1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کروشیا میں پاکستانی سمیت 13 انسانی اسمگلر گرفتار

8 دسمبر 2018

کروشیا کی پولیس نے تیرہ مشتبہ انسانی اسمگلروں کو گرفتار کر لیا ہے۔ یہ اسمگلر مختلف ممالک کے مہاجرین کو غیر قانونی طور پر بلقان ممالک کے راستے یورپی یونین کے امیر مغربی ممالک تک پہنچانے کی کوششیں کر رہے تھے۔

Kroatien Flüchtlings-Drama
تصویر: DW/N. Barnets

کروشیا کی پولیس کا جمعے کی شام صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ مزید ایک ایسے اسمگلر کو تلاش کر رہی ہے، جو مختلف ممالک کے ایک سو انیس مہاجرین کو غیرقانونی طریقے سے کروشیا لایا اور پھر انہیں دوسرے یورپی ممالک تک لے کر گیا۔ بتایا گیا ہے کہ مطلوب مشتبہ انسانی اسمگلر نے ایک سو انیس مہاجرین کو جولائی سے لے کر اکتوبر کے وسط تک مغربی یورپی ممالک میں منتقل کیا۔

جاری ہونے والے بیان کے مطابق جن اسمگلروں کو گرفتار کیا گیا ہے، ان میں ایک ایسا پاکستانی بھی شامل ہے، جس نے کروشیا میں خود بھی سیاسی پناہ کی درخواست دے رکھی ہے۔ گرفتار ہونے والوں میں دو افغان اور باقی کروشیا کے ہی شہری ہیں۔ پولیس نے مزید بتایا ہے کہ گروہ کے ارکان مہاجرین کو کروشیا کے راستے مغربی یورپ تک ٹرانسفر کرنے کے بدلے فی مہاجر ایک ہزار یورو وصول کرتے تھے۔ یہ گروہ ابھی تک اس طرح کم از کم چونسٹھ ہزار یورو کما چکا ہے۔

پاکستان، افغانستان، افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے ہزاروں مہاجرین اس وقت بلقان ممالک میں پھنسے ہوئے ہیں۔تصویر: DW/N. Barnets

پاکستان، افغانستان، افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے ہزاروں مہاجرین اس وقت بلقان ممالک میں پھنسے ہوئے ہیں۔ یہ مہاجرین کسی نہ کسی طریقے سے یورپی یونین کے امیر ممالک تک پہنچانا چاہتے ہیں لیکن یورپ کے امیر ممالک کی طرف سے سرحدی کنٹرول انتہائی سخت کیے جا چکے ہيں۔

سن دو ہزار پندرہ ميں ہزاروں مہاجرین جرمنی جیسے امیر ممالک تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے تھے لیکن اب صورتحال انتہائی مختلف ہے۔ نہ صرف بلقان بلکہ ترکی اور یونان جیسے ممالک میں بھی پاکستان سمیت کئی دیگر ممالک کے ہزاروں غیرقانونی تارکین وطن پھنسے ہوئے ہیں۔

دوسری جانب پاکستان جیسے ممالک میں ابھی تک انسانی اسمگلر فعال ہیں اور خطیر رقم کے عوض نوجوانوں کو یورپی ممالک تک پہنچانے کے خواب بیچ رہے ہیں۔ یورپ پہنچنے کی خواہش لے کر پاکستان کے سینکڑوں نوجوان راستوں میں ہی ہلاک ہو چکے ہیں۔

ا ا / ع س (نیوز ایجنسیاں)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں