1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے پاکستان کتنا تیار ہے؟

3 فروری 2020

چین میں کرونا وائرس سے متاثرہ علاقوں میں رہنے والے درجنوں پاکستانی شہری پیر کو  واپس وطن پہنچ گئے۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اس مہلک وائرس سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟

Pakistan Flughafen Islamabad - Wiederaufnahme der Flüge nach China
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi

پاکستان نے پیر کے روز چین کے ساتھ فضائی رابطہ دوبارہ بحال کیا۔ پاکستان کی جانب سے یہ اقدام ایک ایسے وقت میں اٹھایا گیا ہے، جب متعدد ممالک چین سے آنے اور وہاں جانے والی تمام پروازیں منسوخ کرنے کا اعلان کر رہے ہیں۔ تقریبا 28 سے 30 ہزار پاکستانی شہری چین میں آباد ہیں۔ ان میں سے 500 سو سے زائد شہر ووہان میں ہیں، جہاں سے یہ مہلک وائرس پھیلا ہے۔

پاکستانی حکام کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس ایسا نظام موجود ہے، جس کے ذریعے کرونا وائرس کو ملک سے باہر ہی رکھا جائے گا۔ وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی ظفر مرزا نے کہا، ’’چین کے ساتھ فلائٹیں بحال کی جا چکی ہیں۔ آج میں نے ذاتی طور پر چین سے آنے والے مسافروں کو ریسیو کیا ہے۔ ہم نے تمام نظام کی خود نگرانی کی ہے اور کوئی ایک مسافر بھی ایسا نہیں تھا کہ جسے خصوصی نگرانی میں رکھنے کی ضرورت ہو۔‘‘

تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi

دوسری جانب پاکستان میں ڈاکٹرز نے حکومت کے اس فیصلے پر سوال اٹھانا شروع کر دیے ہیں۔ ماہرین کے مطابق پاکستان کے پاس اس مہلک وائرس سے نمٹنے کے لیے کوئی مناسب نظام موجود نہیں۔ اسلام آباد کے شفاء انٹرنیشنل ہسپتال کے سینئر ڈاکٹر اطہر نیاز رانا کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’پاکستان کرونا وائرس سے نمٹنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’ہمارے پاس کوئی ایک بھی ایسی مخصوص سہولت موجود نہیں ہے، جہاں مشتبہ افراد کی باقاعدہ جانچ پڑتال کی جا سکے۔‘‘

پاکستانی میڈیا کے مطابق لاہور ایئرپورٹ پر بھی چند طلبہ چین سے واپس پہنچے تھے اور مبینہ طور پر انہیں بغیر کسی جانچ پڑتال کے ہی گھروں کو روانہ کر دیا گیا تھا۔ ابھی تک پاکستان میں کرونا وائرس کا کوئی ایک کیس بھی منظر عام پر نہیں آیا لیکن ووہان شہر میں رہنے والے چار پاکستانی طلبہ اس وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں۔

ا ا / ش ج ( اے ایف پی )

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں