کرتارپور کوریڈور: پاکستان کو بھارت کا جوابی دعوت نامہ
24 جنوری 2019پاکستان کی طرف سے کرتار پور کوریڈور پر معاہدے کا مسودہ بھارت کو سونپے اور اس تجویز پر بات چیت کر کے اسے حتمی شکل دینے کے لیے بھارتی وفد کو ’فوراً‘ مدعوکرنے کی تجویز کا کوئی جواب دینے کے بجائے بھارت نے جوابی دعوت دیتے ہوئے اسلام آباد کو اپنی ٹیم نئی دہلی بھیجنے کے لیے دو متبادل تاریخیں بھی پیش کردیں ۔
کسی دہشت گردانہ سرگرمی سے کبھی تعلق نہیں رہا، گوپال سنگھ چاؤلہ
عمران خان نے کرتارپور راہ داری کا سنگ بنیاد رکھ دیا
بھارتی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے، ’’حکومت نے پاکستانی وفدکو گردوارہ کرتار صاحب کا دورہ کرنے والے بھارتی زائرین کے حوالے سے طریقہء کار پر بات چیت کرنے اور اس حوالے سے مسودے کو حتمی شکل دینے کے لیے نئی دہلی آنے کے خاطر 26فروری یا 7مارچ کی تاریخ تجویز کی ہے۔‘‘ تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کی جانب سے کی گئی پیشکش کو قبول کرنے کے بجائے اپنی جانب سے دعوت نامہ بھیجنے کا مقصد بھارت کا اس تجویز کو قبول کرنے یا مسترد کرنے کے مشکل فیصلے سے بچنا ہے۔
بھارتی وزارت خارجہ کے بیان میں مزید کہا گیا ہے،’’بھارت کی حکومت کی طرف سے کرتارپور کوریڈور قائم کرنے کے لیے طویل مدت سے زیر التوا تجویز پر تیزی سے عمل درآمد کے خاطر 22نومبر2018کو لیے گئے فیصلے کے مطابق بھارت نے پاکستان سے ملحق بین الاقوامی سرحد پر کراسنگ پوائنٹ کے بارے میں تفصیلات پاکستان کو پیش کردی ہیں۔‘‘
یہاں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کے اس رویہ سے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ کرتار پور کوریڈور کے معاملے پر دونوں حکومتوں کے درمیان اب بھی اختلافات ہیں۔ سفارتی امور کے ماہر ریاض الحسن لشکر نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’بھارت نے دو تاریخیں پیش کردی ہیں ، جس سے لگتا ہے کہ دونوں ملکوں میں اس معاملے پر کچھ اختلافات ہیں۔ حالانکہ جب پاکستان نے یہ تجویز پہلے دی تھی تو بھارت کو اسے قبول کرنا چاہیے تھا۔‘‘ ریاض الحسن لشکر کا کہنا تھا، ’’میں نے اس معاملے پر اپنے پاکستانی ساتھیوں سے بات چیت کی، ان کا کہنا ہے کہ اگر کسی وجہ سے بھارت یہ چاہتا ہے کہ بات چیت نئی دہلی میں ہو تو پاکستان کو زیادہ دباؤ نہیں ڈالنا چاہیے۔‘‘
ریاض الحسن لشکر کا خیال ہے کہ پہلے پاکستان کی طرف سے بات چیت کی دعوت اور اس پر بھارت کی جانب سے جوابی دعوت سفارتی برتری کی جنگ کا کوئی معاملہ نہیں ہے بلکہ بھارت محتاط انداز میں قدم بڑھانا چاہتا ہے۔انہوں نے کہا، ’’دراصل گزشتہ ایک دو سال سے کناڈا میں خالصتان حامیوں کی سرگرمیاں کافی بڑھ گئی ہیں اور میڈیا میں جو خبریں آئی ہیں، ان کے مطابق پاکستانی افسران خالصتان حامیوں کے پروگراموں میں شرکت کرتے رہے ہیں۔ اس سے بھارت کو یہ خدشہ لاحق ہوگیا ہے کہ کہیں کرتار پور کوریڈور کی آڑ میں خالصتان حامی کوئی سازش نہ کرڈالیں کیوں کہ پچھلی مرتبہ جب بھارت سے سکھ زائرین ننکانہ صاحب گردوارہ کی زیارت کے لیے گئے تھے توخالصتان کا کافی پروپیگنڈہ ہوا تھا۔ اسی لئے نئی دہلی کافی احتیاط سے کام لے رہا ہے۔‘‘
ریاض الحسن لشکر کو امید ہے کہ کرتار پور کوریڈور کے حوالے سے دونوں ممالک اختلافات دور کرلیں گے۔کیوں کہ پاکستان اپنے علاقے میں اور بھارت اپنے علاقے میں کوریڈور بنارہا ہے اور صرف دونوں کو کسی ایک جگہ پر جوڑنے کا کام رہ جائے گا اور آنے والے دنوں میں اس کا بھی حل تلاش کرلیا جائے گا۔
دوسری طرف ایک سفارتی تجزیہ کار مکیش کوشک نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان کوریڈور معاملے پر فوری بات چیت کی کوئی امید نہیں ہے۔ مکیش کوشک کا دعویٰ ہے کہ ان کی بھارتی وزارت خارجہ کے بعض سینیئر حکام سے بات چیت ہوئی ہے، جن کا کہنا ہے کہ اس سال مئی سے پہلے بھارت اور پاکستان کے درمیان بات چیت کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ چونکہ مئی میں عام انتخابات ہونے والے ہیں، اس لیے مودی حکومت ایسا کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہے گی، جسے اپوزیشن کانگریس کو انتخابی موضوع بنانے کا موقع مل جائے۔ دائیں بازو کے نظریات کے حامل مکیش کوشک کا کہنا ہے، ’’پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے کرتا پور کوریڈور کے ذریعہ ماسٹر اسٹروک کھیلا تھا تاکہ بھارت کو کسی طرح بات چیت کے لیے مجبور کرسکے ۔ حالانکہ یہ کام بھی انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اشارے پر کیا تھا لیکن اس میں عمران خان کامیاب نہیں ہوسکے۔‘‘
خیال رہے کہ سکھوں کے پہلے گرو بابا گرونانک کی 550ویں جنم دن پر کرتار پور راہداری کھولنے کے پاکستان کے فیصلے کو بھارت نے شبہ کی نگاہ سے دیکھا تھا البتہ منصوبہ کی افتتاحی تقریب میں مودی حکومت نے اپنی کابینہ کے دو وزیروں کو پاکستان بھیجا تھا۔
اس دوران بھارت کے وفاقی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کرتارپور کوریڈور کی تعمیر کی پیش رفت کا جائزہ لیا ہے اور اس سے متعلق تمام محکموں کو ہدایت دی ہے کہ مقررہ مدت کے اندر کام مکمل کرلیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ بھارت کے حصے کے کوریڈور کی تعمیر پاکستان سے پہلے مکمل ہوجائے۔ بھارت پنجاب میں سرحد سے لے کر ڈیرہ بابا نانک تک راہداری تعمیر کرے گا جب کہ پاکستان میں سرحد سے لے کر کرتار پور صاحب گردوارے تک راہداری تعمیر کی جائے گی۔