کریمیا میں روسی فوجی مداخلت، میرکل کی جانب سے تنقید
13 مارچ 2014جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اپنے تازہ بیان میں روس کو متنبہ کیا ہے کہ یوکرائن کے علاقے کریمیا میں فوجی مداخلت روس کو بین الاقوامی سطح پر تنہائی کا شکار کر سکتی ہے، جس کے اثرات طویل المدتی ہوں گے۔ میرکل کے اس بیان کے بعد یوکرائن کی پارلیمان کی جانب سے 60 ہزار رضاکاروں کی ایک فورس کی تشکیل کو متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا ہے۔ اس فورس کا مقصد کریمیا سے آگے روسی پیش قدمی کو روکنا ہے۔ واضح رہے کہ روسی فوجیں رواں ماہ کے آغاز سے کریمیا میں تعینات ہیں اور عملی طور پر اس علاقے کا کنٹرول انہیں کے پاس ہے۔
یوکرائن کی پارلیمان کی جانب سے فوج کے باہر سے عام افراد کو ملکی دفاع کی ذمہ داری سونپنے کا یہ ڈرامائی فیصلہ امریکی صدر باراک اوباما کے اس بیان کے بعد سامنے آیا ہے، جس میں صدر اوباما نے کہا تھا کہ امریکا اس مشکل وقت میں یوکرائن کے ساتھ کھڑا ہے۔
جمعرات کے روز یوکرائن کی قومی سلامتی اور دفاعی کونسل کے سربراہ اینڈری پاروُبی کا کہنا ہے کہ قومی گارڈز کے نام سے بنائی جانے والی اس عوامی فورس کے ذریعے ملکی دفاع کو یقینی بنایا جائے گا اور یہ فورس سرحدوں کے دفاع کے ساتھ ساتھ دہشت گرد گروہوں کا بھی صفایا کرے گی۔ واضح رہے کہ کییف حکومت روسی فوج کے شانہ بشانہ کریمیا میں گشت کرنے والے مسلح گروہوں کو دہشت گرد قرار دیتی ہے۔
واضح رہے کہ یوکرائن کے فوجیوں کی مجموعی تعداد ایک لاکھ تیس ہزار ہے، جن میں سے نصف کے پاس پرانا اسلحہ ہے جب کہ دوسری جانب روس کی آٹھ لاکھ پنتالیس ہزار فوج ہے، جو جوہری ہتھیاروں سے بھی لیس ہے۔
یورپ کے مشرقی حصے پر یہ تنازعہ گزشتہ ماہ اس وقت شروع ہوا، جب روس کے حامی صدر وکٹور یانوکووچ کو پارلیمان نے برطرف کر دیا۔ پارلیمان کے اس فیصلے کے بعد روسی زبان بولنے اور ماسکو کے حامی سمجھے جانے والے علاقے کریمیا میں روس نے فوج بھیج دی۔ ماسکو حکومت کا موقف ہے کہ کریمیا میں فوج بھیجنے کا مقصد وہاں مقیم روسی زبان بولنے والے شہریوں کی حفاظت ہے۔ سن 2008ء میں جورجیا میں فوجی مداخلت کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ روسی فوجیں کسی دوسرے ملک میں داخل ہوئی ہیں۔
روسی زبان پر عبور رکھنے والی جرمن چانسلر میرکل، جو خود بھی سابقہ کمیونسٹ مشرقی جرمنی میں پلی بڑھیں، اب تک یوکرائن کے معاملے پر ماسکو حکومت سے تعلقات خراب کرنے سے بچتی رہی ہیں، تاہم جمعرات کے روز انہوں نے جرمن پارلیمان سے اپنے خطاب میں واضح الفاظ میں ماسکو حکومت کو متنبہ کیا کہ وہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی سے باز رہے۔
اپنے بیان میں میرکل کا کہنا تھا، ’اگر روس وہی کرتا رہا، جو وہ گزشتہ کچھ ہفتوں سے کر رہا ہے، تو پھر یہ صرف یوکرائن کے لیے ہی تباہ کن نہیں ہو گا۔ اس سے صرف یورپی یونین اور روس کے درمیان تعلقات ہی خراب نہیں ہوں گے، بلکہ مجھے یقین ہے کہ اس سے روس کو سیاسی اور اقتصادی طور پر شدید نقصان اٹھانا پڑے گا۔‘ میرکل نے کہا کہ روس دو صدیوں قبل کے ناکام وسعت پسندانہ طریقوں پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔
خیال رہے کہ آئندہ اتوار کے ایک متنازعہ ریفرنڈم کے بعد اس بات کے قومی امکانات ہے کہ کریمیا کا علاقہ روسی عملداری میں چلا جائے گا۔