کرغزستان کا بحران اور عسکریت پسندی کا خطرہ
16 جون 2010اسلامی عسکریت پسند گروہوں کا اس نسلی تشدد سےکوئی تعلق نہیں، جس میں دس جون سے لےکر اب تک 176 افراد ہلاک اور 1500سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔گزشتہ 20 برسوں میں یہ نسلی فسادات کا سب سے بھیانک واقعہ ہے، جس نے دو لاکھ لوگوں کو کرغزستان سے ہجرت کرنے پر مجبورکردیا ہے۔
تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اس کشیدہ صورتِ حال کے باوجود اسلامی عسکریت پسند کرغزستان میں کوئی مذہبی ریاست قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتےکیونکہ عبوری حکومت کسی بھی ایسی کوشش کو ناکام بنا دے گی۔
اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز سے وابستہ Anna Zelkina کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ کرغزستان میں صومالیہ یا افغانستان جیسی صورتِ حال نہیں ہوسکتی۔ وسطی ایشیائی ریاستوں کے امور پرگہری نظر رکھنے والے Christopher Langton کا بھی یہ ہی خیال ہے کہ جنوبی کرغزستان اور ازبکستان کے اسلامی عسکریت پسند اس صورتِ حال سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ لینگٹن کے مطابق ازبکستان کی موجودہ صورتِ حال میں یہ تاثر ابھرا ہے کہ ملکی حکومت کی کرغز افواج پرگرفت مضبوط نہیں ہے لیکن اس کے باوجود بھی اسلامی عسکریت پسند افغانستان طرز کی کوئی تحریک یہاں نہیں چلا سکتے۔
تجزیہ نگاروں کی رائے کے برعکس روس اور خطے کے دوسرے ممالک کو تشویش ہے کہ کرغزستان کی صورتِ حال اس ملک کے جنوبی علاقوں کو غیر ریاستی عناصر کے لئے پر کشش بنا سکتی ہے اور مستقبل میں یہ علاقے اسلامی عسکریت پسندوں اور جرائم پیشہ عناصر کے لئے محفوظ کمیں گاہیں بن سکتی ہیں۔
امریکہ کرغزستان کے شمال میں قائم اپنے ماناس فضائی اڈے سے صورتِ حال کا بغور جائزہ لے رہا ہے۔ یہ فضائی اڈہ افغانستان میں نیٹو افواج کو مختلف اشیا کی فراہمی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔کرغزستان کی سرحد چین کے صوبے سنکیانگ سے بھی ملتی ہے، جہاں کی اسلام پسند ایغور اقلیت چینی حکومت کی مبینہ ایغور مخالف پالیسیوں کے خلاف لڑ رہی ہے۔
رپورٹ: عبدالستار
ادارت: عدنان اسحاق