1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی 2013ء: جرائم اور ان کی بیخ کنی کی کوششیں

رفعت سعید، کراچی30 دسمبر 2013

سال 2013ء روشنیوں کے شہر کراچی کے لیے کئی لحاظ سے اہم رہا۔ سیاسی، انتظامی اور معاشی سمیت دیگر حوالے سے 2013ء کے دوران کراچی میں اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں۔

تصویر: imago/Xinhua

سیاسی محاظ پر دو حلیف جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پھر سے حریف بن گئیں۔ تحریک انصاف نے ایم کیو ایم کے ووٹ بینک میں ڈینٹ ڈالا جبکہ سیاسی لحاظ سے نواز لیگ کا کراچی میں دوسرا جنم ہوا۔ معاشی اعتبار سے 2013ء کراچی کے لیے بہت زیادہ خوش آئند ثابت نہ ہوسکا۔

مگر 2013ء میں کراچی کے شہریوں کو امن و امان کے حوالے سے سب سے زیادہ سنگین صورت حال کا سامنا رہا۔ دہشت گردی، بم دھماکے، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان سمیت دیگر جرائم کی وارداتیں عروج پر رہیں۔ لیکن پھر نواز حکومت نے چار ستمبر کو وزیر اعلٰی سندھ اور گورنر کی رضامندی سے جرائم پیشہ عناصر کے خلاف آپریشن کے احکامات جاری کیے۔ کراچی پولیس کا سربراہ تبدیل کردیا گیا اور آپریشن کی سربراہی رینجرز کو دے کر نگرانی کا کام وزیر اعلٰی سندھ کے سپرد کردیا گیا۔

2013ء کے دوران کراچی میں 2371 افراد کو قتل کیا گیا اور ان میں سے 1832 ٹارگٹ کلرز کا شکار ہوئےتصویر: Reuters

کراچی پولیس کے سربراہ شاہد حیات کا دعوٰی ہے کہ پولیس اور رینجرز کی کوششوں سے شہر میں جرائم کی شرح میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ چار ستمبر سے پہلے شہر میں قتل کی وارداتوں کی یومیہ شرح 10 افراد سے زائد تھی جو اب نصف رہ گئی ہے۔

شاہد حیات کے مطابق بھتہ کی دھمکی آمیز کالز جنہوں نے آپریشن سے قبل تاجر برادری کی نیندیں حرام کررکھی تھیں، اب 80 فیصد تک کم ہوگئی ہیں۔ ان کے مطابق رواں ماہ بھتے کی دھمکی آمیز کالز کی تعداد صرف 35 رہی جبکہ 19 بھتہ خور صرف رواں ماہ گرفتار کیے گئے جبکہ گرفتار بھتہ غوروں کی مجموعی تعداد 200 سے زائد ہے۔

شاہد حیات کہتے ہیں کہ تین ماہ میں پولیس نے 11 ہزار سے زائد ملزمان کو گرفتار کیا جن کے قبضہ سے پانچ ہزار ہتھیار بھی برآمد کیے گئے۔ گاڑی چوری کی وارداتیں بھی 45 فیصد تک کم ہوگئی ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تو لگتا ہے کہ کراچی میں قیام امن کے لیے بہت کام ہورہا ہے لیکن یہ بھی سچ کراچی میں 2013ء کے دوران اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کا 10سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ 12 ماہ کے دوران اغوا برائے تاوان کے 166 مقدمات درج ہوئے۔

اغوا برائے تاوان کے مقدمات پر پولیس کے ساتھ کام کرنے والی تنظیم سیٹزن پولیس لائیزان کمیٹی CPLC کے سربراہ اہم چنائے کے مطابق اگر پورے سال کے اعداد و شمار کو ایک ساتھ دیکھا جائے تو 10 سالہ ریکارڈ ٹوٹنے کا مفروضہ درست دکھائی دیتا ہے۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ ستمبر میں آپریشن کے آغاز کے بعد سے چارماہ کے دوران صرف 25 وارداتیں رپورٹ ہوئی ہیں جبکہ بقیہ وارداتیں اس سے پہلے کی ہیں۔ احمد چنائے کہتے ہیں کہ پولیس نے 2013ء میں 11 اغواکار گروہوں کا قلع قمع کرکے 163 مغوی بازیاب کرائے اور بقیہ تین کی بازیابی کے لیے بھی کوششیں جاری ہیں۔

CPLC کراچی کی ویب سائٹ پر جرائم کے بارے میں اعداد و شمار

کراچی میں 2013ء کے دوران بھتہ خوری کا جرم سب سے زیادہ پھلا پھولا۔ امسال تاجروں کو بھتے کی 1381 پرچیاں موصول ہوئیں۔ جن میں سے 789 پرچیاں مارچ کے مہینے میں موصول ہوئیں۔ جبکہ دہشت گردوں کے خوف کی وجہ سے بڑی تعداد میں واقعات رپورٹ بھی نہیں ہوسکے۔ بھتے کی پرچیاں تاجروں، ڈاکٹرز، صنعتکاروں، دکانداروں، تعمیراتی کمپنیوں کے مالکان، اسکول اور ہوٹل مالکان کو موصول ہوئیں اور بھتہ سے انکار پر دستی بم کے 378 حملے بھی کیے گئے۔

کراچی آپریشن کی سربراہی کرنے والی رینجرز نے بھی تین ماہ کے دوران ایک 1003 چھاپوں کے دوران 978 ملزمان کو گرفتار کیا۔ ان میں 14 دہشت گرد، 104 ٹارگٹ کلرز، 143 بھتہ خور اور 12 اغوا کار شامل ہیں۔ 37 دہشت گرد مقابلوں میں مارے گئے، 10 مغوی بازیاب کرائے گئے اور بڑی تعداد میں دھماکہ خیز مواد برآمد ہوا۔

لیاری میں پولیس اور رینجرز کے جرائم پیشہ افراد سے سب سے زیادہ مقابلے ہوئےتصویر: DW

2013ء کے دوران کراچی میں 2371 افراد کو قتل کیا گیا اور ان میں سے 1832 ٹارگٹ کلرز کا شکار ہوئے۔ بم دھماکوں میں 342 افراد لقمہ اجل بنے۔ ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہونے والوں میں 113 پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔

سندھ میں پیپلزپارٹی کا مضبوط گڑھ لیاری جرائم کے حوالے سے سب سے زیادہ متاثر رہا، بم دھماکے، ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کی 85 فیصد وارداتوں کا سرا لیاری میں ملا۔ یہی وجہ ہے کہ آپریشن کے آغاز کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سب سے زیادہ چھاپے لیاری میں مارے۔ لیاری میں ہی پولیس اور رینجرز کے جرائم پیشہ افراد سے سب سے زیادہ مقابلے ہوئے اور سب سے زیادہ دہشت گرد بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں لیاری میں ہی مارے گئے۔

معروف صنعتکار میاں زاہد کے مطابق 2013ء میں بھتہ، اغوا برائے تاوان اور قتل و غارت نے صنعتی سرگرمیوں کو بے حد متاثر کیا۔ وزیرستان سمیت ملک کے دیگر حصوں سے تاجروں کو بھتہ کے لیے فون کالز موصول ہوتی رہیں جس کے باعث تاجر برادری میں خوف کا عنصر نمایاں رہا۔ میاں زاہد کے مطابق اگر موجودہ حکومت توانائی اور امن و امان کا مسئلہ حل کرلے تو معاشی ترقی میں غیر معمولی اضافہ ممکن ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں