1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتپاکستان

کرم میں مسافر قافلے پر حملہ، ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ

فریداللہ خان، پشاور
22 نومبر 2024

سانحہ کرم کےخلاف پشاور میں احتجاجی مظاہرہ، خیبر پختونخواہ بار کونسل نے بطور احتجاج عدالتی کاروائیوں کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ وزیر اعلیٰ نے اعلیٰ سطحی وفد کو علاقے کا دورہ کر کے رپور‌ٹ پیش کرنے کی ہدایت کر دی۔

ضلع کرم میں اتنی بڑی تعداد میں ہلاکتوں پر ملک بھر میں غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے
ضلع کرم میں اتنی بڑی تعداد میں ہلاکتوں پر ملک بھر میں غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہےتصویر: Dilawar Hussain/AP/picture alliance

صوبہ خیبر پختونخوا (کے پی) کے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر جمعرات کو کی گئی فائرنگ کے واقعے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 43  ہو گئی ہے، جبکہ متعدد ہلاک شدگان کو آج بروز جمعہ سپرد خاک کر دیا گیا ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں عام شہریوں کی ہلاکتوں پر صوبے سمیت ملک بھر میں غم وغصہ پایا جاتا ہے۔

 اس ضمن میں کے پی کے صوبائی دارالحکومت پشاور میں منعقدہ ایک مظاہرے کے شرکا نے اس واقع کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کیا ہے جبکہ خیبرپختونخوا بارکونسل نے اس واقع کے خلاف بطور احتجا ج کل ہفتے کے روز سے  عدالتوں کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔ تاہم اس دوران صوبائی اور وفاقی حکومتیں اپنی تمام تر توجہ سیاست پر مرکوز رکھے ہوئے دکھائی دیتی ہیں۔

پشاور میں پاڑہ چنار واقع کے خلاف جمعے کو بڑے پیمانے پر احتجاج کیا گیا تصویر: Rizwan Tabassum/AFP/Getty Images

طویل عرصے سے فرقہ وارانہ کشیدگی کے شکار ضلع کرم میں جمعرات کو یہ تازہ ہلاکتیں ایک ایسے موقع پر ہوئی ہیں، جب کے پی میں تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے حکومتی عہدیداران چوبیس نومبر کو اسلام آباد میں اپنی پارٹی کا احتجاج کا کامیاب بنانے جبکہ وفاقی حکومت اس احتجاج کو روکنے کے لیے صف بندی میں مصروف ہے۔

 ایسے میں ضلع کرم میں امن وامان کی صورتحال بگڑتی جاری ہے۔ علاقے کے عوام قیام امن کے لیے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ پشاورمیں کرم سے تعلق رکھنے والےعمائدین نے اپنے احتجاجی مظاہرے کے دوران  فوری طور پر حملہ آوروں کے خلاف کاروائی کرنے اور ملوث افراد کو کیفرکردار تک پہنچانےکے مطالبات کیے ہیں۔

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے ضلع کرم میں رونماہونے والے سانحے کے حوالے سے صوبائی وزیر قانون، علاقے کے قومی وصوبائی اسمبلیوں کے منتخب ارکان اور چیف سیکرٹری پر مشتمل وفد کو متاثرہ علاقے کا دورہ کرنے اورمعروضی حالات کا جائزہ لے کر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔

انہوں نے تنازعات کے حل کے لیے وہاں پہلے سے موجود قبائلی جرگے کو فعال بنانے کی بھی ہدایت کی ہے۔

وفاقی حکومت کا موقف

ضلع کرم کے سانحے کے حوالے سے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کا کہنا تھا کہ صوبے میں امن و امان کا قیام صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا، ''وفاق سے جہاں بھی تعاون درکار ہوگا، ہم مدد فراہم کریں گے۔ صوبائی حکومت دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اقدامات کرنے کے بجائے اسلام آباد پر چڑھائی کی تیاریاں کرنے میں لگی ہے۔‘‘

وفا قی وزیر داخلہ کا مزید کہنا تھا، ''صوبائی حکومت کا جو بھی مطالبہ ہو گا وہ پورا کیا جائے گا لیکن وہاں صوبے میں جنازے اٹھے ہیں اور یہ دھاوا بولنے کی تیاری کررہے ہیں اس پر عوام کو سوچنا چاہیےکہ صوبائی حکومت کیا کر رہی ہے۔‘‘

جمعرات کو فائرنگ کے واقعے میں مارے جانے والے ایک مسافر کے رشتہ دار اس کی لاش کو منتقل کرتے ہوئےتصویر: Dilawer Khan/AFP/Getty Images

عوامی نیشنل پارٹی کاواقعے کی تحقیقات کا مطالبہ

 عوامی نیشنل پارٹی نے کرم میں دہشت گردی کے واقعے کے لیے وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں کو زمہ دار ٹھہرایا ہے۔ پارٹی کے صوبائی صدر میاں افتخارحسین نے کہا کہ عوام کو دہشت گردوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا، ''بدامنی کی نئی لہر کے باوجود صوبائی حکومت احتجاجوں میں مصروف ہے، صوبے میں عملی طور پر حکومت نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے۔ اس طرح کی خونریزی کسی بھی معاشرے میں قابل قبول نہیں لیکن وفاقی اور صوبائی حکومتیں عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوئی ہیں۔‘‘

خیبرپختونخوا بارکونسل کا ہڑتال کا اعلان

 خیبر پختونخوا بار کونسل نے پورے صوبے میں عدالتی کاروائیوں کے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔ بار کونسل کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ صوبائی حکومت امن قائم کرنے میں ناکام رہی ہے اور اگر پندرہ دن کے اندر امن قائم نہیں کیا گیا  تو پاڑا چنار کی جانب احتجاجی مارچ کریں گے۔ ''یہ دہشتگردی کا واقعہ ہے عوام کی حفاظت کی ذمہ داری سکیورٹی اداروں کی ہے، جنہوں نے غفلت کا مظاہرہ  کیا ہے۔"

بار کے اعلامیے میں  مزید کہا گیا ہے، ''مسافروں کے قافلے کے لیےسکیورٹی انتہائی کم تھی، جنکی ذمہ داری تھی انہوں نے عوام کو تنہا چھوڑ دیا اور اگر حکومتی ادارے 19 کلومیٹر کا علاقہ کنٹرول نہیں کرسکتے تو پورے قبائلی اضلاع اورصوبے کو کیسے کنٹرول کرینگے۔‘‘

ضلع کرم طویل عرصے سے فرقہ وارانہ کشیدگی کا شکار ہے، اور اب تک درجنوں افراد اس تشدد کی بھیںٹ چڑھ چکے ہیںتصویر: Dilawer Khan/AFP/Getty Images

گورنرخیبرپختونخوا نے آل پارٹیزکانفرنس طلب کر لی

گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے صوبے میں امن کی بحالی کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت  قیام امن میں مکمل طور پر ناکام ہوئی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ''صوبے کے جنوبی اضلاع اور کرم میں امن وامان کی صورتحال روز بہ روز خراب ہوتی جارہی ہے لیکن صوبائی حکومت نے نہ تو کابینہ کا اجلاس بلانا گوار اکیا اور نہ صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں امن کے قیام کے لیے لائحہ عمل تیار کرنے پر کوئی بات کی ہے۔‘‘

خیال رہے کہ ضلع کرم ہمیشہ سے فرقہ وارانہ طور پر حساس رہا ہے  تاہم حالیہ مہینوں میں یہاں سنی اور شیعہ مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ جھڑپوں میں تیزی دیکھی گئی ہے اور اس تشدد کے سلسلے میں درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ سنی اکثریتی پاکستان میں کرم ان چند علاقوں میں سے ایک ہے، جہاں نسبتاً شیعہ مسلمانوں کی اکثریت ہے۔

یہ افغانستان کی سرحد کے قریب واقع ہے، جہاں شیعہ مخالف عسکریت پسند گروپ تحریک طالبان پاکستان اور اسلامک اسٹیٹ جیسے عسکریت پسند گروہ آسانی سے اپنا آپریشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کرم میں ہی جولائی میں زمینی تنازعے پر جھڑپوں میں دونوں فرقوں سے تعلق رکھنے والے تقریباً 50 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

جمعرات کو فائرنگ کا یہ واقعہ اس ہائی وے پر پیش آیا، جہاں گزشتہ ماہ مسافر گاڑیوں پر ایک حملے کے بعد، اسے بند کر دیا گیا تھا اور پھر اسے صرف ان لوگوں کے لیے دوبارہ کھولا گی، جو پولیس کی حفاظت میں سفر کر رہے ہوں۔ 

پاڑہ چنار کے لاپتہ افراد کہاں ہیں؟

04:54

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں