumapress/as3

پاکستان کے سب سے بڑے اور کاروباری لحاظ سے اہم شہر کراچی کے علاقے صدر کی تاريخی ايمپريس مارکيٹ ميں مصالہ جات فروخت کرنے والے محمد شکيل عباسی حکومتی اقدامات سے نالاں دکھائی ديتے ہيں۔ ان کے مطابق غير قانونی تجاوزات گرانے کے ليے حکومت کی حاليہ کارروائی کے بعد کئی دکان دار بے روزگار ہو گئے ہيں۔ عباسی مزيد کہتے ہيں، ’’ميرا کاروبار آدھا ہو کر رہ گيا ہے۔‘‘ کارروائی کے نتيجے ميں اتنی زيادہ تعداد ميں دکانيں گرا دی گئيں کہ اب مارکيٹ ميں زيادہ گاہک بھی نہيں آتے۔

رواں سال جنوری ميں عدالت عظمیٰ کے احکامات کے تحت شہر کے تاريخی علاقے سے غير قانونی تجاوزات گرانے کی باقاعدہ مہم شروع کی گئی۔ عباسی کا ماننا ہے کہ ملک اور شہر کی ترقی کے ليے يہ تبديلياں لازمی تو ہيں ليکن ان کا طريقہ کار درست نہيں۔

وزير اعظم پاکستان عمران خان نے کراچی کی ترقی کے ليے ايک روز قبل 162 بلين روپے کا اعلان کيا۔ ان رقوم سے شہر ميں ٹرانسپورٹ اور نکاسی کے نظاموں کو بہتر بنايا جانا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا، ’’ہميں اس شہر کی ترقی کے ليے کوئی ماسٹر پلان ترتيب دينا ہوگا اور اس بات کا بھی تعين کرنا پڑے گا کہ کراچی کی حدود کہاں تک ہيں اور آيا ہم اس شہر ميں مزيد پھيلاؤ چاہتے ہيں۔‘‘

تاريخی ايمپريس مارکيٹتصویر: picture-alliance/Zumapress

سن 1960 کی دہائی ميں کراچی ميں ايشيا کی سب سے بلند عمارت ہوا کرتی تھی۔ شہر کی نائٹ لائف اپنی مثال آپ تھی اور سياحت بھی عروج پر تھی۔ ليکن آج کراچی شہر کو ٹريفک، پانی کی قلت، بجلی کی لوڈ شيڈنگ اور جرائم کی اونچی شرح جيسے بيشتر مسائل کا سامنا ہے۔ کراچی ميں ايک بہت بڑا مسئلہ ٹريفک جام کا ہے۔ اندازوں کے مطابق سالانہ بنيادوں پر تقريباً دو بلين ڈالر کے برابر کا نقصان ٹريفک کی روانی متاثر ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔

ماہرين کا کہنا ہے کہ مقامی سياسی جماعتوں کے اختلافات اور حکومت کی لاپرواہی اس شہر کی ترقی کی راہ ميں رکاوٹ ہيں۔ کراچی کے ليے اشد ضرورت کی حامل ايک بس سروس اور شہر کے اندر ايک ريل سروس کی بحالی دونوں ہی منصوبے تعطلی کا شکار ہيں۔ يہ ٹرانسپورٹ اسکيميں اسلام آباد کی منتظر ہيں کہ کب بسيں فراہم کی جائیں گی اور کب لوکل ٹرین سروس کے سلسلے میں نئی لائنيں بچھانے کے ليے کمپنياں پيشکش کريں گی۔ فيڈرل ڈيولپمنٹ کارپوريشن کے چيف ايگزيکٹو محمد صالح فاروقی بس منصوبے کے نگران ہيں۔ انہوں نے بتايا کہ اس ضمن ميں وفاقی و صوبائی حکومتوں کے مابين سمجھوتہ جلد متوقع ہے۔ اپنی تکميل پر يہ منصوبہ يوميہ بنيادوں پر ڈھائی لاکھ افراد کے ليے آمد و رفت کا ذريعہ بن سکے گا۔ تاہم رواں سال جنوری سے لے کر اب تک اس منصوبے پر کوئی پيش رفت نہيں ہو سکی ہے۔

کراچی کے ناظم وسیم اختر نے اس بارے اپنی رائے ديتے ہوئے کہا، ’’کراچی کی ذمہ داری کوئی قبول نہیں کر رہا، خواہ وہ وفاقی حکومت ہو یا پھر صوبائی حکومت۔‘‘ دوسری جانب سندھ کے صوبائی وزیر برائے ٹرانسپورٹ  اویس قادر شاہ نے ریل اور بس منصوبے میں تعطلی کی ذمہ داری وفاقی حکومت پر ڈالتے ہوئے کہا کہ وفاق ميں صرف سیاسی کھیل کھیلا جا رہا ہے۔

عالمی بينک کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی مجموعی قومی پيداوار ميں کراچی بيس فيسد کا شراکت دار ہے۔ سابق وزير خزانہ مفتاح اسمائيل نے کہا کہ کراچی کی معيشت ميں بہتری سے ملک کی اقتصادی ترقی جڑی ہے۔ ان کے بقول اس وقت کراچی ملک کا واحد ايسا شہر ہے، جہاں کی بندرگاہ فعال ہے اور وہ يہ تمام تر تجارت کا مرکز ہے۔

ع س / ع آ، روئٹرز نيوز ايجنسی

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں