کسان تحریک پر برطانوی پارلیمان میں بحث: بھارت کا شدید رد عمل
صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو نیوز، نئی دہلی
10 مارچ 2021
برطانوی پارلیمان میں بھارتی کسانوں کے حقوق اور پریس کی آزادی کے حوالے سے ہونے والی بحث پر بھارت نے شدید اعتراض کیا ہے۔
اشتہار
بھارت نے منگل نو مارچ کی شام کو نئی دہلی میں برطانوی سفیر کو طلب کر کے اس بات پر سخت احتجاج کیا کہ آخر برطانوی پارلیمان میں بھارتی کسانوں کی احتجاجی مہم پر بحث کیوں کی گئی؟ بھارتی حکومت نے کسانوں کی تحریک سے نمٹنے کے حوالے سے مودی حکومت پر برطانوی ارکان پارلیمان کی جانب سے نکتہ چینی کو دوسرے جمہوری ملک میں مداخلت قرار دیا ہے۔
نئی دہلی میں خارجہ امور کے سکریٹری ہرش شرنگلا نے اس کے لیے نئی دہلی میں برطانوی سفیر الیکس ایلس سے ملاقات کی اور کہا کہ یہ تو،’’ دوسرے جمہوری ملک کی سیاست میں صریح مداخلت ہے۔ برطانوی ارکان پارلیمان کو اس طرح سے ووٹ کی سیاست نہیں کرنی چاہیے۔‘‘
اس حوالے سے بھارتی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ برطانوی ہائی کمشنر کو طلب کر کے بتا دیا گيا ہے کہ ’’ کاشت کاری سے متعلق بھارتی اصلاحات پر برطانوی پارلیمان میں اس طرح کی غیر ضروری اور جانبداربحث پر بھارت کو سخت اعتراض ہے۔‘‘
کسانوں کے احتجاج ميں عورتيں بھی پيش پيش
03:00
برطانوی پارلیمان میں بحث
لندن میں پیر آٹھ مارچ کو برطانوی پارلیمان کے ارکان نے بھارت میں ’’کسانوں کے تحفظ‘‘ اور’’ پریس کی آزادی‘‘ کے موضوع پر بحث کی تھی۔ اس میں لیبر پارٹی، کنزرویٹیو، لبرل ڈیموکریٹک پارٹی اور اسکاٹش نیشنل پارٹی جیسی سیاسی جماعتوں سے وابستہ ارکان نے بھارت میں کسانوں کے تحفظ اور پریس کی آزادی کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا تھا۔
اشتہار
حالانکہ بحث کے دوران بیشتر ارکان نے یہ بات تسلیم بھی کی کہ بھارتی حکومت کی زرعی اصلاحات بھارت کا اندرونی معاملہ ہے تاہم ان کا اصرار اس بات پر تھا کہ کسانوں کے احتجاج کے ساتھ جو رویہ بھارتی حکومت نے اپنا رکھا ہے وہ قابل افسوس ہے۔
نوے منٹ کی اس بحث میں تقریباً 20 برطانوی ارکان پارلیمان نے شرکت کی تھی۔ اس کے اختتام پر برطانوی حکومت نے جواب میں کہا کہ جب برطانوی وزیراعظم بورس جانسن اپنے بھارتی ہم منصب سے ملاقات کریں گے،’’ تب وہ اپنی نشویش کو ان تک پہنچا دیں گے۔‘‘
یاد رہے کہ بورس جانسن جلد ہی بھارت کا دورہ کرنے والے ہیں۔
نئی دہلی ایک جانب فوجی تو دوسری طرف ٹریکڑ پریڈ
01:41
This browser does not support the video element.
بھارتی میڈیا کی آزادی پر سوال
کسانوں کے بارے میں بحث پر سب سے پہلے لندن میں بھارتی ہائی کمیشن نے یہ کہتے ہوئے اعتراض کیا تھا کہ اسے اس،’’جانبدارانہ بحث پر افسوس ہے۔ اس میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی شکل کو مسخ کرنے کے لیے بغیر ثبوت کے دعوے پیش کیے گئے۔‘‘
بھارتی ہائی کمیشن کا کہنا تھا،’’ بھارت میں برطانوی میڈیا سمیت دیگر بیرونی میڈیا بھی موجود ہے اور اس نے کسانوں کی تحریک کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ بھارت میں میڈیا کی آزادی کا تو سوال ہی نہیں اٹھتا ہے۔‘‘
حالانکہ گزشتہ ماہ ہی بھارت میں کسانوں کو پر تشدد مظاہروں کی ترغیب دینے کے الزام میں ملک کے کئی سرکردہ صحافیوں کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج کیے گئے تھے۔ مختلف غیر سرکاری تنظیمیں یہ الزام بھی عائد کرتی رہی ہیں کہ مودی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ہی میڈیا اور صحافیوں پر قدغن لگانے کا سلسلہ جاری ہے۔
خاص طور پر ریاست اترپردیش میں موجودہ بی جے پی کے دور میں صحافیوں کے خلاف سب سے زیادہ کیسز درج کیے گئے ہیں۔ ایک غیر سرکاری تنظیم 'رائٹس اینڈ رسک انالیسس گروپ‘ کے مطابق گزشتہ مارچ سے مئی کے دوران ملک کے مختلف علاقوں میں 55 صحافیوں کے خلاف کیسز درج کیے گئے تھے۔ بھارت میں بعض سیاسی تجزیہ کار اسے غیر اعلانیہ ایمرجنسی قرار دیتے ہوئے میڈیا کے لیے مشکل ترین دور سے تعبیر کرتے ہیں۔
بھارت: کسانوں کا حکومت مخالف احتجاج جاری
بھارت کے متنازعہ نئے زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کا احتجاج مسلسل جاری ہے۔ کسانوں نے قومی دارالحکومت کی سرحدوں کا تقریباً محاصرہ کر رکھا ہے۔ حکومت اور کسانوں کے درمیان بات چیت کے کئی دور ہو چکے ہیں لیکن تعطل برقرار ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
ہار نہیں مانیں گے
قومی دارالحکومت کی سرحدوں پر بیٹھے کسان مظاہرین کا کہنا ہے کہ متنازعہ قوانین واپس لینے تک احتجاج جاری رہے گا اور وہ چھ ماہ کی تیاری کے ساتھ آئے ہیں۔
تصویر: Mohsin Javed
امید باقی ہے
کسانوں کا کہنا ہے کہ انہیں امید ہے کہ حکومت نئے سیاہ قوانین واپس لے گی اور یہ احتجاج حکومت کے لیے آخری موقع ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
ہم دہشت گرد نہیں
کسانو ں کی اس غیر معمولی تحریک کو سبوتاژ کرنے کے لیے طرح طرح کے الزامات بھی لگائے گئے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا میں یہ خبر بھی پھیلائی گئی کہ مظاہرین نے 'خالصتان زندہ باد‘ کے نعرے لگائے ہیں لیکن بعدازاں یہ خبر غلط ثابت ہوئی۔
تصویر: Mohsin Javed
نوجوانوں کی امنگیں
مظاہرے میں بڑی تعداد میں نوجوان بھی موجود ہیں۔ ان میں اعلی تعلیم یافتہ اور مغربی ممالک سے واپس لوٹ کر زراعت کو روزگار کا ذریعہ بنانے والے بھی شامل ہیں۔
تصویر: Mohsin Javed
خواتین بھی شانہ بشانہ
اس مظاہرے میں خواتین بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں۔ان کا جوش و خروش قابل دید ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
