کرہ ارض سے متعلق پانچ باتیں جو آپ کو پتہ ہونا چاہییں
30 اکتوبر 2018
تحفظ فطرت کے عالمی فنڈ نے کرہ ارض پر زندگی اور اس کو درپیش خطرات کی صورت حال سے متعلق ہر دو سال بعد تیار کی جانے والی اپنی تازہ ترین رپورٹ جاری کر دی ہے۔ اس رپورٹ میں حیوانی حیات سے متعلق کئی ہوش ربا حقائق شامل ہیں۔
اشتہار
ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر (WWF) کی یہ اپنی نوعیت کی 12 ویں رپورٹ ہے۔ Living Planet Report 2018 نامی اس دستاویز میں تحفظ ماحول کی اس عالمی تنظیم کی طرف سے یہ جائزہ لیا گیا ہے کہ زمین پر حیاتیاتی تنوع کی صورت حال کیا ہے۔ اس رپورٹ میں شامل کیے گئے حقائق کا تعین اور تصدیق ایسے ڈیٹا کی مدد سے کیے گئے ہیں، جسے لِوِنگ پلینٹ انڈکس کہا جاتا ہے۔ اس انڈس کے تحت یہ دیکھا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں چار ہزار سے زائد بڑی حیوانی اقسام کی قریب سترہ ہزار مختلف آبادیوں میں تبدیلی کے تازہ ترین رجحانات کیا ہیں۔
اس رپورٹ میں یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ مختلف انواع کے جانوروں کی آبادی میں کمی بیشی کا عمل کس طرف جا رہا ہے اور یہ کہ زمین پر انسانی آبادی ان حیوانی انواع پر اپنے براہ راست یا بالواسطہ انحصار کے باعث ان تبدیلیوں سے کس طرح اور کتنی شدت سے متاثر ہو سکتی ہے۔
رپورٹ میں شامل کردہ پانچ اہم ترین نکات:
ایک: حیوانی انواع کی تعداد میں کمی، انسانوں کی وجہ سے
1970ء سے لے کر اب تک زمین پر فقاریہ (ریڑھ کی ہڈی والے) جانوروں کی تعداد میں 60 فیصد کمی ہو چکی ہے۔ تازہ پانی میں رہنے والے آبی جانوروں، خاص طور پر میٹھے پانی میں رہنے والی مچھلیوں کی مجموعی آبادی میں بے تحاشا کمی ہوئی ہے۔
اس طرح کی آبی حیات کی کُل آبادی میں قریب پانچ عشرے پہلے کے مقابلے میں آج مختلف ڈیموں، ضرورت سے زیادہ ماہی گیری، بیماریوں اور کئی دیگر عوامل کے سبب 83 فیصد تک کی کمی ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ جنوبی امریکی اور وسطی امریکی خطوں میں جنگلات کے تیز رفتار خاتمے کے بھی حیوانی حیات کے لیے تباہ کن نتائج برآمد ہوئے ہیں۔
دو: قدرتی حیاتیاتی ماحول سکڑتے ہوئے
زمین پر انسانی آبادی جس طرح زمینی وسائل کو استعمال کر رہی ہے، اس کی وجہ سے کرہ ارض پر شدید دباؤ ہے، خاص طور پر زمین کی سطح بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ انسانی آبادی اپنے زندہ رہنے کے لیے دیہات، قصبوں اور شہروں کے لیے جتنا رقبہ استعمال کرتی ہے، وہ تو بہت کم ہے لیکن جانوروں کی چراگاہوں، زرعی مقاصد اور ایندھن کے حصول کے لیے زمین کا جتنا رقبہ استعمال کیا جاتا ہے، وہ مقابلتاﹰ بہت زیادہ ہے۔
پریشانی کی بات یہ بھی ہے کہ اقوام متحدہ کے حیاتیاتی تنوع سے متعلق بین الحکومتی پلیٹ فارم کے مطابق اس وقت زمین پر خشک رقبے کا محض ایک چوتھائی حصہ ایسا ہے، جو اپنی اصلی حالت میں موجود ہے۔ لیکن مزید پریشانی کی بات یہ ہے کہ 2050ء تک زمین کا اپنی اصلی حالت میں موجود یہی خشک رقبہ مزید کم ہو کر صرف 10 فیصد رہ جائے گا۔
تین: مٹی میں کچھ ہے
بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ کرہ ارض پر حیاتیاتی اقسام کا ایک چوتھائی حصہ زمین پر ہمارے پاؤں کے نیچے مٹی میں رہتا ہے۔ یہ زیر زمین جاندار ہوا سے کاربن نکال دیتے ہیں اور انہی کی وجہ سے پودے اپنی جڑوں کے ذریعے زمین سے معدنیات کو اپنے اندر جذب کر لینے کے قابل ہوتے ہیں۔
انتہائی اہم نوعیت کے ان زیر زمین جانداروں کو آلودگی، آتشزدگی، حد سے زیادہ کیمیائی کھادوں کے استعمال، صحراؤں کے پھیلتے جانے، جنگلات کے خاتمے اور زمین کے ناقابل کاشت ہو جانے سے شدید نوعیت کے خطرات لاحق ہیں۔
فطرت کے عجیب رنگ
سیلاب، زلزلہ، طوفان: 2015 ء کو متعدد ناگہانی آفات کا سامنا رہا۔ جن کے طویل مدتی نتائج آبادی والےعلاقوں میں بڑی تباہی کی شکل میں سامنے آئے۔
تصویر: Imago/Xinhua
خطرناک رومان
43 سال سے پکنے والا چلی کا لاوا ’’کالبوکو‘‘ گزشتہ برس اپریل میں پھٹ ہی گیا۔ اس آتش فشاں کے پھٹنے سے پیدا ہونے والی راکھ 15 کیلو میٹر اونچے بادلوں تک پھیل گئی۔ 20 کلومیٹر ارد گرد کے علاقوں کو خالی کروالیا گیا۔ چلی کے سب سے بڑے شہر کا ہوائی اڈہ بند کر دیا گیا، چند ہی روز کے وقفے سے ’’کالبوکو‘‘ دوسری اور تیسری بار پھٹا۔
تصویر: Reuters/R. Arenas
ہنگامی صورت حال میں ریسکیو
فوجی نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں زلزلے سے منہدم ہو جانے والے ایک گھر کے ملبے تلے دبے ایک چھوٹے بچے کو نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ زلزلے کے جھٹکے بھارتی دارالحکومت نئی دہلی تک محسوس کیے گئے۔ نیپالی حکومت کے مطابق اس زلزلے میں آٹھ لاکھ آٹھ ہزار انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/J. Gratzer
سر سے پیر تک راکھ ہی راکھ
انڈونیشی جزیرے سماٹرا کے شمال میں راقع ماؤنٹ سینابونگ کی زنگ کی مانند بھورے رنگ کی راکھ آنکھ، ناک اور جلد کے پوروں میں گھُس جاتی ہے۔ جولائی کے مہینے میں سماٹرا کے جزیرے سے بہنے والے 2460 میٹر اونچے لاوے نے ارد گرد کے علاقوں میں بے تحاشہ راکھ اگُلی تھی۔ یہ راکھ گھروں اور سڑکوں تک پھلی تھی اور اس سے بچنے کے لیے اکثر لوگ پلاسٹک سے اپنے جسم کو سر سے پیر تک ڈھانک کر باہر نکلتے تھے.
تصویر: Reuters/Antara Foto/R. Muharrman
آگ کے خلاف ڈٹے انسان
ستمبر میں امریکی ریاست کیلی فورنیا میں متعدد جنگلات میں آگ لگی۔ کیلی فورنیا ایک صدی سے خُشک سالی کا شکار ہے اور کسی بھی ناگہانی آفت کی بس ایک چنگاری کافی ہوتی ہے اسے اپنی آگ کی لپیٹ میں لینے کی۔ ہزاروں گھر اس کی زد میں آ چُکے ہیں۔ فائر بریگیڈ کے دس ہزار سے زائد کارکن اس صورتحال سے نمپٹے کے لیے تعینات رہ چُکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Edelson
طوفان سے پہلے کوئی خاموش نہیں
ستمبر کے اواخر میں چینی صوبے فیوجیان میں 119 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے آنے والا طوفان Dujuan روک تھام کی تمام تر کوششوں کے باوجود چین کے کم ازکم 400 گھروں کو بہا لے گیا اور اکتیس ہزار ہیکٹر زمینی رقبہ زیر آب آ گیا۔ اس سے پہلے وہ تائیوان میں جانی اور مالی نقصانات کا سبب بن چُکا تھا۔
تصویر: Reuters/China Daily
بھارتی ریاست زیر آب
بھارت کی جنوبی ریاست تامل ناڈو کے شہر چنئی میں 100 سال میں ہونے والی شدید ترین بارش میں تقریبا 280 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ ہزاروں افراد عارضی کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ آبادی کے اعتبار سے بھارت کا چوتھا بڑا شہر اور موٹر کار سازی اور آئی ٹی آؤٹ سورسنگ کا مرکز ہے۔ اس کے بعض علاقوں میں دس دس فٹ سے بھی زیادہ پانی کھڑا ہے۔
تصویر: Imago/Xinhua
6 تصاویر1 | 6
چار: انتہائی قیمتی فطری نظام
فطرت، جو زمین کا اصلی اور قدرتی نظام ہے، انسانوں کو ہر سال جو قیمتی وسائل اور خدمات مہیا کرتی ہے، ان کی مجموعی مالیت 125 کھرب ڈالر یا 110 کھرب یورو بنتی ہے۔
ان میں طبی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والے پودوں کی فراہمی اور نباتات کی پولینیشن میں حیوانات اور اڑنے والے حشرات کے کردار سے لے کر مونگے کی ان چٹانوں کی افادیت تک بہت کچھ شامل ہے، جو کئی طوفانوں کو روکنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔
شہد کی بیس ہزار سے زائد اقسام کی مکھیاں، تتلیاں اور اڑنے والے چھوٹے چھوٹے جاندار، جو پودوں کی افزائش نسل میں ’پولینیٹرز‘ کے طور پر فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں، صرف ان کی خدمات کی مالیت کا تخمینہ ہی 235 ارب ڈالر سے لے کر 577 ارب ڈالر سالانہ تک لگایا جاتا ہے۔
انسانوں کو زمین سے ہر سال جتنی بھی فصلیں حاصل ہوتی ہیں، ان میں سے ایک تہائی سے زائد زرعی پیداوار کے ذمے دار یہی مکھیاں، تتلیاں اور دیگر اڑنے والے چھوٹے چھوٹے جاندار ہوتے ہیں، جن کو عام انسان اکثر خاطر میں ہی نہیں لاتے۔
پانچ: چوبیس ماہ کی مہلت
ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر نے، جس کی نظریں ابھی سے 2020ء پر لگی ہیں، زمین پر انسانی آبادی کو تنبیہی طور پر اس مقصد کے لیے صرف دو سال یا 24 ماہ کی مہلت دی ہے کہ وہ اپنا طرز زندگی بہتر بنائے اور اس طرز عمل پر دوبارہ غور کرے، جس کے تحت زمین کے وسائل کو بےدریغ استعمال اور آلودہ کیا جا رہا ہے۔
سیم بیکر / م م / ع ا
جنگلی حیات سے متعلق تصاویر کے لیے ایوارڈز
رواں برس جنگلی حیات کے موضوع پر لی جانے والی بہترین تصاویر کو انعامات سے نوازا گیا۔ یہ تصاویر فطرت کی خوبصورتی اور نزاکت کو اجاگر کرنے کے علاوہ فوٹوگرافی کے اعلیٰ اخلاقی معیارات کو بھی نمایاں کرتی ہیں۔
