کردوں کو ریلی کیوں نکالنے دی، ترکی کی جانب سے جرمنی کی مذمت
27 مئی 2018
ترکی نے جرمن شہر کلون میں کُردوں کی حمایت میں ایک ریلی نکالنے کی اجازت دینے پر جرمنی کی مذمت کی ہے۔ انقرہ حکومت کے مطابق یہ فیصلہ ’جرمنی کے دہرے معیار‘ کی علامت ہے۔
اشتہار
ترک وزارت خارجہ نے ایک بیان میں برلن حکومت کے اس فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے اسے دہرا معیار قرار دیا ہے۔ قبل ازیں برلن حکومت نے ترکی میں برسراقتدار جماعت کو جرمنی میں اپنی ایک مہم چلانے کی اجازت نہیں دی تھی۔
ترک وزارت خارجہ نے اپنی ویب سائٹ پر جاری ایک بیان میں کہا ہے،’’ اس دو رخی پالیسی کی ہم بھر پور طور پر مذمت کرتے ہیں کیونکہ یہ فیصلہ نہ تو جمہوریت کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے اور نہ ہی دہشت گردی کے خلاف جنگ اور ترک جرمن تعلقات کو نارمل سطح پر لانے کی کوششوں سے میل کھاتا ہے۔‘‘
دوسری جانب جرمن حکومت کا کہنا ہے کہ ملک کے مغربی شہر کلون میں کردوں کو شام میں جاری ترکی کے ملٹری آپریشن کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ علاوہ ازیں جرمنی کی جانب سے وضاحتی بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس مظاہرے میں ترکی میں اپوزیشن کے دو سیاستدانوں کو بھی تقریریں کرنے سے روک دیا گیا تھا جن کا تعلق پرو کردش جماعت ایچ ڈی پی سے ہے۔
اطلاعات کے مطابق اس مظاہرے کے دوران جن افراد کو تقریر کرنے کی اجازت دی گئی تھی اُن میں ممکنہ طور پر احمد یلدرم اور طوبی حیزر نامی دو افراد بھی شامل ہیں۔ یلدرم ترکی کو دہشت گردی کے الزامات میں مطلوب ہیں۔ انقرہ حکومت کے مطابق احمد یلدرم مبینہ طور پر کردستان ورکرز پارٹی سے وابستہ ہیں۔ کردستان ورکرز پارٹی سن انیس سو اسی کی دہائی سے جنوب مشرقی ترکی میں آزادی کے لیے مسلح جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔ ترکی کے علاوہ یورپی یونین اور امریکا نے بھی کردستان ورکرز پارٹی کو دہشت گرد گروپ قرار دے رکھا ہے۔
ترکی میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات آئندہ ماہ کی چوبیس تاریخ کو ہونا طے پائے ہیں اور صدر ایردوآن کی جماعت جرمنی سمیت کئی دیگر یورپی ممالک میں انتخابی مہم کے سلسلے میں جلسے منعقد کرنے کی کوششوں میں ہے۔
جرمنی سمیت کئی دیگر اہم یورپی ممالک کی جانب سے جلسوں اور ریلیوں کی اجازت نہ ملنے پر ترک صدر رجب طیب ایردوان نے گزشتہ ہفتے بوسنیا کے دارالحکومت سراجیوو میں ایک ریلی کا انعقاد کیا تھا۔
سن 2016 میں ترکی میں بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد سے مختلف وجوہات کی بنا پر دونوں ممالک کے تعلقات کشیدگی کا شکار ہیں۔ بغاوت کے بعد ایردوآن حکومت کے بعض اقدامات کو جرمن حلقے ماورائے قانون بھی تصور کرتے ہیں۔
ص ح / ڈی پی اے
شام میں ترک فوجی آپریشن، جرمنی میں کردوں کے احتجاجی مظاہرے
ترکی کی جانب سے شمالی شام میں کرد اکثریتی علاقوں میں کیے جانے والے عسکری آپریشن کے تناظر میں جرمنی میں آباد کرد نسل کے باشندوں کے احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker
کردوں کے مظاہرے
جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں شام اور عراق کے کرد علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کرد فورسز کے خلاف ترکی کے عسکری آپریشن پر سراپا احتجاج ہیں۔ مظاہرین میں کردوں کی اپنی ایک علیحدہ ریاست کا مطالبہ کرنے والے بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker
عفرین میں ترک فوجی آپریشن
ترک فورسز شام کے کرد اکثریتی علاقے عفرین اور اس کے گرد و نواح میں ٹینکوں اور بھاری توپ خانے سے اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ علاقہ شامی کرد ملیشیا وائی پی جی کے قبضے میں ہے، جو ان کرد جنگجوؤں نے امریکی تعاون سے شدت پسند تنظیم داعش کے قبضے سے آزاد کرایا تھا۔
ایردوآن اور میرکل پر تنقید
مظاہرین جرمنی کی جانب سے ترکی کو فروخت کیے جانے والے ہتھیاروں پر بھی تنقید کر رہے ہیں۔ ترک صدر ایردوآن تمام تر بین الاقوامی دباؤ کے باوجود کہہ چکے ہیں کہ وہ شام میں کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف عسکری آپریشن جاری رکھیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Jensen
بون میں بھی مظاہرے
جرمنی میں کرد باشندوں کی جانب سے شہر بون میں اقوام متحدہ کے ایک مرکزی دفتر کے قریب بھی مظاہرہ کیا گیا۔ یہ مظاہرین ترکی کی جانب سے شامی علاقوں میں کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف آپریشن کی فوری بندش کا مطالبہ کر رہے تھے۔
تصویر: DW/C. Winter
صدر ایردوآن کا سخت موقف
صدر ایردوآن کا کہنا ہے کہ امریکا کرد فورسز کی امداد بند کرے۔ ترکی امریکی حمایت یافتہ کرد ملیشیا گروپ وائی پی جی کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے۔ انقرہ کا موقف ہے کہ یہ عسکریت پسند کالعدم تنظیم کردستان ورکرز پارٹی ہی کا حصہ ہیں، جو ایک طویل عرصے سے ترکی میں کرد اکثریتی علاقوں کی باقی ماندہ ترکی سے علیحدگی کے لیے مسلح جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/B. Ozbilici
کرد فورسز کو امریکی امداد کی بندش کا ترک مطالبہ
ترک حکومت نے امریکا سے کہا ہے کہ وہ کرد ملیشیا گروپوں کو ہتھیاروں کی فراہمی فوری طور پر بند کرے۔ دوسری جانب واشنگٹن حکومت نے ترکی کو متنبہ کیا ہے کہ وہ ایسی کارروائیوں سے باز رہے، جن سے ترک اور شام میں موجود امریکی فورسز کے درمیان کسی ممکنہ ٹکراؤ کی صورت حال پیدا ہونے کا خطرہ ہو۔