جرمنی کی قدامت پسند سیاسی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین کی موجودہ رہنما چانسلر انگیلا میرکل ہیں۔ تاہم اس پارٹی کی موجودہ مقبولیت میں کئی اہم سیاستدانوں کی کوششیں بھی شامل ہیں، جنہوں نے اپنے نظریات پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا۔
اشتہار
جرمنی کی قدامت پسند سیاسی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین کی موجودہ مقبولیت میں میرکل کے علاوہ کئی اہم سیاستدانوں کی کوششیں بھی شامل ہیں، جنہوں نے اپنے نظریات پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا اور دوسری عالمی جنگ کے بعد تباہ حال جرمنی کو ایک نئی شناخت بخشی۔
کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) جرمنی کی سب سے اہم سیاسی جماعت ہے۔ ناقدین کے مطابق یہ پارٹی ایک ایسا ادارہ ہے، جو جرمن تاریخ سے اسباق سیکھنے کے بعد وجود میں آیا تھا۔ وفاقی جمہوریہ جرمنی کے اڑسٹھ سالہ دور میں اڑتالیس برس سی ڈی یو ہی اقتدار میں رہی ہے۔ آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں اس پارٹی کی تاریخ، اقدار اور اہم رہنماؤں پر۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد سن انیس سو انچاس میں وفاقی جمہوریہ جرمنی وجود میں آیا۔ تب جرمنی جنگ کی تباہ کاریوں سے اجڑ چکا تھا اور اسے ترقی کی خاطر ایک دوراندیش رہنما کی ضرورت تھی۔ سن انیس سو انچاس کے پہلے انتخابات میں سی ڈی یو کو کامیابی ملی اور تب اسی پارٹی کے رہنما کونراڈ آڈے ناؤر پہلے وفاقی چانسلر منتخب ہوئے۔ اس الیکشن کی ایک اہم بات یہ بھی تھی کہ وہ صرف ایک ووٹ کے فرق سے اس عہدے پر فائز ہونے میں کامیاب ہوئے اور غالباﹰ یہ ووٹ آڈے ناؤر کا اپنا ہی تھا۔
جرمنی میں انتخابات کیسے ہوتے ہیں؟
01:27
جب آڈے ناؤر پہلی مرتبہ چانسلر کے عہدے پر فائز ہوئے، تو ان کی عمر 69 برس تھی۔ قبل ازیں وہ جرمن شہر کولون کے میئر کی ذمہ داریاں بھی نبھا چکے تھے۔ آڈے ناؤر وائیمار ریپبلک کے دور میں کیتھولک چرچ کی سینٹرل پارٹی کے ممبر بھی تھے۔ نازی دور میں بھی آڈے ناؤر خاموش نہیں رہے تھے اور انہوں نے اپنی سیاسی جدوجہد جاری رکھی تھی۔
آڈے ناؤر 14 برس تک جرمنی کے چانسلر رہے۔ سن 1949ء سے لے کر 1963ء تک بطور چانسلر انہوں نے ان اعتدال پسندانہ اقدار کی بنیاد رکھی، جو آج کل جرمنی کی شناخت قرار دی جاتی ہیں۔
انہی کے دور اقتدار میں جرمنی نے نہ صرف مغربی یورپی ریاستوں بشمول فرانس کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کیے بلکہ وہ مغربی اور مشرقی جرمنی کے اتحاد کے بھی حامی تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ایک دن منقسم جرمن ریاستوں کا دوبارہ اتحاد ہو جائے گا لیکن یہ دن دیکھنے کے لیے وہ زندہ نہ رہے۔ سن انیس سو تریسٹھ میں اکانوے برس کی عمر میں ان کا انتقال ہو گیا تھا۔
ہیملوٹ کوہل کا دور حکومت
باویریا میں ہم خیال سیاسی پارٹی کرسچن سوشل یونین (سی ایس یو) کے ساتھ اتحاد بنا کر سن انیس سو بیاسی میں سی ڈی یو کے رہنما ہیلموٹ کوہل نے وفاقی جمہوریہ جرمنی کا چانسلر بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ تب سی ڈی یو کے اقتدار میں آنے کی ایک اہم وجہ یہ بنی کہ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) کے اپنی اہم اتحادی فری ڈیموکریٹک پارٹی (ایف ڈی پی) کے ساتھ اختلافات پیدا ہو گئے۔ تب ایف ڈی پی نے ایس پی ڈی کو چھوڑ کر سی ڈی یو کے ساتھ نیا اتحاد بنا لیا اور یوں کوہل کو موقع ملا کہ وہ جرمنی کی قیادت کر سکیں۔
چانسلر بننے کے بعد ہیلموٹ کوہل نے کونراڈ آڈے ناؤر کی پالیسیوں کو بحال کیا اور متحدہ یورپ کی کوششوں میں مصروف ہو گئے۔ انہی کے دور اقتدار میں مشرقی اور مغربی جرمنی ریاستوں کا اتحاد ممکن ہوا۔ کوہل 1973ء سے لے کر انیس سو ننانوے تک کرسچن ڈیموکریٹک یونین کے سربراہ رہے جبکہ یکم اکتوبر 1982ء کو پارلیمان کی طرف سے چھٹا جرمن چانسلر منتخب کیے جانے والے ہیلموٹ کوہل جرمنی کی تاریخ میں طویل ترین عرصے تک چانسلر رہنے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں۔ وہ سن 1982 سے انیس سو اٹھانوے تک جرمن چانسلر رہے۔
جرمنی کا اتحاد، کب کیا ہوا؟
02:37
This browser does not support the video element.
کوہل البتہ جرمنی کے دوبارہ اتحاد کے بعد پیدا ہونے والی سماجی اور اقتصادی مشکلات کو حل کرنے میں ناکام ہو گئے تھے۔
اسی وجہ سے وہ سن انیس سو اٹھانوے کے وفاقی انتخابات میں شکست سے دوچار ہوئے۔
اسی دوران انتخابی مہم کے دوران اپنی پارٹی کے لیے مالی عطیات کے ایک اسکینڈل میں ملوث رہنے والے کوہل نے انیس سو ننانوے میں پارٹی کی لیڈرشپ کو بھی خیرباد کہہ دیا اور سی ڈی یو میں طاقت کی جنگ شروع ہو گئی۔
کسی کو معلوم نہ تھا کہ تب ٹوٹ پھوٹ کا شکار اس پارٹی کے اختلافات کے نتیجے میں سی ڈی یو کی تیسری اہم رہنما ابھرنے والی تھیں۔
انگیلا میرکل کی کرشمہ ساز شخصیت
مشرقی جرمنی سے تعلق رکھنے والی انگیلا میرکل ہیلموٹ کوہل کے قریبی ساتھیوں میں شامل تھیں۔ سن دو ہزار پانچ کے انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد سی ڈی یو کی رہنما میرکل نے سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت سازی کی اور خود چانسلر کے عہدے پر فائز ہوئیں۔ عوامی جائزوں کے مطابق سی ڈی یو کی بہت زیادہ عوامی مقبولیت کی بڑی وجہ انگیلا میرکل کی کرشمہ ساز شخصیت ہی ہے۔
کونراڈ آڈے ناؤر اور ہیلموٹ کوہل کی طرح میرکل بھی اعتدال پسندی اور نتائج پر یقین رکھتی ہیں۔ میرکل نے اپنے اب تک کے بارہ سالہ دور اقتدار میں کئی اتار چڑھاؤ دیکھے لیکن ان کے حوصلے کبھی متزلزل نہ ہوئے۔ ان میں سب سے اہم اور بڑا موضوع مہاجرت کا بحران کہا جا سکتا ہے۔ اسی بحران کی وجہ سے ایک وقت میں ان کی عوامی مقبولیت میں کمی بھی ہوئی لیکن اپنی پالیسیوں کے سبب انہوں نے عوام کا اعتماد ایک مرتبہ پھر جیت لیا۔ عوامی جائزوں کے مطابق چوبیس ستمبر کے وفاقی انتخابات میں سی ڈی یو اور سی ایس یو کا قدامت پسند سیاسی اتحاد دیگر پارٹیوں پر واضح برتری حاصل کر لے گا۔
انگیلا میرکل کے دور اقتدار کے کچھ انتہائی اہم لمحات
انگیلا میرکل کے قدامت پسند سیاسی اتحاد نے چوبیس ستمبر کے وفاقی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تو میرکل کے چوتھی مرتبہ بھی جرمن چانسلر کے عہدے پر فائز ہونے کی راہ ہموار ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M.Schreiber
ہیلموٹ کوہل کی جانشین
انگیلا میرکل ہیلموٹ کوہل کے بعد پہلی مرتبہ کرسچن ڈیموکریٹک یونین کی نگران سربراہ بنی تھیں۔ انہیں اس سیاسی پارٹی کی قیادت کو اب تقریبا سترہ برس ہو چکے ہیں جبکہ انہوں نے سن دو ہزار پانچ میں پہلی مرتبہ جرمن چانسلر کا عہدہ سنبھالا تھا۔
تصویر: imago/Kolvenbach
پہلا حلف
’میں جرمنی کی خدمت کرنا چاہتی ہوں‘، بائیس نومبر 2005 کو انگیلا میرکل نے یہ کہتے ہوئے پہلی مرتبہ چانسلر شپ کی ذمہ داریاں سنبھالی تھیں۔ انہیں جرمنی کی پہلی خاتون چانسلر بننے کا اعزاز تو حاصل ہوا ہی تھا لیکن ساتھ ہی وہ اس عہدے پر فائز ہونے والی ایسی پہلی شخصیت بھی بنیں، جس کا تعلق سابقہ مشرقی جرمنی سے تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Bergmann
میرکل اور دلائی لامہ کی ملاقات
میرکل نے بطور چانسلر اپنے دور کا آغاز انتہائی عجزوانکساری سے کیا تاہم جلد ہی انہوں نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو لوہا منوا لیا۔ 2007ء میں میرکل نے دلائی لامہ سے ملاقات کی، جس سے بیجنگ حکومت ناخوش ہوئی اور ساتھ ہی جرمن اور چینی تعلقات میں بھی سرد مہری پیدا ہوئی۔ تاہم میرکل انسانی حقوق کو مقدم رکھتے ہوئے دیگر تمام تحفظات کو نظر انداز کرنا چاہتی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Schreiber
پوٹن کے کتے سے خوفزدہ کون؟
میرکل نہ صرف مضبوط اعصاب کی مالک ہیں بلکہ وہ منطق کا دامن بھی کبھی نہیں چھوڑتیں۔ تاہم روسی صدر پوٹن جرمن چانسلر کا امتحان لینا چاہتے تھے۔ میرکل کتوں سے خوفزدہ ہوتی ہیں، یہ بات پوٹن کو معلوم ہو گئی۔ سن 2007 میں جب میرکل روس کے دورے پر سوچی پہنچیں تو پوٹن نے اپنے کتے کونی کو بلاروک ٹوک میرکل کے قریب جانے دیا۔ تاہم میرکل نے میڈیا کے موجودگی میں مضبوط اعصاب دکھائے اور خوف کا کوئی ردعمل ظاہر نہ کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Astakhov
پرسکون میرکل
جرمن چانسلر انگیلا میرکل مسائل کے باوجود بھی پرسکون دکھائی دیتی ہیں۔ سن 2008 میں جب عالمی مالیاتی بحران پیدا ہوا تو میرکل نے یورو کو مضبوط بنانے کی خاطر بہت زیادہ محنت کی۔ اس بحران میں ان کی حکمت عملی نے میرکل کو’بحرانوں کو حل کرنے والی شخصیت‘ بنا ڈالا۔ میرکل کی کوششوں کی وجہ سے ہی اس بحران میں جرمنی کی معیشت زیادہ متاثر نہیں ہوئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/epa/H. Villalobos
دوسری مرتبہ چانسلر شپ
ستائیس ستمبر 2009ء کے انتخابات میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین نے ایک مرتبہ پھر کامیابی حاصل کر لی۔ اس مرتبہ میرکل نے فری ڈیموکریٹک پارٹی (ایف ڈی پی) کے ساتھ اتحاد بنایا اور دوسری مرتبہ چانسلر کے عہدے پر منتخب کی گئیں۔
تصویر: Getty Images/A. Rentz
جوہری توانائی کا پروگرام اور مخالفت
انگیلا میرکل کوالیفائڈ ماہر طبیعیات ہیں، غالبا اسی لیے وہ حتمی نتائج کے بارے میں زیادہ سوچتی ہیں۔ تاہم انہوں نے فوکو شیما کے جوہری حادثے کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ جاپان میں ہوئے اس خطرناک حادثے کے بعد جرمنی میں جوہری توانائی کے حامی فوری طور پر ایٹمی توانائی کے مخالف بن گئے۔ یوں میرکل کو بھی جرمن جوہری ری ایکٹرز کو بند کرنے کا منصوبہ پیش کرنا پڑا۔
تصویر: Getty Images/G. Bergmann
میرکل کی ازدواجی زندگی
ان کو کون پہچان سکتا ہے؟ یہ انگیلا میرکل کے شوہر یوآخم زاؤر ہیں، جو برلن کی ہیمبولٹ یونیورسٹی میں طبیعیات اور تھیوریٹیکل کیمسٹری کے پروفیسر ہیں۔ ان دونوں کی شادی 1998ء میں ہوئی تھی۔ عوامی سطح پر کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ یوآخم زاؤر دراصل جرمن چانسلر کے شوہر ہیں۔
تصویر: picture alliance/Infophoto
این ایس اے: میرکل کے فون کی بھی نگرانی
امریکی خفیہ ایجسنی این ایس اے کی طرف سے جرمن سیاستدانون کے ٹیلی فونز کی نگرانی کا اسکینڈل سامنا آیا تھا۔ یہ بھی کہا گیا کہ امریکا نے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے فون بھی ریکارڈ کیے۔ اس اسکینڈل پر جرمنی اور امریکا کے دوستانہ تعلقات میں بھی اتار چڑھاؤ دیکھا گیا۔ لیکن میرکل نے اس نازک وقت میں بھی انتہائی سمجھداری سے اپنے تحفظات واشنگٹن تک پہنچائے۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
تیسری مرتبہ چانسلر کا عہدہ
انگیلا میرکل کے قدامت پسند اتحاد نے سن دو ہزار تیرہ کے وفاقی انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کی اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت سازی کی۔ ان انتخابات میں ان کی سابقہ اتحادی فری ڈیموکریٹک پارٹی کو شکست ہوئی اور وہ پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
یونان کا مالیاتی بحران
میرکل دنیا بھر میں انتہائی مقبول ہیں لیکن یونان میں صورتحال کچھ مختلف ہے۔ سن 2014 میں جب یونان کا مالیاتی بحران شدید تر ہو چکا تھا تو جرمنی اور یونان کی ’پرانی دشمنی‘ کی جھلک بھی دیکھی گئی۔ لیکن میرکل اس وقت بھی اپنی ایمانداری اورصاف گوئی سے پیچھے نہ ہٹیں۔ بچتی کٹوتیوں اور مالیاتی اصلاحات کے مطالبات پر ڈٹے رہنے کی وجہ سے یونانی عوام جرمنی سے زیادہ خوش نہیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/epa/S. Pantzartzi
جذباتی لمحہ
انگیلا میرکل زیادہ تر اپنے جذبات آشکار نہیں ہونے دیتی ہیں۔ تاہم دیگر جرمنوں کی طرح انگیلا میرکل بھی فٹ بال کی دلدادہ ہیں۔ جب جرمن قومی فٹ بال ٹیم نے برازیل منعقدہ عالمی کپ 2014ء کے فائنل میں کامیابی حاصل کی تو میرکل اپنے جذبات کو قابو میں نہ رکھ سکیں۔ جرمن صدر بھی یہ میچ دیکھنے کی خاطر میرکل کے ساتھ ریو ڈی جینرو گئے تھے۔
تصویر: imago/Action Pictures
مہاجرین کا بحران ایک نیا چیلنج
حالیہ عرصے میں مہاجرین کی ایک بڑی تعداد جرمنی پہنچ چکی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ کو مہاجرین کے سب سے بڑے بحران کا سامنا ہے۔ میرکل کہتی ہیں کہ جرمنی اس بحران سے نمٹ سکتا ہے۔ لیکن جرمن عوام اس مخمصے میں ہیں کہ آیا کیا جرمنی واقعی طور پر اس بحران پر قابو پا سکتا ہے۔ ابھی اس کے نتائج آنا باقی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Hoppe
پیرس حملے اور یورپی سکیورٹی
تیرہ نومر کو پیرس میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں کی وجہ سے فرانس بھر میں ہنگامی حالت نافذ کر دی گئی۔ انگیلا میرکل نے اپنے ہمسایہ ملک کو یقین دلایا ہے کہ برلن حکومت ہر ممکن تعاون کرے گی۔ کوئی شک نہیں کہ پیرس حملوں کے بعد کی صورتحال میرکل کے دس سالہ دور اقتدار میں انہیں پیش آنے والے چیلنجوں میں سب سے بڑا چیلنج ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. von Jutrczenka
چوتھی مرتبہ چانسلر
انگیلا میرکل نے بیس نومبر سن دو ہزار سولہ کو اعلان کیا کہ وہ چوتھی مرتبہ بھی چانسلر بننے کے لیے تیار ہیں۔ انہیں اپنی پارٹی کی طرف سے مکمل حمایت حاصل رہی اور ان کا قدامت پسند اتحاد چوبیس ستمبر کے وفاقی انتخابات میں سب سے بڑی سیاسی طاقت بن کر ابھرا۔ یوں میرکل کے چوتھی مرتبہ بھی چانسلر بننے کی راہ ہموار ہو گئی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
15 تصاویر1 | 15
سی ڈی یو کی بنیادی اقدار کیا ہیں؟
قدامت پسند کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی ماضی کے مقابلے میں اب بہت زیادہ اعتدال پسند ہو چکی ہے۔ کئی ناقدین کے مطابق یہ پارٹی سیکولر نظریات کی حامی ہو چکی ہے۔ سی ڈی یو نے کئی مذہبی معاملات پر بھی باویریا میں اپنی ہم خیال پارٹی سی ایس یو کے مقابلے میں مختلف موقف اختیار کیا۔ یہ امر اہم ہے کہ سی ایس یو کیتھولک مسیحی روایات کی حامی سیاسی پارٹی قرار دی جاتی ہے۔
سی ڈی یو مالیاتی استحکام کی حامی ہے اور وہ دیگر ممالک کے مقابلے میں جرمنی میں ٹیکسوں کی قدرے زیادہ شرح میں کٹوتی کے حق میں نہیں ہے۔ سی ڈی یو ریاستی نگرانی کو بڑھاتے ہوئے عوام کی بہتر سکیورٹی کو یقینی بنانے کی بات بھی کرتی ہے۔ اس پارٹی کا یہ بھی کہنا ہے کہ دہشت گردی کے انسداد کی خاطر فوج کو بھی فعال ہونا چاہیے۔
سی ڈی یو کے اکثر ممبران ہم جنس پرستوں کی آپس میں شادیوں اور اسقاط حمل کے بھی خلاف ہیں لیکن امریکا کے مقابلے میں جرمن قدامت پسند زیادہ لبرل ہیں۔ چانسلر میرکل کی حکومت نے ملک میں ہم جنس پرستوں کی آپس میں شادیوں کو قانونی حیثیت دینے کا قانون بھی منظور کر لیا ہے۔ تاہم روایتی اقدار کی حامی میرکل نے خود اس قانون کے خلاف ووٹ دیا تھا۔
جرمن الیکشن 2017، کب کیا ہو گا؟ ایک مختصر جائزہ
رواں برس جرمن سیاست کے لیے انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ اسی سال فیصلہ ہو گا کہ اگلا جرمن چانسلر کون ہو گا؟ اس مرتبہ چوبیس ستمبر کے وفاقی الیکشن میں 61.5 ملین اہل ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں گے۔
تصویر: Getty Images/T. Lohnes
وفاقی الیکشن کا سال
کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ انگیلا میرکل چوتھی مرتبہ جرمنی کی چانسلر بننے کی دوڑ میں شامل ہیں تو دوسری طرف عوامیت پسند سیاسی پارٹی اے ایف ڈی مہاجرت کے بحران کا فائدہ اٹھا کر زیادہ سے زیادہ عوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے۔ اس الیکشن کا نتیجہ کچھ بھی نکلے لیکن ایک بات یقینی ہے کہ سن دو ہزار سترہ کے اختتام تک جرمن سیاست کا منظر نامہ بدل جائے گا۔
تصویر: Getty Images
چھبیس مارچ، زارلینڈ کے صوبائی الیکشن
فرانس کے ساتھ متصل چھوٹے سے جرمن صوبے زارلینڈ کے عوام نے چھبیس مارچ کو اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ اکاون نشستوں پر مشتمل اس صوبے کی پارلیمان کی وزیر اعلیٰ کرسچن ڈیموکریٹ Annegret Kramp Karrenbauer ہیں۔ وہ تیسری مرتبہ بھی اس عہدے پر فائز ہونے میں کامیاب ہوئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Becker&Bredel
سات مئی، وفاقی جرمن ریاست شلیسوِگ ہولسٹائن کے الیکشن
شلیسوِگ ہولسٹائن کے الیکشن میں میرکل کی جماعت سب سے بڑی سیاسی پارٹی بن کر ابھری جبکہ اس مرتبہ اے ایف ڈی پہلی مرتبہ اس صوبے کی پارلیمان میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اس صوبے میں سکونت پذیر ڈینش شہریوں کو بھی اس الیکشن میں حصہ لینے کا حق حاصل ہے۔ گزشتہ انتخابات میں 69 نشستوں پر مشتمل اس صوبے کی پارلیمان میں ایک ڈینش اقلیتی پارٹی تین نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C. Rehder
چودہ مئی، نارتھ رائن ویسٹ فلیا میں انتخابات میں میرکل کی غیر معمولی کامیابی
جرمنی کی مغربی ریاست نارتھ رائن ویسٹ فلیا میں چودہ مئی کے علاقائی الیکشن میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت نے میدان مار لیا۔ یہ جرمنی کا سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ ہے، جہاں سترہ اعشاریہ پانچ ملین نفوس آباد ہیں۔ اس صوبے کے الیکشن وفاقی انتخابات پر بہت زیادہ اثرانداز ہوتے ہیں۔ جو پارٹی اس صوبے میں اچھی کارکردگی دکھاتی ہے، اس کے وفاقی الیکشن میں کامیابی کے امکانات بھی روشن ہو جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Gambarini
انیس جون، ’کون سی پارٹیاں الیکشن لڑنا چاہتی ہیں‘
وفاقی الیکشن سے ستانوے دن قبل ایسی تمام سیاسی پارٹیوں کو وفاقی ریٹرننگ آفیسر کو باقاعدہ طور پر بتانا ہوتا ہے کہ وہ الیکشن میں حصہ لینا چاہتی ہیں۔ اس مرتبہ انیس جون کی شام چھ بجے تک الیکشن میں حصہ لینے کی خواہمشند تمام پارٹیوں نے اپنی درخواستیں جمع کرا دیں۔ جرمن دفتر شماریات کے سربراہ Roderich Egeler الیکشن کی عمل کی نگرانی بھی کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Burgi
سات جولائی فیصلے کا دن، ’کون سی سیاسی جماعتیں اہل ہیں‘
اس مرتبہ جرمن وفاقی انتخابات سے 79 دن قبل ایسی سیاسی پارٹیوں کے ناموں کا اعلان کر دیا گیا، جو الیکشن لڑنے کی اہل ہیں۔ اگر کسی پارٹی کو وفاقی ریٹرننگ آفیسر کے اس فیصلے پر اعتراض ہوتا تو وہ چار دنوں کے اندر اندر آئینی عدالت سے رجوع کر سکتی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Deck
سترہ جولائی، امیدواروں کی فہرست کی تیاری کا آخری دن
وفاقی الیکشن سے 69 دن پہلے تمام سیاسی جماعتوں فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ ان کا کون سا امیدوار کون سے حلقے سے انتخابات میں حصہ لے گا۔ اس مرتبہ سترہ جولائی تک تمام پارٹیوں نے اس تناظر میں اپنی فہرستیں الیکشن حکام کے حوالے کر دیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
ستائیس جولائی، آئینی عدالت کے فیصلے کا دن
وفاقی ریٹرننگ آفیسر نے اگر کسی چھوٹی سیاسی پارٹی کو الیکشن میں حصہ لینے سے روکا تھا اور اس نے آئینی عدالت سے رجوع کیا تھا تو ستائیس جولائی کو جرمنی کی آئینی عدالت فیصلہ سنانا تھا کہ وہ پارٹی انتخابات میں حصہ لینے کی اہل ہے یا نہیں۔ تاہم اس مرتبہ کسی پارٹی الیکشن میں حصہ لینے سے نہیں روکا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Steinberg
تیرہ اگست، انتخابی مہم کے باقاعدہ آغاز کا دن
جرمنی میں سیاسی پارٹیاں اپنی انتخابی مہموں کا آغاز صرف تبھی کر سکتی ہیں جب الیکشن کی تاریخ میں چھ ہفتوں سے ایک دم کم رہ جائے۔ کئی ممالک میں ایسی کوئی پابندی نہیں ہے۔ جرمنی میں اس مرتبہ تیرہ اگست سے سیاسی پارٹیوں نے باقاعدہ طور پر اپنی اپنی انتخابی مہموں کا آغاز کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Balk
بیس اگست، کون ووٹ ڈالنے کا اہل ہے؟
جرمنی میں وفاقی الیکشن سے قریب ایک ماہ قبل ووٹر لسٹ تیار کر لی جاتی ہے۔ جرمنی میں اٹھارہ برس یا اس سے زائد عمر کا ہر شہری جنرل الیکشن میں ووٹ ڈالنے کا اہل ہوتا ہے۔ یوں جرمنی میں اہل ووٹرز کی تعداد تقریبا 61.5 ملین بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K.-D. Gabbert
تین ستمبر، الیکشن سے تین ہفتے قبل
جرمنی میں وفاقی الیکشن سے تین ہفتے قبل تمام ووٹرز کو بذریعہ ڈاک مطلع کر دیا جاتا ہے کہ وہ ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔ ایسے شہری جنہوں نے ابھی تک اپنا اندارج نہیں کرایا، وہ اس موقع پر ووٹر لسٹ میں اپنا نام درج کرانے کی درخواست کر سکتے ہیں۔ اسی دوران ایسے ووٹر جو ڈاک کے ذریعے اپنا حق رائے دہی استعمال کرنا چاہتے ہیں، انہیں بھی الیکشن حکام کو مطلع کرنا ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/R. Goldmann
اٹھارہ ستمبر، ووٹنگ کے عمل کی تیاری شروع
الیکشن سے ایک ہفتہ قبل بیلٹ پیپرز کی تقسیم، پولنگ بوتھوں کے قیام اور دیگرسازوسامان کے حوالے سے کام میں تیزی آ جاتی ہے۔ تربیت یافتہ عملہ ان تمام کاموں کی نگرانی کرتا ہے۔ اسی دوران مقامی انتظامیہ کو ووٹرز کو مطلع کرنا ہوتا ہے کہ انہیں ووٹ ڈالنے کے لیے کس مقام پر پہنچنا ہے۔ پولنگ کے 36 گھنٹے قبل تک شہریوں کو حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ ووٹر لسٹ میں اپنا نام درج کرا لیں۔
تصویر: picture-alliance/R. Goldmann
چوبیس ستمبر، ووٹنگ کا دن
اس برس چوبیس ستمبر کے دن جرمنی میں وفاقی انتخابات کے سلسلے میں پولنگ کی جائے گی۔ اس دن اسکول، کمیونٹی سینٹرز اور بڑے بڑے ہالوں کے علاوہ دیگر کئی مقامات کو بھی پولنگ اسٹیشنوں میں بدل دیا جائے گا۔ پولنگ کا یہ عمل صبح آٹھ بجے تا شام چھ بجے جاری رہے گا۔ اسی رات ہی الیکشن کے غیر حتمی نتائج کا اعلان کر دیا جائے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پچیس ستمبر، خوشیاں اور غم
الیکشن حکام کی طرف سے تمام ووٹوں کی حتمی گنتی کے بعد الیکشن کے اگلے دن ہی باضابطہ سرکاری نتائج کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس موقع پر کامیابی حاصل کرنے والی سیاسی جماعتیں خوشیاں مناتی ہیں جبکہ شکست خوردہ کچھ افسردہ ہو جاتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
چوبیس اکتوبر، نئی جرمن پارلیمان کا اجلاس
جرمنی میں نئی منتخب پارلیمان کا پہلا اجلاس الیکشن کے دن کے ایک ماہ کے اندر اندر ہونا ہوتا ہے۔ اس مرتبہ نئی پارلیمان کا اجلاس چوبیس اکتوبر سے قبل ہی منعقد کیا جائے گا۔ اس کے بعد پھر حکومت سازی کا عمل شروع ہوتا ہے۔ مختلف سیاسی پارٹیاں اتحاد کی خاطر مذاکرات شروع کرتی ہیں اور اس عمل کے مکمل ہونے کے بعد ممبر پارلیمان چانسلر کے عہدے کے لیے خفیہ طور پر رائے شماری کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
چوبیس نومبر، اگر کوئی شکایت ہے تو؟
جرمنی میں اگر کسی پارٹی نے الیکشن کے نتائج کو چیلنج کرنا ہوتا ہے تو اس کے لیے دو ماہ کا وقت ہوتا ہے۔ اس مرتبہ ایسی کسی شکایت کو چوبیس نومبر سے قبل ہی درج کرانا ہو گا۔ جرمن وفاقی صدر، سیاسی پارٹیوں، الیکشن کمشنر (تصویر میں دیکھے جا سکتے ہیں) یا کوئی بھی ووٹر انتخابات کے نتائج کو چیلنج کر سکتا ہے۔