کرکٹ بورڈ کے چیئرمین اعجاز بٹ کے تین ہنگامہ خیز سال
3 اکتوبر 2011اسی ہفتے آٹھ اکتوبر کو اس عہدے پر اُنہیں تین سال مکمل ہو رہے ہیں۔ اعجاز بٹ کا تین سالہ دور کیسا رہا، جب یہ سوال ریڈیو ڈوئچے ویلے نے سابق کپتان اور انیس سو بانوے کے عالمی کپ کے فاتح کپتان معین خان سے پوچھا تو ان کا جواب تھا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں اس سے برا دور نہیں دیکھا اور یہ کہ انتظامی اور کرکٹ دونوں لحاظ سے یہ پاکستان کرکٹ کے سب سے خراب تین سال تھے۔
اعجاز بٹ نے آٹھ اکتوبر دو ہزار آٹھ کو چیئرمین پی سی بی کا عہدہ سنبھالنے کے اگلے روز ہی پاکستان ٹیم کے آسٹریلوی کوچ جیف لاسن کو برطرف کر دیا تھا۔ اس کے بعد ان کے ایسے ہی جارحانہ فیصلوں نے پرایوں کے ساتھ اپنوں کو بھی ان کا مخالف بنا دیا۔ سری لنکن کرکٹ ٹیم پر تین مارچ دو ہزار نو کو لاہور میں ہونے والا خون ریز حملہ، جس میں آٹھ افراد ہلاک ہوئے تھے، ان کے دور کا بدترین واقعہ تھا کیونکہ اس کے بعد نہ صرف کوئی غیر ملکی ٹیم پاکستان نہ آئی بلکہ ملک کو عالمی کپ دو ہزار گیارہ کے میچوں کی میزبانی سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔
اعجاز بٹ کے دور میں پاکستان کرکٹ بورڈ کی معاشی مشکلات میں بھی اس وقت اضافہ ہو گیا جب ممبئی حملوں کے بعد بھارتی کرکٹ بورڈ نے نہ صرف اپنی ٹیم پاکستان کے دورے پر بھیجنے سے انکار کر دیا بلکہ آئی پی ایل اور چمپئنز لیگ میں بھی پاکستانی کرکٹرز کی شرکت پر پابندی لگا دی۔ بعد ازاں آئی سی سی کے اجلاسوں میں اعجاز بٹ بنگلہ دیش اورسری لنکن بورڈز کے سربراہان کو بھی ناراض کیے بغیر نہ رہ سکے۔ اعجاز بٹ کے تین سالہ دور سے متعلق کرکٹ کی گز شتہ چالیس برس سے کوریج کرنے والے پاکستانی صحافی قمر احمد کہتے ہیں کہ اعجاز متنازع چیئرمین تھے اور انہوں نے پاکستان کرکٹ کی ساکھ کو بے پناہ نقصان پہنچایا۔
اگست دو ہزار دس میں انگلینڈ کے دورے پر جب تین پاکستانی کھلاڑیوں سلمان بٹ، محمد عامر اور محمد آصف کے خلاف اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل آیا تو اعجاز بٹ نے انگلینڈ کے کرکٹرز کے خلاف فکسنگ کے جوابی الزامات عائد کیے اور انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے چیف ایگزیکٹو ہارون لورگٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کیا مگر انگلینڈ کرکٹ بورڈ کا شدید ردعمل سامنے آنے پر انہیں نہ صرف معذرت کرنا پڑی بلکہ بعد ازاں آئی سی سی کی جانب سے پاکستان کرکٹ بورڈ کے خلاف پابندیوں کی دھمکی نے انہیں اور پی سی بی کو مکمل طور پر بیک فٹ پر کر دیا۔
اعجاز بٹ کے ہی دور میں پاکستان ٹیم کے گز شتہ برس کے اوائل میں آسٹریلیا میں بری طرح سے ہارنے کے بعد کپتان محمد یوسف سمیت چھ کھلاڑیوں کے خلاف پابندیاں اور جرمانے عائد کیے گئے اور پھر واپس بھی لے لیے گئے۔ اس غیر مستقل مزاجی کے بارے میں معین خان کا کہنا تھا کہ لوگ اب پاکستان میں کرکٹ دیکھنا ہی چھوڑ رہے ہیں۔
اعجاز بٹ کے دور میں انگلینڈ میں ٹوئنٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان کی فتح، عالمی کپ ۲۰١١ء کے سیمی فائنل تک ٹیم کی رسائی اور آسٹریلیا کو پندرہ برس بعد ٹیسٹ میچ ہرانا پاکستان کے بڑے کارنامے ہیں۔ اسی عرصے میں پاکستان انڈر نائنٹین ٹیم نے بھی نیوزی لینڈ میں ورلڈ کپ فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا تاہم اعجاز بٹ کے دور میں چھ کپتان اور اتنے ہی مینیجرز اور کوچ تبدیل کیے جانے سے ٹیم کو یکجا ہونے کا موقع نہ مل سکا۔
پچاس کے عشرے میں ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے اعجاز بٹ کی کارگزاری دیکھنے کے بعد اب ملک میں اکثریت ماضی کے برعکس کسی سابق کرکٹر کو یہ عہدہ سونپنے کی مخالف ہے اور قمر احمد بھی انہی میں شامل ہیں۔ تاہم معین خان اس امر سے اتفاق نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ پاکستان کرکٹ کے حالات ابھی پوائنٹ آف نو ریٹرن پر نہیں پہنچے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ میں چیئرمین کا تقرر صدر پاکستان کرتا ہے جو آئینی طور پر پی سی بی کا سر پرست اعلیٰ بھی ہوتا ہے۔ اب اعجاز بٹ کو اگلی مدت کے لیے اپنے عہدے میں توسیع ملنے کا بھی اتنا ہی امکان ہے، جتنا کہ نہ ملنے کا۔ تاہم معین خان بورڈ کے سربراہ کی اس طرح سے نامزدگی کے مخالف ہیں اور کہتے ہیں کہ منتخب چیئرمین ہونا چاہیے۔
رپورٹ: طارق سعید، لاہور
ادارت: امجد علی