سن 2010 سے سن2017 کے درمیان کروڑوں بچوں کو خسرے کے خلاف ویکسین کی پہلی خوراک سے محروم رہنا پڑا تھا۔ ویکسین کی پہلی خوراک کی عدم دستیابی کی تصدیق اقوام متحدہ کے بہبودِ اطفال کے ادارے یونیسیف نے کی ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کے مطابق سن 2010 سے لے کر سن 2016 تک کے درمیانی عرصے میں ہر سال دو کروڑ سے زائد بچے خسرے کی ویکسین کی پہلی خوراک حاصل نہیں کر سکے تھے۔ خطرناک متعدی مرض خسرے کے لیے بچوں کو دی جانے والی ویکسین کی دو خوراک دینا ضروری ہوتا ہے تا کہ بچے بیماری سے محفوظ رہ سکیں۔
یونیسیف کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہینریٹا فورے کا کہنا ہے کہ خسرہ ایک انتہائی سنیگن متعدی بیماری ہے اور اس کے لیے مدافعتی ویکسین انتہائی بہت ضروری ہے۔ کروڑوں بچوں کو ویکسین کی عدم فراہمی کی وجہ بیان کرتے ہوئے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے بتایا کہ رسائی میں مشکلات اور کمزور صحت کا نظام سب سے بڑی رکاوٹیں تھیں۔ ماہرین کے مطابق اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں پندرہ فیصد بچے ویکسین سے محروم رہے۔
یونیسیف کی سربراہ کے مطابق ایک اور بڑی وجہ ویکسین کی فراہمی میں مختلف علاقوں میں اس دوا کے خلاف پائے جانے والے شکوک و شبہات ہیں۔ ان روکاٹوں کے خاتمے کے لیے مقامی حکومتوں کا کردار بہت نمایاں اور اہم ہے۔ ہینریٹا فورے نے مزید کہا کہ بچوں تک ویکسین پہچانے کے لیے مختلف ممالک میں انتظام کی بہتری اور فراہمی کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ ویکسین پروگرام کا تسلسل ہی بیماری کے خلاف مدافعت پیدا کر سکے گا۔
ویکسین کی فراہمی میں مختلف علاقوں میں اس دوا کے خلاف پائے جانے والے شکوک و شبہات بھی ہیںتصویر: DW/O. Pieper
خسرےکے خلاف ویکسین بنانے والے ماہرین کا موقف ہے کہ اس بیماری کے وائرس کے خلاف مدافعت مناسب ویکسین سے ہی ممکن ہے۔ اگر اقوام عالم چاہتی ہیں کہ دنیا میں ہر بچہ اس بیماری سے محفوظ رہے تو اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ دنیا کے سبھی بچوں کو خسرے سے بچاؤ کی ویکسین لگائی جائے۔ جرمنی میں ہر بچے کو خسرے کی ویکسین کی فراہمی لازمی ہے۔
دنیا کے مختلف حصوں میں خسرے کے مرض میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اس باعث عالمی ادارہ صحت نے اس صورت حال کو پریشان کن قرار دیتے ہوئے اسے ایک بڑا عالمی خطرہ قرار دیا ہے۔ ایسا بھی کہا گیا کہ امریکا میں خسرے کے مریضوں کی بڑھتی تعداد سے وہ دعویٰ کسی حد تک ختم ہو کر رہ گیا ہے کہ امریکا میں خسرے کی بیماری کا صفایا ہو چکا ہے۔
امریکا میں حیران کن انداز میں خسرے کے مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ امریکی حکام کے مطابق خسرے کے نئے مریضوں کی موجودہ تعداد سن 2014 میں سامنے آنے والے 667 سے بڑھ گئی ہے۔ رواں برس کے دوران 695 افراد اس مرض میں مبتلا پائے گئے ہیں۔ امریکا کی بائیس ریاستوں میں خسرے کے مرض کو موجودگی پائی گئی ہیں لیکن نیویارک اور واشنگٹن زیادہ متاثر ہیں۔
جنگ میں بیماری: یمن میں کینسر کے مریض
تقریباﹰ تین برسوں سے یمن میں سعودی عسکری اتحاد اور ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہسپتال بھی بموں سے محفوظ نہیں ہیں۔ ایسے میں شدید بیمار افراد مشکل سے ہے مدد حاصل کر پاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
مہنگا علاج
خالد اسماعیل اپنی بیٹی رضیہ کا دایاں ہاتھ چوم رہے ہیں۔ سترہ سالہ کینسر کی مریضہ کا بایاں ہاتھ کاٹ دیا گیا تھا۔ اپنی جمع پونجی بیچنے اور ادھار لینے کے باجود خالد اس سے بہتر علاج کروانے کی سکت نہیں رکھتے، ’’جنگ نے ہماری زندگیاں تباہ کر دی ہیں۔ ہم بیرون ملک نہیں جا سکتے اور میری بیٹی کا مناسب علاج بھی نہیں ہوا۔‘‘
تصویر: Reuters/K. Abdullah
کوئی حکومتی مدد نہیں
گزشتہ دو برسوں سے نیشنل اونکولوجی سینٹر کو کوئی مالی مدد فراہم نہیں کی جا رہی۔ اب انسداد کینسر کا یہ مرکز ڈبلیو ایچ او جیسی بین الاقوامی امدادی تنظیموں اور مخیر حضرات کی مدد سے چلایا جا رہا ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
بیڈ صرف بچوں کے لیے
کینسر سینٹر میں بیڈز کی تعداد انتہائی محدود ہے اور جو موجود ہیں وہ بچوں کے لیے مختص ہیں۔ اس کلینک میں ماہانہ صرف چھ سو نئے مریض داخل کیے جاتے ہیں۔ اتنے زیادہ مریضوں کے علاج کے لیے گزشتہ برس ان کے پاس صرف ایک ملین ڈالر تھے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
انتظار گاہ میں ہی تھیراپی
بالغ مریضوں کی تھیراپی کلینک کی انتظار گاہ کی بینچوں پر ہی کی جاتی ہے۔ جنگ سے پہلے اس سینٹر کو سالانہ پندرہ ملین ڈالر مہیا کیے جاتے تھے اور ملک کے دیگر ہسپتالوں میں بھی ادویات یہاں سے ہی جاتی تھیں لیکن اب صورتحال بدل چکی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
امدادی سامان کی کمی
صنعا کے اس کلینک میں کینسر کی ایک مریضہ اپنے علاج کے انتظار میں ہے لیکن یمن میں ادویات کی ہی کمی ہے۔ سعودی عسکری اتحاد نے فضائی اور بری راستوں کی نگرانی سخت کر رکھی ہے۔ اس کا مقصد حوثی باغیوں کو ملنے والے ہتھیاروں کی سپلائی کو روکنا ہے لیکن ادویات کی سپلائی بھی متاثر ہو رہی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
ڈاکٹروں کی کمی
ستر سالہ علی ہضام منہ کے کینسر کے مریض ہیں۔ ایک امدادی تنظیم ان جیسے مریضوں کو رہائش فراہم کرتی ہے۔ یہاں صرف بستروں کی ہی کمی نہیں بلکہ ڈاکٹر بھی بہت کم ہیں۔ یمن بھر میں طبی عملے کی کمی ہے اور اوپر سے غریب عوام علاج کروانے کی سکت بھی نہیں رکھتے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
انسانی المیہ
14 سالہ آمنہ محسن ایک امدادی تنظیم کے اس گھر میں کھڑی ہے، جہاں کینسر کے مریضوں کو رہائش مہیا کی جاتی ہے۔ یمن میں لاکھوں افراد کو بھوک اور ملیریا اور ہیضے جیسی بیماریوں کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق یہ جنگ 50 ہزار افراد کو نگل چکی ہے۔