کرم ایجنسی میں جھڑپیں، کم از کم ستائیس طالبان ہلاک
26 جولائی 2011شمالی مغربی پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور سے پیر کی شام کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق یہ لڑائی اتوار کو رات گئے شروع ہوئی تھی، جس میں قبائلی امن لشکر میں شامل مسلح افراد کی طالبان باغیوں کے ساتھ خونریز جھڑپیں کئی گھنٹوں تک جاری رہیں۔ اس دوران کُل کم از کم 31 افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے چار امن لشکر کے ارکان تھے اور 27 طالبان عسکریت پسند۔
کرم ایجنسی میں مقامی انتظامیہ کے ایک عہدیدار شیر بہادر نے فرانسیسی خبر ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ اس لڑائی کے شروع ہونے کے بعد پاکستانی مسلح افواج کی مدد بھی طلب کر لی گئی تھی۔ اس پر سکیورٹی دستوں نے وسطی کرم ایجنسی کے علاقے ماسوزئی میں پہنچ کر قبائلی لشکر کی مدد کرتے ہوئے عسکریت پسندوں کی پوزیشنوں کو توپ خانے سے نشانہ بنایا۔
شیر بہادر کے مطابق طالبان کے خلاف اس کارروائی میں قبائلی لشکر کو نیم فوجی دستوں کے علاوہ ملکی فوج کے توپ خانے کی جو مدد حاصل رہی، اس کے نتیجے میں طالبان کو بہت زیادہ جانی نقصان بھی پہنچا اور وہ پسپا ہونے پر بھی مجبور ہو گئے۔
علاقائی کمشنر صاحبزادہ انیس کے بقول پیر کی شام تک ان جھڑپوں میں 30 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے تھے۔ تاہم غیر جانبدار ذرائع سے ہلاکتوں کی اس تعداد کی تصدیق نہیں ہو سکی کیونکہ اس قبائلی علاقے میں صحافیوں کو جانے کی اجازت نہیں ہے۔
کرم ایجنسی پاکستان کے ان سات قبائلی علاقوں میں سے ایک ہے، جن کی سرحدیں افغانستان کے ساتھ ملتی ہیں اور جو وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے کہلاتے ہیں۔ ان علاقوں کو بالعموم طالبان عسکریت پسندوں اور دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کے حامی جنگجوؤں کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے اور امریکی حکومت بھی ان علاقوں کو دنیا کے خطرناک ترین علاقے قرار دی چکی ہے۔
اسی مہینے پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس نے کہا تھا کہ ان قبائلی علاقوں میں بہت جلد بھرپور فوجی آپریشن کر کے انہیں طالبان، القاعدہ کے عسکریت پسندوں اور ہر قسم کے دہشت گردوں سے پاک کر دیا جائے گا۔
فاٹا کہلانے والے ان قبائلی علاقوں میں سے کرم ایجنسی کا علاقہ اس لیے بھی پاکستانی حکومت کے لیے باعث تشویش بنا ہوا ہے کہ وہاں طالبان اور القاعدہ کے عسکریت پسندوں کی موجودگی کے علاوہ اکثر فرقہ وارانہ فسادات بھی دیکھنے میں آتے ہیں، جن کی وجہ وہاں کی مقامی سنی آبادی اور شیعہ اقلیت کے مابین پائی جانے والی مسلسل کشیدگی ہے۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: عاطف توقیر