کروشیا کی پولیس نے تیرہ مشتبہ انسانی اسمگلروں کو گرفتار کر لیا ہے۔ یہ اسمگلر مختلف ممالک کے مہاجرین کو غیر قانونی طور پر بلقان ممالک کے راستے یورپی یونین کے امیر مغربی ممالک تک پہنچانے کی کوششیں کر رہے تھے۔
اشتہار
کروشیا کی پولیس کا جمعے کی شام صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ مزید ایک ایسے اسمگلر کو تلاش کر رہی ہے، جو مختلف ممالک کے ایک سو انیس مہاجرین کو غیرقانونی طریقے سے کروشیا لایا اور پھر انہیں دوسرے یورپی ممالک تک لے کر گیا۔ بتایا گیا ہے کہ مطلوب مشتبہ انسانی اسمگلر نے ایک سو انیس مہاجرین کو جولائی سے لے کر اکتوبر کے وسط تک مغربی یورپی ممالک میں منتقل کیا۔
جاری ہونے والے بیان کے مطابق جن اسمگلروں کو گرفتار کیا گیا ہے، ان میں ایک ایسا پاکستانی بھی شامل ہے، جس نے کروشیا میں خود بھی سیاسی پناہ کی درخواست دے رکھی ہے۔ گرفتار ہونے والوں میں دو افغان اور باقی کروشیا کے ہی شہری ہیں۔ پولیس نے مزید بتایا ہے کہ گروہ کے ارکان مہاجرین کو کروشیا کے راستے مغربی یورپ تک ٹرانسفر کرنے کے بدلے فی مہاجر ایک ہزار یورو وصول کرتے تھے۔ یہ گروہ ابھی تک اس طرح کم از کم چونسٹھ ہزار یورو کما چکا ہے۔
پاکستان، افغانستان، افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے ہزاروں مہاجرین اس وقت بلقان ممالک میں پھنسے ہوئے ہیں۔ یہ مہاجرین کسی نہ کسی طریقے سے یورپی یونین کے امیر ممالک تک پہنچانا چاہتے ہیں لیکن یورپ کے امیر ممالک کی طرف سے سرحدی کنٹرول انتہائی سخت کیے جا چکے ہيں۔
سن دو ہزار پندرہ ميں ہزاروں مہاجرین جرمنی جیسے امیر ممالک تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے تھے لیکن اب صورتحال انتہائی مختلف ہے۔ نہ صرف بلقان بلکہ ترکی اور یونان جیسے ممالک میں بھی پاکستان سمیت کئی دیگر ممالک کے ہزاروں غیرقانونی تارکین وطن پھنسے ہوئے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان جیسے ممالک میں ابھی تک انسانی اسمگلر فعال ہیں اور خطیر رقم کے عوض نوجوانوں کو یورپی ممالک تک پہنچانے کے خواب بیچ رہے ہیں۔ یورپ پہنچنے کی خواہش لے کر پاکستان کے سینکڑوں نوجوان راستوں میں ہی ہلاک ہو چکے ہیں۔
ا ا / ع س (نیوز ایجنسیاں)
دریائے ایورو، مہاجرین کے لیے موت کی گزرگاہ
ترکی اور یونان کے درمیان دریائے ایورو پار کر کے یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے ہزاروں مہاجرین اس دریا میں ڈوب کر ہلاک ہوئے ہیں۔ ڈی ڈبلیو کی ماریانہ کراکولاکی نے الیگزندرو پولی میں مہاجرین کے ایک مردہ خانے کا دورہ کیا۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
خطرناک گزرگاہ
دریائے ایورو ترکی اور یونان کے درمیان وہ خطرناک گزرگاہ ہے جسے برسوں سے ہزارہا تارکین وطن نے یورپ پہنچنے کی خواہش میں عبور کرتے ہوئے اپنی جانیں گنوا دیں۔ اس حوالے سے یہ بدنام ترین گزرگاہ بھی ہے۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
مردہ خانہ
رواں برس اب تک ترک یونان سرحد پر اس دریا سے انتیس افراد کی لاشیں ملی ہیں۔ مرنے والے مہاجرین کی بڑھتی تعداد کے باعث فلاحی تنظیم ریڈ کراس نے ایک سرد خانہ عطیے میں دیا ہے۔ اس مردہ خانے میں فی الحال پندرہ لاشیں موجود ہیں۔ دریا سے ملنے والی آخری لاش ایک پندرہ سالہ لڑکے کی تھی۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
مرنے والوں کی تلاش
دریائے ایورو کے علاقے میں گشت کرنے والی انتظامیہ کی ٹیمیں یا پھر شکاری اور مچھیرے ان لاشوں کو دریافت کرتے ہیں۔ جب بھی کوئی لاش ملتی ہے، سب سے پہلے پولیس آ کر تفتیش کرتی ہے اور تصاویر بناتی ہے۔ پھر اس لاش کو مردہ خانے لے جایا جاتا ہے جہاں طبی افسر پاؤلوس پاؤلیدیس اس سے ملنے والی باقیات اور ڈی این اے کی جانچ کرتے ہیں۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
موت کا سبب
پاؤلوس پاؤلیدیس کا کہنا ہے کہ مہاجرین بنیادی طور پر ڈوب کر ہلاک ہوتے ہیں۔ پاؤلیدیس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ستر فیصد ہلاکتوں کا سبب پانی میں رہنے کے سبب جسمانی درجہ حرارت کا معمول سے نیچے ہو جانا تھا۔ پاؤلیدیس کے مطابق حال ہی میں ٹرینوں اور بسوں کے نیچے کچلے جانے سے بھی اموات واقع ہوئی ہیں۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
ذاتی اشیا
پاؤلوس پاؤلیدیس مہاجرین کی لاشوں سے ملنے والی ذاتی نوعیت کی اشیا کو پلاسٹک کی تھیلیوں میں سنبھال کر رکھتے ہیں تاکہ لاش کی شناخت میں مدد مل سکے۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
مشکل مگر لازمی فرض منصبی
مردہ مہاجرین سے ملنے والی نجی استعمال کی چیزوں کو پیک کرنا ایک بہت تکلیف دہ کام ہے۔ پاؤلوس کہتے ہیں کہ دریا سے ملنے والی ذاتی اشیا زیادہ تر ایسی ہوتی ہیں جنہیں پانی خراب نہیں کر سکتا۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
گمشدہ انگوٹھیاں
مہاجرین کی لاشوں سے ملنے والی زیادہ تر اشیاء دھات کی ہوتی ہیں جیسے انگوٹھیاں۔ گلے کے ہار اور بریسلٹ وغیرہ۔ کپڑے اور دستاویزات مثلاﹰ پاسپورٹ وغیرہ پانی میں تلف ہو جاتے ہیں۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
موت اور مذہب
پاؤلوس کے بقول ایسی اشیا بھی دریائے ایورو سے ملتی ہیں جو مرنے والے کے مذہب کے حوالے سے آگاہی دیتی ہیں۔ ایسی چیزوں کو حفاظت سے رکھ لیا جاتا ہے اور رجوع کرنے کی صورت میں اُس کے خاندان کو لوٹا دیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
ابدی جائے آرام
اگر کسی مرنے والے مہاجر کی شناخت ہو جائے تو اس کی لاش اس کے لواحقین کو لوٹا دی جاتی ہے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو یونانی حکام ان لاشوں کی آخری رسوم اُن کے مذہب کے مطابق ادا کرانے کا انتظام کرتے ہیں۔