ترکی نے کالعدم کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) پر عراق میں تیرہ ترک باشندوں کواغوا کرکے قتل کردینے کا الزام عائد کیا ہے۔ پی کے کے نے ترکی فضائیہ کی کارروائی کو ان اموات کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
اشتہار
ترک حکومت نے کالعدم کردستان ورکرز پارٹی کے اراکین پر اس ہفتے شمالی عراق میں تیرہ ترک باشندوں کو اغوا کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ یہ افراد اس علاقے میں پی کے کے کے خلاف تر کی فوج کی کارروائی کے دوران اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
ترکی کے وزیر دفاع خلوصی آکار نے بتایا کہ ترک فوجیوں نے بدھ کے روز شمالی عراق کے گارا علاقے میں ایک غار پر حملہ کیا جب وہ اس غار کے اندر داخل ہوئے تو وہاں تیرہ لاشیں ملیں۔ آکار نے مزید بتایا کہ ان میں سے بارہ یرغمالوں کے سر میں گولی ماری گئی تھی جب کہ ایک شخص کے کندھے میں گولی لگی تھی۔
امریکا نے اتوار کے روز ان ہلاکتوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا، ”وہ عراق کے کردستان علاقے میں ترک شہریوں کی ہلاکت کی مذمت کرتا ہے۔"
ہلاک شدگان میں فوجی اور پولیس افسران شامل
ان لاشوں کو ترکی کے ملطیہ صوبے میں منتقل کردیا گیا ہے۔ ملطیہ کے گورنر آیدین باروش نے بتایا کہ سن 2015 اور سن 2016 کے درمیان جن افراد کو اغوا کیا گیا تھا ان میں چھ فوجی اور دو پولیس افسران شامل تھے۔
کردستان ورکرز پارٹی نے ترکی کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے یرغمالوں کو قتل نہیں کیا بلکہ یہ لوگ ترک فضائیہ کے حملوں میں مارے گئے۔
وزیر دفاع خلوصی آکار نے اس پیش رفت کے حوالے سے اپنی ایک تقریر میں کہا کہ متاثرین میں سے بارہ کو سر میں گولی ماری گئی تھی جب کہ ایک شخص کو کندھے میں گولی ماری گئی۔
ترکی اور پی کے کے کے درمیان سن 1984سے تصادم جاری ہے۔ ترک فوج گزشتہ دو برسوں سے شمالی عراق میں اس گروپ کے خلاف فوجی کارروائیوں میں مصروف ہے۔ آکار نے بتایا کہ بدھ کے روز فوجی کارروائی کے دوران پی کے کے 48 افراد مارے گئے جب کہ ترکی کے تین فوجیوں کو بھی اپنی جان گنوانی پڑی۔
پی کے کے کے خلاف ترکی اور عراق کی مشترکہ کارروائی
ترکی، امریکا اور یورپی یونین نے پی کے کے کو دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔ سن 1980 کی دہائی میں ترکی اور پی کے کے کے درمیان تصادم کی وجہ سے چالیس ہزار سے زائد افراد ہلا ک ہوئے تھے۔
ماضی میں ترکی اور عراق کی حکومتوں نے پی کے کے جیسے جنگجو گروہوں کے خلاف کارروائی میں تعاون کرنے سے اتفاق کیا تھا۔ دسمبر میں انقرہ میں ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے ساتھ ملاقات کے دوران عراقی وزیر اعظم مصطفی القدیمی نے کہا تھا کہ ان کا ملک ”ایسی کسی تنظیم یا ڈھانچے کو برداشت نہیں کرے گا جس سے ترکی کی سکیورٹی کو خطرہ لاحق ہو۔"
اس کے جواب میں ایردوآن نے کہا تھا، ”علیحدگی پسند دہشت گردوں کے لیے مستقبل میں ترکی، عراق یا شام میں کوئی جگہ نہیں ہے۔"
اشتہار
کرد حامی جماعت پر دباؤ
ترکی کے شہریوں کے قتل کے اس واقعے کے بعد انقرہ ترکی کی کرد نواز پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی(ایچ ڈی پی) پر اپنا دباؤ بڑھا سکتا ہے۔
صدر ایردوآن نے اس پارٹی پر پی کے کے کے ساتھ تعلقات رکھنے کے الزامات بھی عائد کیے ہیں۔ ایچ ڈی پی نے اتوار کے روز کہا کہ اسے قتل کے ان واقعات پر 'انتہائی افسوس‘ ہے اور وہ پی کے کے سے قیدیوں کو رہا کرنے کی اپیل کرتی ہے۔
ایچ ڈی پی، پی کے کے کے ساتھ کسی قسم کے تعلق سے انکار کرتی ہے لیکن ایردوآن کے حلیف قوم پرست رہنما دولت بہجلی نے دہشت گردی کے خلاف اقدامات کے تحت اس پارٹی پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایچ ڈی پی کے ہزاروں اراکین کو ترکی کے انسداد دہشت گردی قانون کے تحت حراست میں لیا یا گرفتار کیا جا چکا ہے۔
ج ا / ع آ (روئٹرز، اے ایف پی، اے پی)
مشہور ڈرامہ سیریل ’ارطغرل غازی‘ کے دیس میں
پاکستان میں آج کل ہر سو ترک ڈرامه سیریل ارطغرل غازی کا ڈنکا بج رہا ہے۔ اردو ڈبنگ کے ساتھ نشر کیے جانے والا یہ تاریخی ڈرامہ پانچ سیزن پر مشتمل ہے۔ اس ڈرامے کا مرکزی کردار قبائلی سردار ارطغرل غازی ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
ارطغرل غازی کا مقبرہ
ترکی کے شہر استبنول سے تقریبا تین گھنٹے کی مسافت پر بیلیچک صوبے میں سوعوت کا قصبه واقع ہے۔ مقامی پہاڑی سلسلے کے خم دار اور پرپیچ راستوں پر واقع یہ چھوٹا سا قصبہ اپنے دامن میں صدیوں کی تاریخ سموئے ہوئے ہے۔ اس کی ایک نشانی یہاں قائم سلطنت عثمانیہ کی داغ بیل ڈالنے والے کائی قبیلے کے سردار ارطغرل غازی (1188-1281) کا مقبرہ ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
ڈرامه سیریل ارطغرل غازی
ڈرامه سیریل ارطغرل غازی کا مرکزی خیال سلطنت عثمانیہ کے قیام میں سے قبل بارهویں اور تیرھویں صدی عیسوی کے ان حالات پر مبنی ہے جو آگے چل کر سلطنت عثمانیہ کے قیام کا سبب بنے۔
تصویر: DW/S. Raheem
ارطغرل کا احیا
چودہ ہزر نفوس پر مشتمل پر یہ قصبہ تقریبا دو سال قبل تک تقریباﹰ گمنامی کا شکار تھا اور شاذونادر ہی کسی سیاح کی اس طرف آمد ہوتی تھی۔ لیکن پھرپانچ سال قبل ترکی کے سرکاری ٹی وی ٹی آرٹی کی پیشکش ڈرامہ سیریل ’’ارطغرل کا احیا‘‘ نے اس قصبے کو گمنامی سے نکال کر ایک مرتبہ پھر دنیا کی نظروں میں لا کھڑا کیا ہے
تصویر: DW/S. Raheem
روایتی لباس میں حفاظت
مقبرے کے باہر مقامی کائی قبیلے سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی چاق و چوبند ٹولیاں اپنے صدیوں پرانے روایتی لباس میں ملبوس اور ہتھیاروں سے لیس ہو کر حفاظتی ڈیوٹیاں سر انجام دیتی ہیں۔ انہیں دیکھنے والے ایک لمحے کے لیے وقت کی قید سے آزاد ہو کر خود کو آٹھ صدیوں قبل کے ماحول میں پاتے ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
خاک بھی موجود
ارطغرل کی قبر کے پہلو میں سلطنت عثمانیہ کے زیر اثر رہنے والے تمام ممالک سے لائی گئی خاک کو بڑی ترتیب کے ساتھ چھوٹی چھوٹی ڈبیاوں میں سجا کر رکھا گیا ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
پرچم بھی نصب
اس کے علاوہ اس مزار میں ان ممالک کے پرچم بھی ایستادہ کیے گئے ہیں، جن میں ترک زبان بولنے والے ایک بڑی تعداد میں آباد ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
پاکستانی سیاح
مقامی انتظامیہ کے ایک اہلکار کے مطابق مشرق وسطی، افریقہ اور ایشیائی ممالک خصوصاﹰ پاکستان سے سیاح گزشتہ دو سالوں سے تواتر کے ساتھ سوعوت کے قصبے کا رخ کر رہے ہیں۔ ان کے لیے یہاں سبب سے بڑی کشش بلاشبہ ارطغرل غازی کا مقبرہ ہے۔ یہ سن 1886 تک ایک عام قبر کی طرح ہی تھا لیکن پھر اسے عثمانی سلطان عبدالحمید دوئم نے ایک مقبرے کی شکل دی۔
تصویر: DW/S. Raheem
مقامی انداز میں تصاویر
یہ منظر بھی یہاں آئے سیاحوں کی اس مقام سے جڑی توقعات پوری کرنے میں بھر پور مدد کرتا ہے۔ ان کے اندر شوقین افراد کے لئے مقامی انداز میں ڈھل کر فوٹو کھچوانے کی سہولت بھی مہیا ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
ارطغرل سب سے بڑی وجہ
یہاں آنے والے سیاحوں کی اکثریت کا کہنا ہے کہ ان کے سوعوت سے تعارف کی وجہ ڈرامہ سیریل ارطغرل کے علاوہ کچھ نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ارطغرل کے عکس بندی اور خصوصاﹰ اس میں دکھائے گئے کائی قبیلے کی بودوباش اور رہن سہن کے طریقوں سے اتنے محصور ہوئے کہ انہوں نے سوعوت آنے کی ٹھان لی۔
تصویر: DW/S. Raheem
خیمے توجہ کا مرکز
یہاں کاروبار کرنے والوں نے گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لیے کائی قبیلے کے زیر استعمال صدیوں پرانے خیموں کو بھی ایک مرتبہ پھر آباد کر رکھا ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
کورونا کا سیاحت پر اثر
مقامی منتظمین کا کہنا ہے کہ دو سال قبل یہاں آنے والے سیاحوں کی ماہانہ تعداد چار سے پانچ سو کے درمیان تھی تاہم کورونا وائرس کی وبا پھیلنے سے قبل یہ تعداد بڑھ کر چار ہزار ماہانہ تک جا پہنچی تھی۔ تاہم اب جہاں کورونا وائرس نے دنیا بھر میں سیاحت کی صنعت کو متاثر کیا ہے وہیں ترکی میں بھی اس صنعت پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
یادگاری اشیا
اس قصبے میں اب یادگاری اشیا کی دوکانیں یا سوئینیر شاپس بھی تیزی سے اپنا کاروبار جما رہی ہیں۔ ان دوکانوں پر آپ کو چمڑے سے تیار کیے گئے کائی قبیلے کے روایتی لباس، روزمرہ استعمال کی دیگر اشیا کے ساتھ ساتھ ہتھیار اور خواتین کے پہناوے اور جیولری کا سامان دستیاب ہوتا ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
کائی قبیلے کا پرچم
دو تیروں اور ایک کمان پر مشتمل کائی قبیلے کا پرچم آپ کو یہاں جگہ جگہ لہراتا نظر آتا ہے۔ اکثر یادگاری اشیا جیسے کہ مختلف قسم کی ٹوپیوں، ٹی شرٹس اور کی چین وغیرہ پر بھی آپ کو یہ نشان بنا ہوا ضرور نظر آئے گا۔
تصویر: DW/S. Raheem
اہلیہ بھی احاطے میں دفن
ارطغرل کے مزار کے احاطے میں ان کی اہلیہ حلیمہ خاتون، دوسرے بیٹے سیوجی بے کے علاوہ چودہ دیگر قریبی رفقا کا کی قبریں بھی ہیں۔ ان کی اہلیہ حلیمہ خاتون کو ارطغرل ڈرامے میں ایک موثر کردار میں پیش کیا گیا ہے، جو ہر مشکل اور فیصلہ کن گھڑی میں اپنے خاوند کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہیں۔