تصویر: /Richard PetersWildlife Photographer of the Year 2015
تین ساتھی
سن دو ہزار پندرہ کے لیے پرندوں کی کیٹیگری میں اسرائیل سے تعلق رکھنے والے فوٹوگرافر امر بن دوو کی سرخ پنجوں والے تین شکروں کی تصویر کو انعام کا حق دار قرار دیا گیا۔ اس تصویر میں یہ شکرے یورپ سے افریقہ کی جانب سفر کرتے ہوئے راستے میں کھیلتے دکھائی دے رہے ہیں۔
تصویر: Amir Ben-Dov/Wildlife Photographer of the Year 2015
دو لومڑیوں کی کہانی
ماحولیاتی تبدیلی سرخ لومڑیوں کو آرکٹک کے مزید شمال کی طرف دکھیل رہی ہے۔ اس باعث یہاں سفید اور سرخ لومڑیوں کے درمیان خوراک کی جنگ میں شدت آ گئی ہے۔ کینیڈا سے تعلق رکھنے والے ڈون گٹوسکی نے شمالی کینیڈا میں اسی کشمکش کی تصویرکشی کی ہے۔ اس تصویر کو لینے کے لیے ان کو منفی تیس ڈگری سینٹی گریڈ میں تین گھنٹے تک بیٹھنا پڑا۔
تصویر: Don Gutoski/Wildlife Photographer of the Year 2015
ساکت زندگی
ہالینڈ کے فوٹوگرافر ایڈون گیزبرس کو یہ تصویر لینے کے لیے ٹھنڈے بہتے پانی میں بیٹھنا پڑا۔ اس فوٹوگراف کے لیے انہیں ’ایمفیبیئنز اینڈ ریپٹائلز‘ ایوارڈ سے نوازا گیا۔
تصویر: Edwin Giesbers/Wildlife Photographer of the Year 2015
سرخ پرندوں کی اڑان
فرانسیسی فوٹوگرافر جوناتھن جاگو نے یہ تصویر برازیل میں لی۔ ایک ساحل پر بیٹھ کر انہوں نے اڑان بھرتے ان سرخ پرندوں کی یہ خوبصورت تصویر اتاری۔
تصویر: Jonathan Jagot/Wildlife Photographer of the Year 2015
مچھلیوں کو نگلتی وہیل
آسٹریلیا کے اے ڈبلیو مائیکل نے زیر سمندر برائڈ وہیل مچھلی کی یہ تصویر ایک ایسے وقت اتاری جب وہ منہ کھولے چھوٹی سارڈین مچھلیوں کو نگلنے کے قریب تھی۔ یہ وہیل اس وقت ان چھوٹی مچھلیوں کو نگلتی ہے جب وہ کسی دوسرے سمندری جانور کے خوف سے اکھٹے ہو کر تیرتی ہیں۔
تصویر: Michael AW/Wildlife Photographer of the Year 2015
سمندری پودوں کا فنی نمونہ
ہسپانوی فوٹوگرافر پیئر سولیر نے اسپین کے باہیا دے کادز نیچرل پارک میں یہ تصویر بہار کے موسم میں لی تھی۔ اس موسم میں یہ پودے نمو پاتے ہیں اور سبز آبی نباتات کا وجود مجموعی طور پر دل آویز تصویر کشی کا رنگ اختیار کر لیتا ہے۔ اس فوٹوگراف کو ’فرام دی ایئر‘ کیٹیگری میں انعام دیا گیا۔
تصویر: Pere Soler/Wildlife Photographer of the Year 2015
خستہ حال شیر
جرمنی سے تعلق رکھنے والی بریٹا یاشینسکی کے مطابق اس تصویر میں دکھائے جانے والے چھوٹے اور بڑے شیروں کو نشہ آور ادویات دی جاتی ہیں، ان کے دانت اور پنجے اکھاڑ دیے جاتے ہیں، تاکہ ان کو چین میں سرکس کے دوران قابو میں رکھا جا سکے۔ اس تصویر کے درمیان میں موجود جانور نر ببر شیر اور مادہ ٹائیگر کا اختلاط ہے۔
تصویر: Britta Jaschinski/Wildlife Photographer of the Year 2015
ماداؤں کے لیے لڑتے نر
’ینگ وائلڈ لائف فوٹوگرافر‘ کا ایوارڈ جمہوریہ چیک کے اوندرے پیلانیک کو دیا گیا۔ اس تصویر کو انہوں نے ناروے میں موسم گرما میں اپنے کیمرے میں بند کیا۔
تصویر: Ondrej Pelánek/Wildlife Photographer of the Year 2015
سایہ دار لومڑی
برطانیہ کے رچرڈ پیٹرز نے ایک شہری لومڑی کی یہ تصویر اس وقت لی جب ان کے ایک پڑوسی نے رات کے وقت گھر کی بتی جلا دی تھی۔ یہ تصویر جنگلی جانوروں کے ساتھ ہمارے تعلق کی زبردست عکاسی کرتی ہے، ایسا تعلق جو کہ عموماً عارضی ہوتا ہے۔
تصویر: /Richard PetersWildlife Photographer of the Year 2015