1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کرد لڑکی کی ایک مسیحی لڑکے کے ساتھ محبت کی حیرت انگیز کہانی

عاطف بلوچ، روئٹرز
30 دسمبر 2016

یوں لگتا ہے کہ یہ کسی رونامی فلم کا کوئی منظر ہو۔ مقدونیہ کا ایک پولیس اہلکار مہاجرین کو سربیا کی سرحد عبور کرنے سے روکنے پر مامور تھا۔ یہیں اس کی نگاہ ایک عراقی کرد لڑکی پر پڑی اور محبت کی کہانی شروع ہو گئی۔

Griechenland Flüchtlinge am Grenzübergang in Idomeni
تصویر: Reuters/A. Avramidis

آرتھوڈوکس مسیحی عقیدے سے تعلق رکھنے والا پولیس محافظ بوبی دودفسکی اور کرد مسلمان نورا ارکنازی ایک ہی نگاہ میں محبت میں گرفتار ہو گئے۔ مارچ میں کیچڑ آلود سرحد پر ان دونوں کی نگاہیں تب ٹکرائیں، جب نورا دیگر مہاجرین کے ساتھ مقدونیہ سے سربیا میں داخل ہونے کی کوشش کر رہی تھیں اور بوبی ان پولیس اہلکاروں میں شامل تھے، جنہیں ان مہاجرین کو سرحد کی جانب بڑھنے سے روکنا تھا۔ ان دونوں کی نگاہیں چار ہوئیں اور پھر محبت کی کہانی اتنی تیزی سے آگے بڑھی کہ چند ہی ماہ بعد دونوں نے شادی بھی کر لی۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق، دودفسکی اب بھی بارش میں بھیگے اُس دن کو یاد کرتا ہے، جب اس نے نورا کو دیکھا تھا۔

اے ایف پی سے بات چیت کرتے ہوئے بوبی نے کہا، ’’تقدیر اسی کو کہتے ہیں۔‘‘

اب 35 سالہ بوبی مقدونیہ کے شمالی قصبے کُمانووو میں ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں اپنی بیوی نورا کے ہم راہ خوشی خوشی زندگی بسر کر رہے ہیں۔

نورا کا تعلق عراقی شہر دیالا سے ہے۔ وہاں شروع ہونے والی لڑائی کے دوران شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جہادیوں نے اس کے انجینیئر والد کو اغوا کر لیا اور ان کی رہائی کے لیے ہزاروں ڈالر کا تاوان طلب کیا۔ وہ بہت مشکل ہی سے گھر واپس لوٹے۔ اسی وجہ سے یہ گھرانہ یہ علاقہ چھوڑ کر یورپ کی جانب ہجرت پر مجبور ہو گیا۔

نورا نے اپنے بھائی، بہن اور والدین کے ہم راہ اس طویل سفر کا آغاز سن 2016ء کے اوائل میں کیا تھا۔ وہ پہلے شمالی عراق سے ترکی میں داخل ہوئیں اور پھر ایک کشتی کے ذریعے یونانی جزیرے لیسبوس پہنچیں اور بالآخر مقدونیہ میں داخل ہوئیں۔

یہ وہی راستہ تھا، جس کے ذریعے جنگی تنازعات، غربت اور افلاس کے شکار ہزاروں مہاجرین یورپ پہنچے۔ نورا کا مقصد تھا کہ وہ کسی طرح جرمنی پہنچ جائیں، تاہم محبت نے منزل بن کر ان کے پاؤں سے مقدونیہ ہی میں راستہ جدا کر دیا۔

مقدونیہ کو لاکھوں مہاجرین نے بہ طور راستہ استعمال کیا تھاتصویر: Getty Images/AFP/L. Gouliamaki

نورا کا کہنا ہے، ’’میری خواہش تھی کہ میں اپنے اہل خانہ کے ہم راہ جرمنی میں مقیم ہو جاؤں۔ میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ قسمت کا ایک حیران کدہ میرا منتظر ہے۔‘‘

جب نورا بوبی سے ملیں، تو اس وقت انہیں شدید بخار ہو رہا تھا اور وہ سخت پریشانی کے عالم میں تھیں کہ آیا ان کا خاندان سربیا کی سرحد عبور کرنے میں کامیاب ہوا یا نہیں۔ یہ وہی وقت تھا، جب بلقان ممالک نے اپنی سرحدوں کی بندش کا عمل شروع کیا تھا۔

پولیس افسران اور خصوصاﹰ ان اہلکاروں کو، جو انگریزی بول سکتے تھے، مہاجرین کو روکنے کے کام پر مامور کیا گیا۔ بوبی بھی انہیں میں سے ایک تھے، جنہوں نے شدید بخار اور سردی سے مقابلہ کرنے والی نورا اور ان کی والدہ کو ایک قریبی طبی مرکز پہنچایا۔

نورا کا مسکراتے ہوئے کہنا تھا، ’’بوبی نے کہا، پریشان مت ہو۔ تمہاری زندگی میں سب اچھا ہو جائے گا۔ اس تمام وقت میں بوبی بار بار میری طرف دیکھ رہا تھا۔‘‘

نورا سے قبل دو مرتبہ طلاق یافتہ بوبی کا کہنا ہے کہ انہیں لگا، جیسے انہیں آخرکار خوابوں کی منزل مل گئی ہو، ’’جب میں نے پہلی بار نورا کو دیکھا، تو مجھے ان کی آنکھوں میں کچھ بہت خوب صورت سی شے دکھائی دی۔‘‘

پھر دیگر مہاجرین تو آگے بڑھتے چلے گئے، مگر نورا اور بوبی نے ساتھ ہی وقت گزارنا شروع کر دیا۔ وہ نورا اور ان کی والدہ کو قریبی مارکیٹ میں کھانے پینے کی اشیاء اور ملبوسات کی خریداری کے لیے لے جانے لگا۔ نورا کو بوبی کا مہاجرین کے ساتھ عمدہ رویہ بہت اچھا لگا اور پھر دونوں ایک دوسرے کی طرف کھنچتے چلے گئے، مذہب اور ثقافت کے فرق پیچھے رہ گئے اور محبت جیت گئی۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں