1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کرکوک ميں پوليس ہيڈکوارٹر پر حملہ، کم از کم تيس افراد ہلاک

3 فروری 2013

آج اتوار تین فروری کو عراق کے شہر کرکوک ميں مسلح حملہ آوروں نے پوليس ہيڈکوارٹر پر حملہ کيا، جس کے نتيجے ميں کم از کم تيس افراد ہلاک اور قريب ستر زخمی ہو گئے ہيں۔ اس واقعے کی تصديق پوليس ذرائع کی جانب سے کی جا چکی ہے۔

تصویر: Reuters

خبر رساں ادارے اے ايف پی کی کرکوک سے موصولہ رپورٹ کے مطابق ايک خودکش حملہ آور نے ايک کار بم دھماکا کيا، جس کے بعد چند مسلح حملہ آوروں نے پوليس ہيڈکوارٹر ميں گھسنے کی کوشش کی۔ شہر ميں ہنگامی حالات سے نمٹنے والے محکمے کے سربراہ بريگيڈيئر جنرل ناتا محمد صابر کا کہنا تھا کہ جنگجوؤں نے مبينہ طور پر پوليس ہيڈکوارٹر کے کمپاؤنڈ پر قبضہ کرنے کی کوشش کی جسے ناکام بنا ديا گيا۔ ان کا مزيد کہنا تھا کہ کار بم دھماکے کے بعد پھيلنے والی افراتفری ميں ہتھياروں، خودکش جيکٹوں اور گرينيڈوں سے ليس ان جنگوؤں نے ہيڈکوارٹر کے کمپاؤنڈ ميں داخل ہونے کی کوشش کی۔

عراق کے شمال ميں واقع کرکوک شہر ميں ہونے والا يہ حملہ اتوار کے روز صبح کے وقت کيا گيا۔ حملے کی نتيجے ميں اب تک کم از کم تيس افراد کی ہلاکت کی تصديق کی جا چکی ہے جبکہ ستر کے قريب زخمی بھی بتائے جا رہے ہيں۔ اب تک يہ واضح نہيں ہو سکا ہے کہ ہلاک شدگان ميں کتنے جنگجو اور کتنے سکيورٹی اہلکار شامل ہیں۔ بريگيڈيئر جنرل صابر کے مطابق جانی نقصان کے علاوہ دھماکے کی شدت سے جائے وقوعہ کے ارد گرد واقع عمارتوں کو بھی کافی نقصان پہنچا ہے۔

اب تک ملنے والی رپورٹوں کے مطابق تاحال کسی گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہيں کی ہے۔ البتہ نيوز ايجنسی اے ايف پی کے مطابق سنی جنگجو اور القاعدہ سے منسلک گروپ اکثر اوقات عراق ميں سکيورٹی فورسز کو ہدف بناتے ہيں۔

سنی مسلمانوں کا وزير اعظم کے خلاف مظاہرہتصویر: Reuters

شہر کرکوک دارالحکومت بغداد سے قريب 240 کلوميٹر شمال کی جانب واقع ہے۔ يہ وہ مقام ہے جس پر عراق کی حکومت اور خودمختار شمالی کرد علاقے کے رہنے والے دونوں ہی اپنا دعویٰ کرتے ہيں۔ جنگجو اور ديگر انتہا پسند عناصر اکثر اسی تنازعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کرکوک اور اس کے نواحی علاقوں کو نشانہ بناتے ہيں۔ کئی مبصرين اس تنازعے کو عراق کے طويل المدتی استحکام کے ليے سب سے بڑا خطرہ بھی قرار ديتے ہيں۔

واضح رہے کہ ان دنوں عراق ميں سياسی بحران کی سی صورتحال ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کی بغداد سے موصولہ رپورٹ کے مطابق وزير اعظم نوری المالکی کو اپنی حکومت ميں شامل اتحاديوں کے علاوہ سنی مسلمانوں کی طرف سے مظاہروں اور کُرد علاقے ميں تيل سے متعلق ايک تنازعے کا سامنا ہے۔ کئی رپورٹوں کے مطابق وزير اعظم سے مستعفی ہونے کے مطالبات بھی کيے جا رہے ہيں۔

as/aba (AFP, Reuters)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں