کرزئی نے دورہ پاکستان کی دعوت قبول کرلی
22 جولائی 2013پاکستانی وزیراعظم کے امور خارجہ کے مشیر سرتاج عزیز اتوار 21 جولائی کو افغان دارالحکومت کابل پہنچے۔ ان کے اس دورے کا مقصد افغانستان کی جانب سے طالبان کے ساتھ 12 سالہ جنگ بندی کی کوششوں میں تعاون فراہم کرنا ہے۔
سرتاج عزیز نے افغان وزیر خارجہ زلمے رسول کے ساتھ مذاکرات کے بعد صدر حامد کرزئی سے بھی ملاقات کی اور انہیں پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے دورہ پاکستان کی باضابطہ دعوت پیش کی۔ دونوں سربراہان پہلے ہی ٹیلیفون پر دو مرتبہ تبادلہ خیال کرچکے ہیں۔
پیر 22 جولائی کو افغانستان کے صدارتی دفتر کی جانب سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق، ’’پاکستان کی جانب سے دی گئی دعوت کو ’اصولی طور پر‘ پر قبول کر لیا گیا۔‘‘ صدارتی ترجمان کی جانب سے جاری کیے گئے اس بیان میں مزید کہا گیا ہے، ’’یہ اعلی سطحی دورہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے، جب اس کی ترجیحات پہلے سے طے ہوں، اس حوالے سے ابتدائی تیاری مکمل ہو اور ’’دہشت گردی کے خلاف سنجیدہ اور موثر ایجنڈا اور امن عمل سب سے بڑی ترجیحات ہوں‘‘۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مغربی دنیا میں یہ تاثر بہت زیادہ مضبوط ہے کہ افغانستان میں مستقل اور دیرپا امن پاکستان کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے لیکن ان ہمسایہ ممالک کے باہمی تعلقات کافی عرصے سے بد اعتمادی کا شکار ہیں۔ دونوں ممالک جو مسلسل دہشت گردی اور اسلامی شدت پسندی کا شکار ہیں ایک دوسرے پر اپنے ملک میں دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزمات لگاتے رہتے ہیں۔
سرتاج عزیز پاکستانی حکومت کے ایک انتہائی سینیئر رکن ہیں۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق وہ ایک ایسے وقت میں افغانستان کا دورہ کر رہے ہیں جب پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں کشیدگی بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔
طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کی بین الاقوامی کوششیں بھی اس وقت مشکلات کا شکار ہیں۔ یہ سلسلہ دوحہ میں طالبان کا دفتر کھولے جانے کے بعد سے شروع ہوا۔ اس دفتر کے کھلنے پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے افغان صدر نے اس طالبان کا غیر سرکاری سفارت خانہ قرار دیا تھا۔ افغان صدر نے دوحہ میں طالبان دفتر کے قیام کو افغانستان کو تقسیم کرنے کے مترادف قرار دیا تھا۔ انہوں نے اپنے اس بیان یہ بھی کہا کہ اس منصوبے کے پیچھے پاکستان یا امریکا کا ہاتھ ہے۔
سرتاج عزیز نے ان الزامات کی تردید کی کہ پاکستان کے طالبان کے ساتھ رابطے ہیں۔ تاہم انہوں نے یہ ضرور کہا کہ ہم کچھ ’ملیشیا‘ ارکان کے ساتھ رابطے میں ہیں۔آئندہ برس افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کے انخلاء کے تناظر میں امن کی کوششوں میں تیزی دیکھنے میں آرہی ہے۔