1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کردستان ورکرز پارٹی کا ترکی سے انخلاء کا اعلان

Zubair Bashir26 اپریل 2013

ترکی میں طویل مسلح بغاوت اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ کردستان ورکرز پارٹی PKK نے آٹھ مئی سے ترکی سے انخلاء کا اعلان کردیا ہے۔

تصویر: Reuters

کردستان ورکرز پارٹی PKK کی جانب سے ترکی سے گوریلا جنگجوؤں کے انخلا کی تاریخوں کا اعلان جمعرات کے روز کیا گیا ہے۔ کردوں کے گڑھ شمالی عراق کے پہاڑی علاقے قندیل میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کرد ورکرز پارٹی کے سربراہ مراد کرائیلان نے کہا کہ ترکی سے انخلاء کا یہ عمل آٹھ مئی سے شروع ہوگا۔

اس سے پہلے21 مارچ کو ترکی کی ایک جیل میں قید کرد باغی لیڈر عبداللہ اوجالان نے کردوں کے نئے سال کے آغاز کے موقع پر فائربندی کا اعلان کیا تھا۔کردستان ورکرز پارٹی PKK کے لیڈر عبداللہ اوجالان اس وقت ایک ترک جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔

مراد کرائیلان نے خبردار کیا ہے کہ اگر باغیوں کے اس انخلاء کے دوران کسی قسم کا حملہ کیا گیا تو امن عمل متاثر ہوگاتصویر: picture-alliance/dpa

اپنی نیوز کانفرنس کے دورہ مراد کرائیلان نے خبردار کیا کہ اگر باغیوں کے اس انخلاء کے دوران کسی قسم کا حملہ کیا گیا تو امن عمل متاثر ہوگا اور ترکی سے انخلاء کی کال واپس لے لی جائے گی۔ کرائیلان نے مزید کہا کہ یہ امن منصوبہ تین مراحل پر مشتمل ہے، جس میں ترکی سے باغیوں کی واپسی پہلا مرحلہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کرد مسلح باغی شمالی عراق میں موجود رہیں گے۔

ماضی میں امن کے لیے کی گئی کوشیش قوم پرست ترکوں کی مخالفت اور PKK کی صفوں میں موجود انتہا پسندانہ سوچ رکھنے والےعناصر کی وجہ سے کامیاب نہیں ہوسکیں تھیں۔

مراد کرائیلان نے کردوں کے خلاف لڑنے کے لیے ترکی کی جانب سے قائم کردہ خصوصی ٹیموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا،’ ہم امید کرتے ہیں کہ اس امن منصوبے کے دوسرے حصے پر عمل کرتے ہوئے ترکی کردوں کے خلاف حالت جنگ ختم کردے گا‘۔ انہوں نے مزید کہا،’ تیسرے مرحلے میں حالات معمول پر آجائیں گے اور مستقل امن قائم ہوجائے گا‘۔

ایک اندازے کے مطابق کرد ترکی کی کل 75 ملین آبادی کا 20 فیصد ہیں۔ کرد سب سے زیادہ ترکی میں آباد ہیں۔ اس لیے ترکی کو کردوں کا گھر سمجھا جاتا ہے۔ عراق، ایران اور شام بھر میں بکھرے ہوئے کردوں کی کل آبادی 25 سے 35 ملین کے قریب ہے۔

اس سے پہلے کرد باغی لیڈر عبداللہ اوجالان نے کردوں کے نئے سال کے آغاز کے موقع پر فائربندی کا اعلان کیا تھاتصویر: AP

علیحدگی پسند کرد باغیوں نے 1984ء سے ترک حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھا رکھے ہیں۔ ان کی مسلح بغاوت اور ترک سکیورٹی فورسز کے ساتھ لڑائی میں اب تک 45 ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔

یہ امن معاہدہ ترکی کے کمزور انسانی حقوق کے ریکارڈ کو بہتر کرنے کے ساتھ ساتھ کسی حد تک اس کی یورپی یونین کی رکنیت حاصل کرنے کی کوششوں میں بھی معاونت کرے گا۔

zb/ab(AFP, Reuters)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں