کرایہ پندرہ یورو مگر لیے پندرہ سو، ٹیکسی ڈرائیور گرفتار
5 اپریل 2023
فرانسیسی دارالحکومت پیرس کا یہ ٹیکسی ڈرائیور ایک باقاعدہ طریقہ کار کے تحت غیر ملکی سیاحوں سے دھوکے بازی کرتا تھا۔ ایک واقعے میں تو اس نے ایک مسافر سے پندرہ یورو چالیس سینٹ کے بجائے پندرہ سو چالیس یورو کرایہ وصول کیا۔
اشتہار
فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں پولیس نے ایک ایسے دھوکے باز ٹیکسی ڈرائیور کو گرفتار کر لیا ہے، جو مسافروں کو دھوکہ دیتے ہوئے کئی گنا زیادہ کرایہ وصول کرتا تھا۔
پیرس سے شائع ہونے والے اخبار Le Parisien نے اپنی بدھ پانچ اپریل کی اشاعت میں پولیس کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ایک واقعے میں تو اس 30 سالہ ٹیکسی ڈرائیور نے سواری سے 100 گنا زیادہ کرایہ وصول کیا۔
اشتہار
ہسپانوی سیاح سے لیا جانے والا سو گنا کرایہ
اس ٹیکسی ڈرائیور کی مجرمانہ سرگرمیوں کا نشانہ اکثر پیرس جانے والے غر ملکی سیاح بنتے تھے۔ یہ ڈرائیور پولیس کی نظروں میں اس وقت آیا جب اس نے ایک ہسپانوی شہری کے ساتھ بھی اسی طرح کی دھوکے بازی کی مگر اس سیاح نے اس کے خلاف پولیس کو شکایت کر دی۔
فرانسیسی دارالحکومت میں ایک سو تیس سال قبل آئفل ٹاور کا افتتاح ہوا تھا۔ آج یہ پیرس کی ایک شناخت بن چکا ہے۔ جب اس کی تعمیر شروع ہوئی تھی تو اس کے خلاف شدید احتجاج بھی کیا گیا تھا۔
تصویر: FRANCK FIFE/AFP/Getty Images
ایک مقناطیس
ہر سال اس فن تعمیر کو دیکھنے کے لیے سات ملین سیاح آتے ہیں۔ اس طرح دنیا میں سب سے زیادہ سیاح اسی شاہکار کو دیکھنے آتے ہیں۔
تصویر: FRANCK FIFE/AFP/Getty Images
غیر معمولی
آئفل ٹاور کی بلندی تین سو میٹر سے زائد ہے۔ اپنے افتتاح کے وقت یہ دنیا کی سب سے اونچی عمارت تھی۔ اسے 1889ء کے عالمی میلے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ منصوبے کے مطابق اسے بیس سال بعد منہدم کر دیا جانا تھا۔ تاہم عسکری مواصلاتی آلات اور موسمیاتی آلات کی تنصیب کی وجہ سے یہ منہدم کیے جانے سے بچ گیا۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER/K. F. Schöfmann
جرات و حوصلہ
آئفل ٹاور انجینیئر الیگزانڈر گستاف کا شاہکار ہے۔ اس پر 7.8 ملین فرانک کی لاگت آئی تھی اور زیادہ تر اخراجات گستاف نے ہی برداشت کیے تھے۔ تاہم افتتاح کے بعد پہلے ہی برس کے دوران بڑی تعداد میں سیاحوں کی آمد سے ہونے والی آمدنی کی وجہ سے گستاف اپنے اخراجات پورے کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Baumgarten
معمہ
آئفل ٹاور کی تیاری میں اٹھارہ ہزار آہنی ٹکڑے اور پچیس لاکھ میخیں یا کیلیں استعمال ہوئی ہیں اور اس کا وزن دس ہزار ٹن سے زائد ہے۔ ہر سات سال میں اسے نیا رنگ کیا جاتا ہے اور اس کام پر تقریباً ڈیڑھ سال لگتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/chromorange/H. Czizek
تعمیر
آئیفل ٹاور کو مکمل ہونے میں دو سال اور دو مہینے کا عرصہ لگا تھا۔ پیرس میں فن کے شعبے سے تعلق رکھنے والوں نے اس آہنی مینار پر تنقید کی تھی۔ اکتیس مارچ 1889ء کو اس کے افتتاح کے موقع پر تمام تر احتجاج ختم ہو چکے تھے۔
تصویر: Getty/The Paper Time Machine
قومی شناخت
ہر شام آئفل ٹاور پر بیس ہزار برقی قمقمے روشن ہوتے ہیں۔ خصوصی مواقعوں پر تو اس مینار کو مختلف انداز میں روشن کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر چودہ جولائی کو منائے جانے والے قومی دن، فرانسیسیوں کے من پسند گلوکار جونی ایلیدے کی یوم وفات اور 2016ء کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد یہاں علامتی طور پر چراغاں کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Godong/P. Lissac
آئفل ٹاور سر کرنا
یہ تصویر فرانسیسی ماؤنٹین بائکر ہوگ ریشرڈ کی ہے۔ ان کے علاوہ کوہ پیماؤں، کراس موٹر سائیکلسٹ اور بنجی جمپ کرنے والوں نے بھی اپنے چیلنجز پورا کرنے اور نئے ریکارڈ بنانے کے لیے آئفل ٹاور کا انتخاب کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AFP/Meyer
آسمان اور زمین کے درمیان
آئفل ٹاور کی چھت پر پہنچنے والے سیاح پیرس میں نہیں بلکہ اس شہر کے اوپر ہوتے ہیں۔ یہ منظر دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے آئے ہوئے سیاح آئفل ٹاور کی تقریباً سترہ سو سیڑھیاں چڑھتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس ٹاور میں پانچ مختلف لفٹس بھی نصب ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Schmidt
آئفل ٹاور کی جاذبیت
آئفل ٹاور سے غروب آفتاب کا منظر انتہائی متاثر کن ہوتا ہے۔ اس منظر سے لطف اندوز ہونے کے لیے سیاحوں کی بڑی تعداد اس ٹاور کی چھت پر سورج کے غروب ہونے کا انتظار کرتی ہے۔ آئفل ٹاور کے بغیر پیرس ناقابل تصور۔۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Schmidt
9 تصاویر1 | 9
یہ ڈرائیور مسافروں سے کریڈٹ کارڈ کے ذریعے کرایہ وصول کرتے ہوئے بہانہ یہ بناتا تھا کہ اس کی کریڈٹ کارڈ ریڈنگ مشین درست کام نہیں کرتی، اس لیے مسافر صرف اپنے کارڈ کا پن نمبر ہی انٹر کرے اور کرائے کی رقم وہ خود انٹر کر دے گا۔
اس دوران یہ ملزم کارڈ ریڈنگ مشین پر نظر آنے والی کرائے کی رقم چھپانے کے لیے اس پر بظاہر معصومیت سے اپنا ہاتھ رکھ دیتا تھا اور مسافر کو علم نہیں ہو پاتا تھا کہ وہ کتنی رقم ادا کر رہا ہے۔
اس کی طرف سے غیر ملکی سیاحوں کے ساتھ کی جانے والی اس دھوکہ دہی کا پول اس وقت کھلا، جب اس نے ایک ہسپانوی سیاح سے بظاہر صرف 15.40 یورو کرایہ وصول کیا۔
لیکن یہ غیر ملکی اس وقت حیران رہ گیا، جب اس پر یہ انکشاف ہوا کہ اس نے تو اس ڈرائیور کی ٹیکسی میں چند منٹوں کے سفر کے لیے 1540 یورو کرایہ ادا کیا ہے۔
شانزے لیزے پر رکھے بلیوں کے مجسمے بیلجیم کے فن کار فیلیپ گیلوک کے شاہ کار ہیں۔ وہ ایسے بیس مجسمے بنا چکے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران شائقین کے بغیر عجائب گھر ویران ہو چکے ہیں۔
تصویر: Lisa Louis/DW
باوقار بلی
فیلیپ گیلوک نے اس مجسمے کو اپنی ذات سے مشابہت دی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس مجسمے میں نظر آنے والی بلی کو تخلیق کرنا ایک مشکل امر تھا۔ انہوں نے مجسمے میں بلی ٹانگوں کی تراش خراش کو اپنی ایک عمدہ کاوش قرار دیا ہے۔
تصویر: Lisa Louis/DW
بیلجیم کی روح
مجسمہ ساز فیلیپ گیلوک کا کہنا ہے کہ اس مجسمے میں بیلجیم کی روح نے ایک بار پھر جنم لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بیلجیم کو بہترین آب و ہوا اور بہت سارے ذخائر کے ساتھ شاندار ورثہ بھی درکار ہے۔ گیلوکے کے خیال میں بیلجیم کے لوگ انا کے بغیر اور عمدہ ذوق رکھتے ہیں۔
تصویر: Lisa Louis/DW
بلی کا انتقام
گیلوک کا کہنا ہے کہ ایک مرتبہ کار نے بلی کو کچل دیا تھا اور اس کے بعد’کئی کاریں بلی‘ کے نیچے آ چکی ہیں۔ بیلجیم کے اس فنکار نے طنزیہ انداز میں اس کی وضاحت کی ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ کئی افراد نے حادثات کے ڈر سے اپنی کاریں چلاناچھوڑ دی ہیں کیونکہ انہیں اپنی جانیں عزیز ہیں۔ ان کا یہ بھی مقصد ہے کہ سڑکوں پر معصوم جانوروں اور خاص طور پر کسی بلی کو حادثے کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔
تصویر: Lisa Louis/DW
دیو مالائی روایت
یونانی دیو مالا کی روایت ہے کہ ٹایٹن اٹلس نے آفاقی کہکشاں تھام رکھی ہے اور دنیا کا کنٹرول ایک بلی کے کندھوں پر دھرا ہے۔ فیلیپ گیلوک کے تمام مجسمے رواں برس جون سے فرانسیسی شہروں میں نمائش کے لیے رکھے جائیں گے اور پھر انہیں اٹلی، سوئٹزرلینڈ اور لکسمبرگ لے جایا جائے گا۔ یہ تمام مجسمے سن 2024 میں گیلوکے کے برسلز میں قائم ہونے والے ’کیٹ میوزیم‘ میں رکھ دیے جائیں گے۔
تصویر: Lisa Louis/DW
جیت کی حقدار
ہر بلی جیت کی حقدار ہے لیکن سوال یہ ہے کہ مقابلے میں کون ہے۔ پیرس کی مشہور شاہراہ پر مجسموں کی نمائش کے لیے کوئی رقم ادا نہیں کی گئی۔ دوسری جانب گیلوک نے اپنے مجسموں کی تخلیق کا خرچ برداشت کرنے کے لیے انہیں قبل از وقت فروخت بھی کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر مجسمہ تین لاکھ یورو کا ہے یعنی تین سو یورو فی کلو۔ ان کے سولہ مجسمے فروخت ہو چکے ہیں۔
تصویر: Lisa Louis/DW
بھاری وزن
انسان اپنا وزن کم کرنے کے لیے انواع و اقسام کی کوششیں کرتے ہیں لیکن ایسی کوئی کوشش بلیوں کے مجسموں پر کامیاب نہیں ہو پا رہی۔ شانزے لیزے میں رکھے گئے اس مجسمے کا وزن بھی بقیہ کی طرح قریب ایک ٹن ہے۔ تمام مجسمے اور ان کے لیے بنیادی سامان بیلجیم میں تیار کیا گیا۔
تصویر: Lisa Louis/DW
اب ڈاکٹر دیکھے گا!
اس بلی سے بیوقوف مت بنیں، اس نے صرف ڈاکٹر کا لباس پہن رکھا ہے۔ اس کی پشت پر کھانا کھانے والا کانٹا ہے تا کہ وہ کسی پرندے کا شکار کر کے اسے کھا سکے۔ گیلوک کے مطابق بلی بھی انسانوں کی طرح ایک کام کرنے کے بعد اس کا الٹ سوچتی ہے۔
تصویر: Lisa Louis/DW
میاؤں کافی نہیں
اس مجسمے میں گیلوک کی پسندیدہ بلی دیکھی جا سکتی ہے۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ سنگتراش آگسٹے روڈین نے صرف ایک مجسمے کو سوچا تھا لیکن انہوں نے جس بلی کا مجسمہ بنایا ہے وہ بول بھی سکتی ہے۔
تصویر: Lisa Louis/DW
مرنے تک فن جاری رکھو
اس مجسمے کے ذریعے گیلوک نے شارلی ایبدو جریدے کے دفتر پر سن 2015 میں کیے گئے دہشت گردانہ حملے میں ہلاک ہونے والوں کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ ان کے مطابق اس حملے میں مرنے والوں کی یاد میں اب بھی آنسو نکل پڑتے ہیں۔
تصویر: Lisa Louis/DW
کیٹ واک سے آگے
فیلیپ گیلوک کی شہرت بلی کے ان مجسموں کی وجہ سے ساری دنیا میں پھیل چکی ہے۔ ان کے کامک البمز کی چودہ ملین کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر فرانسیسی بولنے والے ممالک میں فروخت ہوئی ہیں۔ وہ پچھلے تیس سالوں سے کامک لکھ رہے ہیں۔ شانزے لیزے پر ان کے مجسموں کی نمائش رواں برس پانچ جون تک جاری رہے گی۔
تصویر: Lisa Louis/DW
10 تصاویر1 | 10
صرف چند ماہ میں باسٹھ ہزار یورو ہتھیائے گئے
ملزم کی گرفتاری کے بعد دوران تفتیش پولیس کو پتہ چلا کہ اس نے گزشتہ چند ماہ کے دوران کم از کم 71 مسافروں سے اتنی زیادہ رقوم وصول کیں کہ ان کا مجموعہ 62 ہزار یورو بنتا تھا۔ بعد میں اس نے یہ رقوم یا تو کھیلوں کے مقابلوں کے نتائج پر سٹے بازی کے لیے خرچ کیں یا پھر پیرس کے بہت مہنگے ریستورانوں میں پرتعیش ضیافتوں پر۔
پولیس نے بتایا کہ ملزم کے مالی جرائم اس لیے سامنے نہیں آتے تھے کہ اس کے ہاتھوں لٹنے والے تقریباﹰ ہمیشہ ہی غیر ملکی سیاح ہوتے تھے اور وہ پیرس میں چند روز گزار کر واپس چلے جاتے تھے اور کوئی بھی ملزم کے خلاف پولیس کو شکایت نہیں کرتا تھا۔
گرفتاری کے بعد ملزم کے ڈرائیونگ لائسنس سے متعلقہ تفصیلات کا علم ہونے پر پولیس اہلکار یہ جان کر بھی حیران رہ گئے کہ وہ ٹیکسی کا باقاعدہ لائسنس رکھنے والے ڈرائیور تو تھا مگر ٹریفک قوانین کی کئی طرح کی خلاف ورزیوں کے بعد اس کا لائسنس منسوخ کر دیا گیا تھا۔ گرفتاری سے پہلے اس نے دوبارہ لائسنس لینے کی خاطر ڈرائیونگ ٹیسٹ کے لیے اپنی رجسٹریشن بھی کروا رکھی تھی۔