کرکوک میں عراقی اور کرد افواج کے درمیان جنگ کا خطرہ
عابد حسین
15 اکتوبر 2017
داعش کے جہادیوں کے خلاف متحد ہونے والی عراقی اور کرد فورسز اب بھاری ہتھیاروں کے ساتھ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو گئی ہیں۔ اس دوران امریکا فریقین کے درمیان تناؤ کم کرنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔
اشتہار
عراق کے صوبے کرکوک میں عراقی اور کرد افواج ایک دوسرے کے آمنے سامنے جنگ کے لیے تیار کھڑی ہیں۔ اس علاقے میں کرد فوجیوں کو اہم مقامات پر قائم فوجی پوزیشنوں سے دستبردار ہونے کی مہلت اتوار پندرہ اکتوبر کی صبح دو بجے ختم ہو گئی ہے۔ ابھی تک کرد پیش مرگا دستے اُن پوزیشنوں سے پیچھے نہیں ہٹے ہیں، جن سے پیچھے ہٹنے کا الٹی میٹم عراقی فوج نے دے رکھا ہے۔
اگلے محاذوں پر موجود عراقی فوج نے کہا ہے کہ وہ جنرل اسٹاف کے حکم کی منتظر ہے اور اُس کے بعد ہی کوئی کارروائی کی جائے گی۔ کرکوک میں سے گزرتے دریائے خاسہ کے کنارے پرعراقی ٹینک اور فوج کسی بھی ممکنہ عسکری کارروائی کے لیے تیار ہیں۔ اس دریا کے دوسرے جانب کرد پیش مرگا دستے اپنے ہتھیاروں کے ساتھ مورچہ زن ہیں۔
انتہائی کشیدہ صورت حال کے تناظر میں عراقی صدر فواد معصوم نے نیم خود مختار علاقے کردستان کے شہر سلیمانیہ پہنچ کر کرد سیاسی قیادت سے بات چیت بھی کی ہے۔ فواد معصوم خود بھی کرد ہیں۔ اسی دوران کرکوک کے گورنر کو بغداد حکومت نے فارغ کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن انہوں نے اپنا منصب چھوڑنے سے انکار کر دیا ہے۔ انہوں نے دریائے خاسہ کے قریبی علاقوں بے حسن اور حوانا میں تعینات پیش مرگا فوجی دستوں سے ملاقاتیں بھی کی ہیں۔
کرد پیش مرگا نے ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جہادیوں کے خلاف لڑتے ہوئے ان پوزیشنوں پر قبضہ کیا تھا۔ اُس وقت اُن کو امریکی حمایت بھی حاصل تھی۔ یہ امر اہم ہے کہ کرد کرکوک کو اپنا علاقہ تصور کرتے ہیں جب کہ عراقی حکومت اس کو عراقی سرزمین کا ایک حصہ قرار دیتی ہے۔ یہ تیل کی دولت سے مالا مال ہے اور یہی معدنی دولت متنازعہ بنی ہوئی ہے۔
دوسری جانب امریکا فریقین میں صلح اور تنازعے کو ختم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے کہا ہے کہ عراقی حکومت اور نیم خود مختار علاقے کردستان کے درمیان پیدا تناؤ کی صورت حال کو بہتر کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ تناؤ کی یہ کیفیت پچیس ستمبر کو کردستان میں منعقد کرائے گئے آزادی ریفرنڈم کے بعد سے ہے۔
داعش کے خلاف برسر پیکار ایران کی کُرد حسینائیں
ایران کی تقریباﹰ دو سو کرد خواتین عراق کے شمال میں داعش کے خلاف لڑ رہی ہیں۔ یہ کردوں کی فورس پیش مرگہ میں شامل ہیں اور انہیں امریکی افواج کی حمایت بھی حاصل ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق جب بھی داعش کے عسکریت پسندوں کی طرف سے ایران کی ان کرد خواتین پر مارٹر گولے برسائے جاتے ہیں تو سب سے پہلے یہ ان کا جواب لاؤڈ اسپیکروں پر گیت گا کر دیتی ہیں۔ اس کے بعد مشین گنوں کا رخ داعش کے ٹھکانوں کی طرف کر دیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
اکیس سالہ مانی نصراللہ کا کہنا ہے کہ وہ گیت اس وجہ سے گاتی ہیں تاکہ داعش کے عسکریت پسندوں کو مزید غصہ آئے، ’’اس کے علاوہ ہم ان کو بتانا چاہتی ہیں کہ ہمیں ان کا خوف اور ڈر نہیں ہے۔‘‘ تقریباﹰ دو سو ایرانی کرد خواتین ایران چھوڑ کر عراق میں جنگ کر رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
یہ کرد خواتین چھ سو جنگ جووں پر مشتمل ایک یونٹ کا حصہ ہیں۔ اس یونٹ کا کردستان فریڈم پارٹی سے اتحاد ہے۔ کرد اسے ’پی اے کے‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
چھ سو جنگ جووں پر مشتمل یہ یونٹ اب عراقی اور امریکی فورسز کے زیر کنٹرول اس یونٹ کے ساتھ ہے، جو موصل میں داعش کے خلاف برسر پیکار ہے۔ کرد جنگ جووں کا اپنے ایک ’آزاد کردستان‘ کے قیام کا بھی منصوبہ ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
مستقبل میں کرد جنگ جو شام، عراق، ترکی اور ایران کے چند حصوں پر مشتمل اپنا وطن بنانا چاہتے ہیں لیکن ان تمام ممالک کی طرف سے اس منصوبے کی شدید مخالفت کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی کرد باغیوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ایک کرد خاتون جنگ جو کا کہنا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے لڑ رہی ہیں۔ وہ سرزمین چاہیے ایران کے قبضے میں ہو یا عراق کے وہ اپنی سر زمین کے لیے ایسے ہی کریں گی۔ ان کے سامنے چاہے داعش ہو یا کوئی دوسری طاقت اوہ اپنی ’مقبوضہ سرزمین‘ کی آزادی کے لیے لڑیں گی۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
اس وقت یہ خواتین مرد کردوں کے ہم راہ عراق کے شمال میں واقع فضلیہ نامی ایک دیہات میں لڑ رہی ہیں۔ ایک بتیس سالہ جنگ جو ایوین اویسی کا کہنا تھا، ’’یہ حقیقت ہے کہ داعش خطرناک ہے لیکن ہمیں اس کی پروا نہیں ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ایک جنگ جو کا کہنا تھا کہ اس نے پیش مرگہ میں شمولیت کا فیصلہ اس وقت کیا تھا، جب ہر طرف یہ خبریں آ رہی تھیں کہ داعش کے فائٹرز خواتین کے ساتھ انتہائی برا سلوک کر رہے ہیں، ’’میں نے فیصلہ کیا کہ ان کو میں بھی جواب دوں گی۔‘‘
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ان خواتین کی شمالی عراق میں موجودگی متنازعہ بن چکی ہے۔ ایران نے کردستان کی علاقائی حکومت پر ان خواتین کو بے دخل کرنے کے لیے دباؤ بڑھا دیا ہے۔ سن دو ہزار سولہ میں کرد جنگ جووں کی ایرانی دستوں سے کم از کم چھ مسلح جھڑپیں ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ان کے مرد کمانڈر حاجر باہمانی کا کے مطابق ان خواتین کے ساتھ مردوں کے برابر سلوک کیا جاتا ہے اور انہیں ان خواتین پر فخر ہے۔ ان خواتین کو چھ ہفتوں پر مشتمل سنائپر ٹریننگ بھی فراہم کی گئی ہے۔