کربلا سمیت عراق میں خونریزی: سترہ مظاہرین ہلاک، سینکڑوں زخمی
29 اکتوبر 2019
عراق میں حکومت مخالف مظاہرین پر سکیورٹی دستوں کی فائرنگ کے نتیجے میں گزشتہ رات مزید کم از کم سترہ مظاہرین ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو گئے۔ صرف کربلا میں چودہ مظاہرین مارے گئے جبکہ زخمیوں کی تعداد ساڑھے آٹھ سو سے زائد رہی۔
اشتہار
عراقی شہر حلہ سے منگل انتیس اکتوبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں میں طبی ذرائع اور سکیورٹی اہلکاروں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ شیعہ مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس شہر کربلا میں 28 اور 29 اکتوبر کی درمیانی شب ملکی سکیورٹی فورسز نے حکومت کے خلاف مظاہرے کرنے والے شہریوں اور طلبہ پر فائر کھول دیا۔ اس بدامنی کے نتیجے میں کربلا میں کم از کم 14 مظاہرین مارے گئے جبکہ 865 زخمی ہو گئے۔
اس کے علاوہ جنوبی عراقی شہر ناصریہ میں بھی تین ایسے افراد اپنے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کر گئے، جو گزشتہ چند دنوں کے دوران وہاں ہونے والے پرتشدد مظاہروں میں شدید زخمی ہو گئے تھے۔ اس طرح صرف ایک رات میں ہی بغداد حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والے مزید 17 عراقی شہری مارے گئے۔
اب تک ڈھائی سو ہلاکتیں، ہزاروں مظاہرین زخمی
عراق میں وزیر اعظم عادل عبدالمہدی کے خلاف عوامی احتجاج کی دوسری لہر گزشتہ جمعے کے روز شروع ہوئی تھی، جس کا آج منگل 29 اکتوبر کو پانچواں دن ہے۔ یہ مظاہرین عادل عبدالمہدی کی حکومت اور عراق میں حکمران سیاسی اشرافیہ پر بدعنوانی کا الزام لگاتے ہوئے یہ شکایت بھی کرتے ہیں کہ حکمرانوں کو اس بات کی کوئی پرواہ ہی نہیں کہ عوام کو کس طرح کے حالات کا سامنا ہے۔
بغداد میں ملکی حکمرانوں کے خلاف اس عوامی احتجاج کی پہلی لہر یکم اکتوبر کو شروع ہوئی تھی، جس میں بعد ازاں کچھ وقفہ بھی آ گیا تھا۔ پھر 25 اکتوبر کو جمعے کی نماز کے بعد یہی مظاہرے دوبارہ شدت اختیار کر گئے تھے۔ روئٹرز کے مطابق ان حکومت مخالف مظاہروں میں اب تک مجموعی طور پر کم از کم بھی 250 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد بھی ہزاروں میں بنتی ہے۔
عراق میں احتجاجی مظاہرے، بیسیوں افراد ہلاک
عراق میں گزشتہ تین روز سے غربت اور بے روزگاری کے خلاف جاری احتجاجی مظاہروں میں کم از کم 44 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ مزید مظاہروں کے پیش نظر دارالحکومت بغداد میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔ حالات مزید کشیدہ ہو سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Mohammed
احتجاجی مظاہرے پھیلتے ہوئے
یکم اکتوبر کو ہزاروں مظاہرین نے بغداد میں حکومت مخالف مظاہروں میں شرکت کی۔ ان کے مطالبات میں بدعنوانی کا خاتمہ، بے روزگاری میں کمی اور بہتر عوامی سہولیات کی فراہمی شامل تھے۔ مظاہرین نے شہر کے حکومتی عمارات اور غیرملکی سفارت خانوں والے گرین زون میں داخل ہونے کی کوشش بھی کی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. al Mohammedaw
پولیس کا کریک ڈاؤن
پولیس نے مظاہرین کی گرین زون میں داخل ہونے کی کوشش کا جواب آنسو گیس، سڑکوں کی بندش اور ربڑ کی گولیوں اور لائیو فائرنگ سے دیا۔ مظاہرین نے التحریر اسکوائر چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ اس دوران دو سو سے زائد مظاہرین زخمی اور ایک ہلاک ہو گیا۔ اسی دن عراق کے کئی دیگر شہروں میں بھی درجنوں افراد زخمی ہوئے اور ایک شخص مارا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Mohammed
صبر و تحمل کی اپیل
نئی عراقی حکومت کو اقتدار سنبھالے ابھی صرف ایک سال ہی ہوا ہے۔ ان مظاہروں کے بعد بغداد میں سکیورٹی بڑھا دی گئی اور عراقی صدر نے مظاہرین سے قانون کی پاسداری کرنے کی اپیل کی۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کے اعلٰی اہلکاروں نے اس صورتحال پر ’گہری تشویش‘ ظاہر کی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/F. Belaid
