کراچی کے ابتر ہوتے ہوئے حالات اور سرکردہ شخصیات کے دورے
26 جون 2016آرمی چیف نے کہا کہ وہ کراچی کو دہشت گردوں سے نجات دلا کر دم لیں گے تاہم تجزیہ کاروں کی رائے میں یہ کام امن عامہ سے متعلق صوبائی اداروں کی تنظیم نو کے بغیر ناممکن نہیں تو قدرے مشکل ضرور ہے۔
گزشتہ ہفتے کراچی سے سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے بیٹے اویس شاہ کے دن دہاڑے اغوا اور عالمی شہرت یافتہ قوال اور ثنا خواں امجد فرید صابری کے قتل کے بعد وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف اتوار کی سہ پہر کراچی پہنچے۔
وفاقی وزیر داخلہ نے اپنی آمد کے فوراً بعد گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان سے ملاقات کی جبکہ برّی فوج کے سربراہ راحیل شریف ڈی جی آئی ایس آئی جنرل رضوان اختر اور کور کمانڈر کراچی جنرل نوید مختیارکے ہمراہ رینجرز ہیڈ کوارٹرز پہنچے، جہاں آپریشن کی کمان کرنے والے ڈی جی رینجرز لیفٹینٹ جنرل بلال اکبر نے آپریشن سے متعلق بریفنگ دی جبکہ چیف جسٹس کے مغوی بیٹے کی بازیابی اور امجد صابری کے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے کیے جانے والے اقدامات سے بھی شرکاء کو آگاہ کیا گیا۔ آرمی چیف نے رینجرزکی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا اور دہشت گردی کے حالیہ واقعات میں ملوث کرداروں کو جلد از جلد عدالت کے کٹہرے میں لانے کی ہدایت کی۔
آرمی چیف نے رینجرز کے جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ کراچی میں بحالی امن کے لیے رینجرز کی قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور جوانوں کی ثابت قدمی اور مقصد کے حصول کے لیے ان کا جذبہ قابل تحسین ہے، ’وہ وقت دور نہیں جب دہشت گرد، ان کے معالی معاونین اور سہولت کار اپنے منطقی انجام کو پہنچیں گے‘۔
دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے گورنر سندھ کے ہمراہ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس سجاد علی شاہ کے گھر پر جا کر ان سے ملاقات کی اور یقین دہانی کروائی کہ مغوی اویس شاہ کی بازیابی کے لیے وفاقی حکومت قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ہر ممکن مدد کرے گی اور اویس شاہ کو جلد بازیاب کرایا جائے گا۔
بعد میں چوہدری نثار علی خان لیاقت آباد میں مقتول امجد صابری کی رہائش گاہ پر پہنچے، جہاں مرحوم کی والدہ سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے نثار علی خان نے قاتلوں کی جلد از جلد گرفتاری کی یقین دہانی کرائی۔ تجزیہ کاروں کی رائے میں ان دونوں ملاقاتوں کے دوران چوہدری نثار علی خان خالی ہاتھ دکھائی دیے اور ان کے پاس سوائے دلاسوں اور تسلیوں کے کچھ نہیں تھا۔
سینیئر صحافی امین شاہ کے مطابق اگر ان ملاقاتوں کا مقصد کراچی میں بحالیٴ امن کی کوششوں کے لیے وفاقی حکومت کا عزم اور صوبائی حکومت کے ساتھ اظہار یکجہتی تھا تو چوہدری نثار کو کامیابی حاصل نہیں ہوئی کیونکہ وفاقی وزیر داخلہ کو اس دورے میں وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کو اپنے ساتھ رکھنا چاہیے تھا۔
سندھ حکومت پولیس کو درپیش تکنیکی مسائل کے حوالے وفاقی حکومت کے رویے پر بھی شاکی ہے۔ وزیر داخلہ سہیل انور سیال الزام عائد کر چکے ہیں کہ وفاقی حکومت کے رویے کے باعث سندھ پولیس تکینکی اعتبار سے بیس برس پیچھے ہے، جی ایس ایم لوکیٹرز کی خریداری کے لیے این او سی نہیں دیے جا رہے اور تھری جی اور فور جی کے لوکیٹرز کی منظوری بھی بہت مشکل سے دی گئی ہے، ایسی صورت حال میں وزیرداخلہ کا گورنر کے ہمراہ دورے کرنا مزید منفی تاثر دے رہا ہے۔
افطار کے بعد تمام بڑے کور ہیڈکوارٹرز میں جمع ہوئے، جہاں شہر میں امن و امان اور آپریشن کا جائزہ لینے کے لیے آرمی چیف کی زیر صدارت اجلاس منتعد ہوا۔ اجلاس میں وزیر اعلیٰ اور ان کے ماتحت اداروں کے سربراہان بھی شریک ہوئے۔ اس اجلاس میں یہ واضح پیغام دیا گیا کہ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک بلا تفریق آپریشن جاری رہے گا۔