کرتے گر ملک الموت تقاضہ کچھ اور
15 دسمبر 2020وہ بھی ایسے حالات میں کہ جب ان کی رہائش بیرون ملک تھی۔ وقتی طور پر مجھے بالکل سمجھ نہ آیا کہ میں نے کیا سن لیا ہے۔ مجھے گم سم سی ہوگئی۔ پہلے پہل ایسا لگا کہ شاید سماعت میں کوئی غلطی سرزد ہوگئی ہے۔ میں نے دوبارہ کسی سے پوچھنے کی ہمت بھی نہ کی۔ دل میں یہ وسوسہ بھی آیا کہ ایسا نہ ہو کہ پوچھنے سے خبر ہی سچ ہو جائے، اس لیے خاموشی سے سر جھکائے بیٹھی رہی۔ شاید سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتیں مدہم پڑتی جا رہیں تھی۔ میرا ذہن اس خبر کو کسی بھی طرح قبول کرنے تیار نہیں تھا۔ یکایک بھائی کا خیال آیا۔ امی ابو اس کے ساتھ بیرونِ ملک رہائش پذیر تھے۔ اللہ ہم پر رحم کرے نہ جا نے کس حال میں ہوگا؟
اس سوچ نے مجھے تڑپا دیا۔ میرا فون مہمان خانے میں رکھا تھا۔ اب تک میرے ارد گرد میرے گھر والے بیٹھے تھے۔ شاید مجھے تسلی دے رہے تھے لیکن مجھے کچھ یاد نہیں۔ بس دل میں یہی خیال زور پکڑ رہا تھا کہ بھائی کس حال میں ہوں گے۔ ان پر کیا گزر رہی ہو گی؟
میں نے آو دیکھا نا تاو اٹھ کر سیدھا فون کی جانب دوڑ لگا دی۔ جس نے روکنے کی کوشش کی اس کو پرے دھکیل دیا۔ فون ہاتھ میں لیا اور فوراً بھائی کو فون کیا۔ بس پھر کیا تھا، ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے اور ہم دونوں پھوٹ پھوٹ کر رو دیے۔
امی کی طبیعت، مزاج ، رکھ رکھاؤ کے پورے خاندان میں چرچے تھے۔ اپنی ملنساری کی وجہ سے ایک کثیر حلقہ دوست و احباب کا بھی تھا۔ اس حلقے میں ایک بڑی تعداد میری دوستوں کی بھی تھی۔ ایسا کون سا کام تھا جو امی کو نہیں آتا تھا؟
یہ بھی پڑھیے:
’مجھے دفنانے کے بجائے منجمد کر دیا جائے‘
جسم فروش مسلم خواتین اپنے لیے ’باعزت تدفین‘ کی خواہش مند
اس کا جواب تو مجھے بھی معلوم نہیں تھا۔ ہمارے گھریلو کتب خانے میں شاید ہی کوئی ایسی کتاب ہو جو انہوں نے نہ پڑھی ہو۔ بلکہ اس کی تو داغ بیل بھی شاید انہوں نے ہی ڈالی تھی۔ میری شادی سے پہلے میرے تمام کپڑے بھی امی ہی بناتی تھیں۔ کپڑوں کی خریداری سے لے کر سلائی تک کےسب کام وہ خود ہی سر انجام دیا کرتی تھیں۔ آپ کو شایدیہ جان کر حیرانی ہو کہ میرے سویٹر بھی امی ہاتھ سے بنایا کرتیں تھیں۔
خاندان بھر میں امی کی حیثیت ایک ادارے کے جیسی تھی۔ سب کی تمام مشکلات کا جملہ حل نکالنے میں واقعی ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔ یہی وجہ تھی ہمارے گھر میں لگ بھگ آئے روز ہی دعوت کا سا سما رہتا تھا۔ پچیس پچاس لوگوں کے کھانےکا انتظام تو گھر میں ہی ہو جاتا تھا۔ اس دن یہ سایہ ہمارے سر سے اٹھ گیا تھا۔
ماں کی موت کیا ہوتی ہے؟ بھاری وقت کسے کہتے ہیں؟ شاید اس سے پہلے کبھی تصور بھی کیا تو درست اندازہ نہ لگا سکی۔ یہ ایک ایسی تکلیف تھی، جس کو برداشت کرنا میرے بس سے باہر تھا۔ الفاظ شاید میرا ساتھ نہ دے سکیں۔ کچھ سمجھ ہی نہیں آتا تھا کہ کیا ہوگیا۔ موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ لیکن ماں کی موت کی خبر سننا اور اس حقیقت کو قبول کر لینا بہت ہی دشوار گزار مرحلہ تھا۔ میرا ذہن کسی قیمت اس بات کو ماننے سے انکاری تھا۔ انسانی جان کی وقعت مختلف لوگوں کے لیے مختلف معنی رکھتی ہے۔ میرے لیے میری ماں سے بڑھ کر شاید ہی کوئی ہستی ہو۔ اسی لیے دھچکا بھی بہت زور کا لگا۔ یہ وہ وقت تھا جب کھانا پینا، پہننا، اوڑھنا، لوگوں سے بات کرنا، سونا، حتی کہ بسا اوقات سانس لینا بھی بہت دشوار گزار ہو جاتا۔
میں ذہنی طور پر اس تکلیف کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوتی تو جسم ساتھ دینے سے انکار کر دیتا۔کسی چاہنے والے کی ناگہانی موت کی پیچھے رہ جا نے والے کی زندگی پر بہت بری طرح اثر انداز ہوتی ہے۔ اس کا اندازہ صرف ان کو ہی ہوتا ہے، جو اس صدمے سے دوچار ہوئے ہوں۔ باقی کسی سے یہ امید لگانا بھی بے سود ہے۔
ایسے موقع پرسب سے اہم کردار آپ کے قریبی لوگ ہی سر انجام دیتے ہیں۔ جہاں کچھ اپنوں نےمیرے دکھ کو بالکل اپنا سمجھا اور بہت خیال رکھا، وہاں کچھ لوگ ایسے بھی تھے ، جو اس انتہائی تکلیف دہ موقع کو تفریح سمجھ کر جوق در جوق دوسرے شہروں سے اٹھ کر ہمارے پاس آئے۔ جن کو سوائے اچھے کھانے کھانے اور شہر گھومنے کے علاوہ کسی کے دکھ سے کوئی غرض نہ تھی۔ جن کو اس بات کی بھی سمجھ نہ تھی کہ ایسے تکلیف دہ وقت پر قہقہے، آپ کی شاپنگ، آپ کے سیر سپاٹوں کی تیاریاں کسی ایسے شخص کے ذہن پر، جو حال ہی میں کسی اپنے قریبی کی موت کے صدمے سے دوچار ہو، سنگین نتائج مرتب کر سکتا ہے۔ یہ امر بھی قطعی طور پر وضاحت طلب نہیں کہ کسی اپنے کے گزر جانے کے دکھ کو سمجھنا شاید ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔
لیکن میں یہ ضرور کہتی ہوں ایسے افراد، جو اس طرح کے صدمے سے دوچار ہوں، ان سے درگزر اور صلہ رحمی کا رویہ ایک طویل عرصے تک روا رکھنا چاہیے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ معاشرہ اس معاملے میں بہت بے حسی کا مظاہرہ کرتا ہے، جس کی وجہ سے نفسیاتی الجھنیں، ڈپریشن، اکیلاپن اور مایوسی پنپنے لگتی ہے اور انسان اپنے ہی خول میں بند ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان مسائل کی طرف سوچیں اور ایسے لوگ، جو اپنے کسی پیارے سے بچھڑ گئے ہوں، ان کو زندگی کی طرف لوٹ آنے میں مثبت طور پر معاونت کریں۔