جمعرات چوبیس اکتوبر کو پاکستان اور بھارت کے سفارت کاروں نے کرتار پور راہداری کھولنے کے معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔ اس کوریڈور کو کھولنے کا باضابطہ افتتاح پاکستانی وزیراعظم عمران خان نو نومبر کو کریں گے۔
اشتہار
معاہدے پر دستخط کی تقریب میں پاکستان کی نمائندگی وزارت خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل کر رہے تھے۔ انہوں نے معاہدہ طے پانے کے بعد بتایا کہ پاکستانی وزیراعظم عمران خان کرتار پور کوریڈور کا افتتاح نو نومبر کو ایک خصوصی تقریب میں کریں گے۔ کرتار پور کا مقام اور گوردوارہ پاکستان میں واقع ہے۔
دستخط کی تقریب پاکستانی سرحدی شہر نارووال میں ہوئی تھی۔ اس میں پاکستانی دفتر خارجہ کے اہلکار محمد فیصل کے ساتھ بھارتی وزارت خارجہ کے جوائنٹ سیکرٹری ایس سی ایل داس نے شرکت کی۔ اس سمجھوتے کے تحت کرتار پور گوردوارہ کی زیارت کرنے والے سکھوں کی آمد کو آسان بنا دیا گیا ہے۔
دستخط کی تقریب کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا کہ سخت مذاکرات کے بعد ہی چوبیس اکتوبر کا دن آیا اور معاہدے کو حتمی شکل دی گئی۔ کرتار پور گوردوارے کی زیارت کے لیے سکھوں کا پہلا قافلہ نو نومبر کو پہنچے گا اور اس میں اہم سکھ شخصیات بھی شامل ہو سکتی ہیں۔ یہ خصوصی دستہ افتتاحی تقریب میں بھی شرکت کرے گا۔
ڈاکٹر محمد فیصل نے یہ بھی بتایا کہ سکھ یاتری صبح کے وقت گوردوارے کے لیے آئیں گے اور شام کو واپس بھارت لوٹ جایا کریں گے۔ اسی طرح بھارتی حکام کو آنے والے سکھ یاتریوں کی فہرست دس روز قبل دینا ہو گی۔ ایک اندازے کے مطابق روزرانہ کی بنیاد پر قریب پانچ ہزار یاتری کرتار پور آ سکتے ہیں۔
بھارتی سرحد سے گوردوارے تک کا فاصلہ ساڑھے چار کلو میٹر طویل ہے۔ اس خصوصی راہداری کا افتتاح سکھ مذہب کے بانی گورو نانک صاحب کی پانچ سو پچاسویں یوم پیدائش کی تقریبات سے قبل کیا جائے گا۔ اس سے قبل اس گوردوارے کو دیکھنے کے لیے بھارتی سکھ سرحد کے قریب سے دوربین کا سہارا لیا کرتے تھے۔
اس سمجھوتے سے بھارت اور پاکستان میں واقع سکھوں کے مقدس مقامات کو جوڑنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ بھارت میں تین اہم گوردوارے ہیں، ان میں دربار صاحب امرتسر، گوردوارہ چولا صاحب گورداس پور اور گوردوارہ ٹاہلی والا نواں شہر بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ تمام گوردوارے سکھوں کے کرتار پور سفر کے راستے میں ہیں۔
کرتار پور صاحب کا گوردوارہ سن 1539 میں گرو نانگ کی رحلت کے بعد تعمیر کیا گیا تھا۔ اس مقام پر گرو نانک نے تقریباً اٹھارہ برس گزارے تھے اور یہ سکھوں کا انتہائی متبرک مقام تصور کیا جاتا ہے کیونکہ ایک طویل عرصہ سکھ مذہب کے بانی نے اسی مقام پر بسر کیا تھا۔ بابا نانک کا جائے پیدائش کا مقام ننکانہ صاحب بھی پاکستان میں ہے۔
ع ح ⁄ ع ا (چاؤرو کارتکیا)
پشاور میں سکھوں کا افطاری کیمپ
صوبہ خیبر پختونخوا کی سکھ کمیونٹی ماہ رمضان میں مسلمان روزہ داروں کے لیے متعدد افطاری کیمپوں کا اہتمام کرتی ہے۔ آپ کو سیر کراتے ہیں، ان میں سے ایک ایسے کیمپ کی جو لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے قریب ہی لگایا گیا ہے۔
تصویر: DW/F. Khan
تیمار دار، روزہ داروں کی خدمت
پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا میں سکھ برادری اس برس بھی پشاور کے مختلف علاقوں میں افطاری کے لیے باقاعدہ کیمپ لگا رہی ہے۔ سب سے زیادہ رش لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں لگائے گئے ایک کیمپ میں دکھنے میں آ رہا ہے۔ اس رش کی وجہ یہ بھی ہے کہ صوبے کے دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ علاج کی غرض سے اس ہسپتال کا رخ کرتے ہیں اور مریضوں کے ساتھ ان کے رشتہ دار بھی ہوتے ہیں۔
تصویر: DW/F. Khan
خانساماں لیکن مسلمان ہی
گورپال سنگھ کے بقول افطاری کے لیے کھانے پینے کی اشیاء خرید کر انہیں مسلمانوں کے ہاتھوں سے پکوایا جاتا ہے تاکہ کسی قسم کی شک کی گنجائش باقی نہ ہو۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ سب کچھ نیک جذبے کے تحت کیا جاتا ہے تاکہ مسافروں اور بے بس لوگوں کی مدد کی جاسکے۔
تصویر: DW/F. Khan
دستر خوان سب کے لیے
سکھ برداری رمضان میں بالخصوص لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں داخل مریضوں کے تیمار داروں کی خدمت بھی کر رہی ہے۔ ان کے لیے افطاری کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس افطار کیمپ میں مریضوں کے رشتہ داروں کے ہسپتال ملازمین، قریبی بازار میں کام کی غرض سے آنے والے افراد اور غریب لوگ بھی افطاری کر سکتے ہیں۔
تصویر: DW/F. Khan
سماجی خدمت
سکھ برادری کے فلاحی تنظیموں سے وابستہ دانیال اور جوہیندر سنگھ کا کہنا ہے کہ افطار کیمپوں کا اہتمام خالصتا ایک سماجی کام ہے، جس کے لیے کسی سے کچھ نہیں لیا جاتا بلکہ خود ہی سارا خرچہ برداشت کیا جاتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ بھی مسلمانوں کے ساتھ مل کر روزے رکھتے ہیں۔
تصویر: DW/F. Khan
افطاری کے لوازمات
افطاری میں پہلے شربت، کھجور، پکوڑے، سموسے اور پھل جبکہ بعد میں کھانا دیا جاتا ہے۔ افطاری کے انتظامات کے موقع پر موجود مقامی فلاحی تنظیم سے وابستہ گورپال سنگھ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کے طور پر افطاری کا انتظام کیا جا رہا ہے اور اس مہینے وہ خود بھی کھلے عام کھانے پینے سے گریز کرتے ہیں۔
تصویر: DW/F. Khan
نوجوان سکھ آگے آگے
سکھ برادری کے بالخصوص نوجوان اس افطار کیمپ میں روزہ داروں کی خدمت کے لیے خود کھڑے ہوتے ہیں اور افطاری کے وقت روزہ داروں کو پانی اور کھانا لاکر دیتے ہیں جبکہ شہر کے مختلف علاقوں میں کاروبار سے وابستہ سکھ افراد کا کہنا ہے کہ وہ رمضان کے دوران اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں منافع نہیں کماتے۔