مزید احتجاج، مزید ہلاکتیں
اس کے باوجود مظاہرین نے اپنا احتجاج جاری رکھا۔ دو اکتوبر کو بغداد کے پرانے حصے میں مظاہروں کا آغاز ہوا۔ پولیس مظاہرین سے نمٹنے کے لیے وہاں پہلے ہی موجود تھی اور نئے سرے سے فائرنگ کے واقعات بھی پیش آئے۔ شام تک مزید سات افراد ہلاک ہو چکے تھے اور دو دن میں ہی ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر نو ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Mizban
احتجاجی مظاہرے پھیلتے ہوئے
یہ احتجاجی مظاہرے بغداد سے ملک کے جنوبی حصوں تک پھیل رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ فسادات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ کئی علاقوں میں مظاہرین نے سرکاری عمارات کو آگ بھی لگا دی۔ عراقی وزیر اعظم نے ان مظاہروں کا الزام ’جارحیت پسندوں‘ پر عائد کرتے ہوئے ایک ہنگامی قومی سکیورٹی اجلاس طلب کر لیا۔ کئی سیاستدان حکومت اور کئی دیگر مظاہرین کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Mizban
بغداد میں کرفیو لیکن ہلاکتیں جاری
ابھی تک ملک کے کئی حصوں میں جاری احتجاج کے نتیجے میں کم از کم 44 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ جنوبی شہر ناصریہ میں اب تک 18 اور بغداد میں 16 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ زخمی ہونے والوں کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہے۔ عراق کے اعلیٰ شیعہ رہنما سید علی حسینی سیستانی نے فریقین سے پرامن رہنے کی اپیل کی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Mohammed
عراق کا سفر نہ کریں!
قطر کی وزارت خارجہ نے اپنے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ فی الحال عراق کا سفر کرنے سے گریز کریں۔ خلیجی ملک بحرین نے بھی اسی طرح کا ایک انتباہی پیغام جاری کیا ہے۔ ایران نے بھی اپنے شہریوں کو عراق جانے سے روک دیا ہے۔ بغداد حکومت نے بھی سرحدوں کی نگرانی سخت بنانے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Al-Rubaye
ایران کا اسرائیل اور امریکا پر الزام
ایران کے ایک سینئر اہلکار اور سیاستدان محمد امامی کاشانی نے بدامنی کے ان واقعات کا الزام اسرائیل اور امریکا پر عائد کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ممالک نہیں چاہتے کہ عراق میں رواں ماہ کے اواخر میں کربلا کا اجتماع پرامن طریقے سے ہو۔ ایران ماضی میں بھی ایسے ہی الزامات عائد کرتا آیا ہے۔
تصویر: Reuters/K. al-Mousily
حالات مزید بگڑ سکتے ہیں
عراقی حکومت نے بغداد کے ساتھ ساتھ تین دیگر جنوبی شہروں میں بھی غیرمعینہ مدت کے لیے کرفیو نافذ کر دیا ہے۔ دوسری جانب ملک بھر میں مظاہرے پھیلتے جا رہے ہیں۔ دارالحکومت کے نواح میں ہوائی اڈے کے قریب بھی مظاہرے جاری ہیں۔ عراق اور ایران کی سرحد بھی بند کر دی گئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mizban
9 تصاویر1 | 9
دو سالہ داخلی استحکام کا خاتمہ
عراق پر امریکا کی قیادت میں صدام دور میں کی جانے والی چڑھائی کے آغاز کے ساتھ ہی مشرق وسطیٰ کا یہ ملک 2003ء سے لے کر 2017ء تک غیر ملکی فوجی قبضے میں رہا تھا۔ اس دوران اس ملک کو خانہ جنگی کے ساتھ ساتھ اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والی جہادی تنظیم 'اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کی طرف سے کئی علاقوں پر قبضے اور خونریزی کا سامنا بھی رہا تھا۔
عراقی عوام میں ملک میں ہر جگہ پائی جانے والی کرپشن اور شدید نوعیت کے اقتصادی مسائل کے خلاف بہت زیادہ عدم اطمینان پایا جاتا ہے۔ اس لیے یکم اکتوبر سے حکومت کے خلاف جو عوامی مظاہرے شروع ہوئے، ان کی وجہ سے داخلی سطح پر قدرے استحکام کی وہ صورت حال بھی ختم ہو گئی، جو اس امید کا سبب بنی تھی کہ اب اس ملک میں حالات بتدریج بہتر ہونا شروع ہو جائیں گے۔
نئے عام انتخابات کا مطالبہ
بغداد میں وزیر اعظم عادل عبدالمہدی کی قیادت میں موجودہ مخلوط حکومت کے اقتدار میں آنے میں مقبول شیعہ مذہبی رہنما مقتدیٰ الصدر نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ لیکن کل پیر کے روز انہوں نے یہ مطالبہ کر دیا کہ ملک میں قبل از وقت عام انتخابات کرائے جائیں۔ مقتدیٰ الصدر نے یہ مطالبہ اس وقت کیا، جب ملکی دارالحکومت بغداد میں موجودہ حکمرانوں کے خلاف خونریز مظاہروں کے بعد ایک بار پھر کرفیو نافذ کر دیا گیا تھا۔
م م / ع ا (روئٹرز)
عراق: امریکی جنگ کے دس سال بعد
تصویر: DW/K. Zurutuza
ڈراؤنا خواب جاری
گزشتہ دس برسوں میں تعمیر نو کے اربوں ڈالر کے منصوبوں کا اعلان کیا گیا لیکن ایک عام شہری کو آج بھی لوڈ شیڈنگ اور صاف پانی کی قلت کا سامنا ہے۔ ملک کا بنیادی ڈھانچہ آج بھی کمزور ہے، بدعنوانی عروج پر ہے، غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
ذاتی گھر کا خواب
جنگ اور عدم استحکام کی وجہ سے عراقی پناہ گزینوں کی تعداد میں حیران کن اضافہ ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اندورن ملک بے گھر ہونے والے عراقیوں کی تعداد 1.2 ملین بنتی ہے۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
بم دھماکے روز مرہ کا معمول
عراق کی مجموعی آبادی کا پانچواں حصہ دارالحکومت بغداد میں رہتا ہے۔ 33 ملین آبادی والے اس شہر میں آئے دن بم دھماکے ہوتے رہتے ہیں۔ شہریوں کو روزانہ درجنوں چیک پوائنٹس پر تلاشی کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
اموات اور تباہی
عراق میں ہلاکتوں کے بارے میں اعداد و شمار جمع کرنے والے دارے ’باڈی اکاؤنٹ‘ کے مطابق صرف گزشتہ برس ہلاک ہونے والے عراقیوں کی تعداد 4568 تھی۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
خواتین کی مشکلات
عراق میں صرف چالیس فیصد خواتین پڑھ لکھ سکتی ہیں۔ دس سالہ بد امنی کی وجہ سے بیواؤں کی تعداد تمام تر پرانے ریکارڈ توڑ چُکی ہے۔ مالی مشکلات کی وجہ سے لڑکیوں کی کم عمری میں ہی شادیوں کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
بارودی سرنگیں
لوگوں کی زندگیوں کو اب بھی بارودی سرنگوں اور غیر تباہ شدہ دھماکہ خیز مواد سے خطرات لاحق ہیں۔ ان کی وجہ سے ملک کو آلودگی جیسے بڑے مسئلے کا بھی سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کے ذرائع کے مطابق، 2.7 ملین سے زائد لوگ آلودہ ماحول میں رہ رہے ہیں۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
یورنیم کے تابکار عناصر
طبی اعداد و شمار کے مطابق عراق میں کینسر اور لیوکیمیا جیسے موذی عارضوں کیں حیران کن اضافہ ہوا ہے۔ نومولود بچوں کی اموات کی شرح ہیروشیما اور ناگاساکی سے بھی زیادہ ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ یورنیم کے تابکارعناصر ہیں۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
سکیورٹی خدشات
حکومتی حمایت یافتہ مختلف قبائلی رہنماؤں نے اپنے علاقوں میں امن برقرار رکھنے کے لیے سن 2005ء میں 'عراق کے بیٹوں' کے نام سے ایک نیم فوجی گروپ قائم کیا لیکن کم اسلحے اور حکومتی کمزوریوں کی وجہ سے یہ القاعدہ کا اہم ہدف بنا ہوا ہے۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
عرب بہار کا آغاز ؟
دسمبر 2012 ءکے بعد سے عراق کے سنی اکثریتی علاقوں کے ہزاروں مظاہرین سڑکوں پر احتجاجی مظاہرے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس احتجاجی تحریک کو نام نہاد عرب بہار کا حصہ کہا جاتا ہے۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
بہتر مستقبل کی لڑائی؟
سُنی ملیشیا گروپ ’’1920ء ریولوشن بریگیڈ‘ وہ مسلح گروپ ہے، جو موجودہ حکومت کے خلاف لڑائی جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس گروپ کے چیف کمانڈر کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’جھوٹی جنگ مسلط کرنے والے ممالک کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ تعمیرنو میں مدد کریں۔‘‘