کرد علاقوں میں ریاستی اثر و رسوخ کی بحالی چاہتے ہیں، صدر اسد
1 نومبر 2019
شامی صدر بشارالاسد نے کہا ہے کہ ان کی حکومت کا ایک بنیادی ہدف شمالی شام میں کردوں کے زیر اثر علاقوں میں دمشق حکومت کی رٹ قائم کرنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ ترکی کو ' دشمن‘ نہیں بنانا چاہتے۔
اشتہار
شامی صدر بشارالاسد کے مطابق ان کی حکومت چاہتی ہے کہ شمالی شام کے کرد علاقوں پر بھی ریاستی اختیار بحال ہو۔ تاہم ان کے بقول یہ عمل بتدریج ہو گا اور اس دوران نئے زمینی حقائق کا بھی خیال رکھا جائے گا۔ شام کے سرکاری ٹیلی وژن کو جمعرات کو دیے گئے اپنے اس انٹرویو میں اسد نے شمالی شام میں ایک بین الاقوامی حفاظتی زون قائم کرنے کی جرمن وزیر دفاع آنے گریٹ کارین باؤر کی تجویز مسترد کر دی۔ اسد کے بقول یہ تجویز بالآخر شام کی تقسیم کا باعث بن سکتی ہے۔
اس دوران شامی صدر نے ترکی اور روس کے مابین طے پانے والے اس معاہدے کو سراہا، جس کا تعلق ملک کے شمالی حصے سے کردوں کے انخلاء سے ہے۔ تاہم انہوں نے انقرہ کے ساتھ کسی ممکنہ جنگ کے امکان کو مسترد بھی نہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ ترکی اور روس کا یہ معاہدہ عارضی ہے، ''ہمیں حتمی اور اسٹریٹیجک اہداف اور ان تک پہنچنے کی حکمت عملی کے مابین فرق کرنا ہو گا۔‘‘ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ شامی دستے آخر کار ان علاقوں کا انتظام دوبارہ حاصل کر لیں گے، جو تازہ آپریشن کی وجہ سے ترکی کے زیر اثر چلے گئے ہیں۔
شامی دستوں کو 2012ء میں ان شمالی علاقوں سے نکلنا پڑا تھا۔ اس کے بعد سے کرد تنظیمیں وہاں کا انتظام سنھبالے ہوئے ہیں۔ کرد جنگجو تنظیمیں اسلامک اسٹیٹ کے خلاف جنگ میں امریکا کی اتحادی بھی تھیں۔
فکر و اطمينان کی کشمکش ميں مبتلا شامی کرد
شام ميں کردوں کے خلاف ترکی کی فوجی کارروائی اور دمشق حکومت کے دستوں کی واپسی نے مقامی کردوں کو ايک عجيب سی کشمکش ميں مبتلا کر ديا ہے۔ شامی فوج کی واپسی مقامی کردوں کے ليے فکر کا باعث ہے۔
تصویر: Karlos Zurutuza
دو لاکھ سے زائد افراد بے گھر
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق ترکی کی شام ميں فوجی کارروائی کے نتيجے ميں اب تک دو لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہيں۔ ايسے ميں لاتعداد افراد نے سرحد پار کر کے عراق ميں کرد علاقوں کی طرف جانے کی کوشش کی ليکن صرف انہيں ايسا کرنے ديا گيا، جن کے پاس مقامی رہائش کارڈ يا اجازت نامہ تھا۔
تصویر: Karlos Zurutuza
سرحدی علاقوں ميں مردوں کی اکثريت
شام کے شمال مشرقی حصوں ميں کئی ديہات خالی ہوتے جا رہے ہيں کيونکہ وہاں سے بڑے پيمانے پر نقل مکانی جاری ہے۔ ترک سرحد کے قريب علاقوں سے عورتيں اور بچے، اندرون ملک صوبہ الحسکہ منتقل ہو رہے ہيں۔ نتيجتاً سرحدی علاقوں ميں اکثريتی طور پر مرد بچے ہيں۔ تين بچوں کی والدہ ايک خاتون نے ڈی ڈبليو کو بتايا کہ الحسکہ ميں بھی لوگوں کی کافی تعداد ميں آمد کے سبب حالات مشکل ہوتے جا رہے ہيں۔
تصویر: Karlos Zurutuza
چہل پہل والے علاقے آج ويران
عامودا کے اس بازار ميں ہر وقت گھما گھمی رہا کرتی تھی ليکن آج يہ ويران پڑا ہے۔ يہاں اب اکثر مرد اکھٹے ہوتے ہيں۔ نو اکتوبر کو شروع ہونے والی ترکی کی فوجی کارروائی کے بعد سے بہت سی دکانيں بند ہو چکی ہيں۔ شامی کرنسی کی قدر ميں کمی کے سبب دکاندار اپنی اشياء کوڑيوں کے دام بيچتے ہيں۔ شيلنگ اکثر صبح سے شروع ہوتی ہے۔ جو لوگ اب بھی اس شہر ميں موجود ہيں، وہ رات کو کم ہی باہر نکلتے ہيں۔
تصویر: Karlos Zurutuza
کل کے دشمن، آج کے دوست
ترک سرحد سے متصل شمال مشرقی شامی شہر قامشلی ميں کرد انتظاميہ اور صدر بشار الاسد کے حاميوں کے مابين حالات سن 2011 ميں خانہ جنگی کے آغاز ہی سے کشيدہ ہيں۔ شامی فوج کی ترک سرحد پر تعيناتی کے حوالے سے فريقين کے مابين تازہ ڈيل کے بعد ابھی تک يہ غير واضح ہے کہ علاقے کا حقيقی کنٹرول کس کے پاس ہو گا۔
تصویر: Karlos Zurutuza
دو محاذوں پر لڑائی
کرد فائٹرز ترک فوج اور انقرہ کے حمايت يافتہ جنگجوؤں کے خلاف برسرپيکار تو ہيں ليکن يہ واضح نہيں کہ اسد کی حمايت حاصل کرنے کے بعد وہ اپنے ہی ملک ميں کس صورتحال سے دوچار ہوں گے۔ کيا اسد حکومت ان کے زير کنٹرول علاقوں پر اپنی مرضی مسلت کرے گی يا کردوں کو آزادی مل سکے گی۔
تصویر: Karlos Zurutuza
امريکا نے غلط وقت پر کردوں کا ساتھ چھوڑا
امريکا کی جانب سے يکطرفہ اور اچانک شام سے اپنی فوج کے انخلاء کے فيصلے سے شامی کرد سمجھتے ہيں کہ ان کے ساتھ اچھا نہيں کيا گيا۔ بہت سے مقامی لوگوں نے اس پر اطمينان کا اظہار کيا کہ ترک فوج کی پيش قدمی روکنے کے ليے ان کی انتظاميہ نے دمشق حکومت کے ساتھ سمجھوتہ کر ليا ہے۔
تصویر: Karlos Zurutuza
ہلاک شدگان کی تعداد ہزاروں ميں
شامی کردوں کے مطابق دہشت گرد تنظيم ’اسلامک اسٹيٹ‘ کے خلاف لڑائی ميں ان کے گيارہ ہزار سے زائد جنگجو ہلاک ہوگئے۔ داعش کو اس علاقے ميں شکست ہو چکی ہے ليکن قتل و تشدد کے واقعات اب بھی جاری ہيں۔ ترکی کی چڑھائی کے بعد سے بھی درجنوں شہری اور سينکڑوں فائٹرز ہلاک ہو چکے ہيں۔
تصویر: Karlos Zurutuza
7 تصاویر1 | 7
اس تناظر میں صدر اسد نے کہا کہ کردوں سے فوری طور پر ہتیھار ڈالنے کے لیے نہیں کہا جائے گا، ''وہاں پر مسلح گروہ ہیں اور ہم یہ توقع بھی نہیں کرتے کہ وہ فوری طور پر اپنے ہتھیار ہمارے حوالے کر دیں گے۔ ہم پہلے جیسے حالات چاہتے ہیں، جب اس علاقے کا مکمل انتظام ریاست کے ہاتھ میں تھا۔‘‘
اکتوبر کے آغاز میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی شام سے امریکی دستوں کے انخلاء کا اعلان کیا تھا، جس کے ساتھ ترکی کے لیے اس خطے میں کرد ملیشیا تنظیم 'وائی پی جے‘ کے خلاف عسکری کارروائی کی راہ ہموار ہو گئی تھی۔ ترکی اس تنظیم کو کالعدم کردستان ورکز پارٹی'پی کے کے‘ کا ایک بازو قرار دیتا ہے۔ 'پی کے کے‘ ایک طویل عرصے سے ترکی میں مسلح بغاوت میں ملوث رہی ہے۔
ترکی اور روس کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق کرد جنگجو شام کی ترکی سے ملنے والی سرحد سے متصل علاقوں سے نکل جائیں گے اور اس جگہ ایک محفوظ علاقہ قائم کیا جائے گا۔ انقرہ حکومت اس علاقے میں ان ساڑھے تین ملین شامی مہاجرین کو بسانے کا ارادہ رکھتی ہے، جو شامی خانہ جنگی کی وجہ سے ترکی میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ آج جمعہ یکم نومبر سے ان علاقوں میں روسی اور ترک دستوں نے مل کر حفاظتی گشت بھی شروع کر دی۔
شامی پناہ گزینوں کے لیے ترک ہلالِ احمر کی امدادی سرگرمیاں