زخمی مظاہرین
حکومت نے کسانوں کو دہلی پہنچنے سے روکنے کے لیے تمام حربے اور طریقے آزمائے۔ اس دوران آنسو گیس کے شیل لگنے سے کئی مظاہرین زخمی بھی ہوئے۔
تصویر: Mohsin Javed
مظاہرین کی آمد کا سلسلہ جاری
ملک کے مختلف حصوں سے مرد اور خواتین کسانوں کے قومی دارالحکومت آمد کا سلسلہ جاری ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
ملک بھر کے کسان شامل
مودی حکومت نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ یہ صرف پنجاب کے کسانوں کی تحریک ہے لیکن متعدد ریاستوں کے کسانوں اور مختلف تنظیموں نے اس میں اپنی شمولیت کا ثبوت پیش کیا۔
تصویر: Mohsin Javed
جنگ جاری رہے گی
”ہم اعلان کرتے ہیں کہ یہ ایک جنگ ہے اور یہ جاری رہے گی، جب تک مزدور کسان استحصال کا شکار ہیں۔" بھگت سنگھ
تصویر: Mohsin Javed
کھانے کی تیاری
مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ چھ ماہ تک رکنے کی تیاری کرکے آئے ہیں۔ انہیں کھانے پینے کی کوئی دشواری پیش نہیں آرہی ہے۔ حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے جانے والے کسان رہنمااپنا کھانا بھی ساتھ لے کر گئے تھے اور حکومتی ضیافت کو ٹھکرا دیا۔
تصویر: Mohsin Javed
ذرا تازہ دم ہوجاوں
مظاہرین کی خدمت کرتے کرتے تھک کر ایک کسان تھوڑی دیر کے لیے آرام کرتے ہوئے۔
تصویر: Mohsin Javed
ماں کا آغوش
کسان زمین کو اپنی ماں سمجھتے ہیں اور نیند کے لیے ماں کے آغوش سے بہتر کون سی جگہ ہوسکتی ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
حالات سے باخبر
دھرنا اپنی جگہ، لیکن 'دیش اور دنیا‘ کے حالات سے باخبر رہنا بھی تو ضروری ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
علم کا کوئی بدل نہیں
مظاہروں کے ساتھ ساتھ حصول علم کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ مظاہرین نے 'روڈ لائبریری‘ بھی قائم کررکھی ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
ڈاکٹر اور دوائیں بھی دستیاب
مظاہرے میں شامل ہزاروں افراد کے لیے صرف کھانے پینے کا ہی نظم نہیں ہے بلکہ کسانوں نے ان کی صحت کی دیکھ بھال کا پورا انتظام بھی کررکھا ہے۔ درجنوں ڈاکٹر اور طبی عملہ رضاکارانہ طور پر ہمہ وقت خدمت میں مصرو ف ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
سکیورٹی انتظامات
حکومت نے تمام سرحدو ں پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کررکھے ہیں۔ لیکن کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ فی الحال دہلی میں داخل نہیں ہوں گے بلکہ سڑکوں پر ہی بیٹھے رہیں گے۔
تصویر: Mohsin Javed
کنگنا رناوت پھنس گئیں
بالی ووڈ اداکارہ کنگنا رناوت نے مظاہرین کے خلاف ایک ٹوئٹ کیا جس کے بعد سوشل میڈیا پر ان کی زبردست نکتہ چینی ہورہی ہے۔ کنگنا نے گو اپنا ٹوئٹ واپس لے لیا ہے لیکن مظاہرین اب بھی ناراض ہیں۔
تصویر: Mohsin Javed
'گودی‘ میڈیا سے ناراضگی
کسان حکومت نواز میڈیا سے سخت ناراض ہیں۔انہوں نے ایسے ٹی وی چینلوں کا بائیکاٹ کررکھا ہے۔ بھارت میں 'گودی میڈیا‘ حکومت نواز میڈیا کو کہتے ہیں۔
تصویر: Mohsin Javed
'سوچھ بھارت‘
وزیر اعظم نریندر مودی کی مہم 'سوچھ بھارت‘ کی عملی تصویر۔ کسان خود ہی صفائی ستھرائی بھی کررہے ہیں۔
ٹیکسٹ: جاوید اختر تصاویر: محسن جاوید
تصویر: Mohsin Javed
19 تصاویر1 | 19
کسانوں کی تحریک
مودی حکومت نے گزشتہ برس جن متنازعہ زرعی قوانین کو متعارف کرايا تھا، ان کے خلاف گزشتہ تین ماہ سے بھی زیادہ وقت سے احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ کئی واقعات میں سکیورٹی فورسز نے کسان مظاہرین کے خلاف بے جا طاقت کا استعمال کیا ہے اورحکومت پر کسانوں کے ساتھ سختی سے نمٹنے کے الزامات بھی لگتے رہے ہیں۔
حکومت ان قوانین میں ترامیم کا وعدہ کر رہی ہے لیکن کسان تنظیمیں ان قوانین کو واپس لینے کا مطالبہ کر رہی ہيں۔ کسانوں کو خدشہ ہے کہ ان قوانین کی وجہ سے انہیں ان کے اناج کی فروخت کے عوض مناسب دام نہیں ملیں گے اور مقامی منڈیوں پر نجی تاجروں اور بڑے کارپوریٹ اداروں کا قبضہ ہو جائے گا۔
ہزاروں بھارتی کسانوں کا احتجاج
بھارتی شہر ممبئی میں ہزاروں کسانوں نے حکومت سے قرضوں کی معافی ، فصلوں کی بہتر قیمتوں اور کاشت کرنے والی سرکاری زمین کے حوالے سے حقوق کے مطالبات کے حق میں مظاہرہ کیا۔
تصویر: Imago/Hindustan Times/R. Choudhary
سرخ پرچموں کا سمندر
سرخ ٹوپیاں پہنے اور ہاتھوں میں سرخ پرچم تھامے بھارتی کسان ممبئی سے 165 کلو میڑ دور واقع علاقے ناشک سے چھ دن کی پیدل مسافت طے کرتے ہوئے ممبئی پہنچے۔ ان کی مفلسی کا یہ عالم ہے کہ مارچ کی گرمی میں کئی کسان ننگے پاوں یہاں تک پہنچے ہیں۔
تصویر: REUTERS
حکومت سے امداد کا مطالبہ:
کسان چاہتے ہیں کہ حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ فصل کی پیداوار پر جو لاگت آئی ہے، کسانوں کو کم از کم اس لاگت سے ڈیڑھ گنا زیادہ منافع ملے۔اس کے علاوہ زرعی اراضی پر تمام قرضہ جات معاف کیے جائیں۔ ان مظاہرین میں کئی ایسے افراد بھی ہین جو کئی نسلوں سے اس زمینوں پر کاشت کر رہے ہیں جو ان کی اپنی نہیں۔ یہ کسان چاہتے ہیں کہ ان زمینوں پر ان کی ملکیت تسلیم کی جائے۔
تصویر: AFP/Getty Images
مسئلے کے حل کی کوشش:
مہاراشٹر حکومت کے مطابق یہ ان مطالبات پر غور کرنے کے لیے تیار ہیں اور اس پر کام کر رہے ہیں۔ گزشتہ برس مہاراشٹر کے چیف منسٹر نے اعلان کیا تھا کہ کسانوں کو دیے جانے والے 305 بلین روپے کے قرضے معاف کر دیے جائیں گے۔
تصویر: P. Paranjpe/AFP/Getty Images
زراعتی بحران
مہاراشٹر بھارت کی سب سے اہم زرعی ریاست ہے۔ حالیہ برسوں میں اسے ناکافی بارشوں اور شدید خوشک سالی کے باعث فصلوں کا نقصان اٹھانا پڑا۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق صرف 2017 میں حالات سے تنگ آکر تقریبا 2500 کسانوں نے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔ تاہم یہ مسائل صرف مہاراشٹر تک محدود نہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Swarup
بے چینی میں اضافہ:
رواں برس کسانوں کی بے چینی میں بے حد اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور ملک کی مختلف ریاستوں میں ان کی جانب سے پچھلے کئی مہینوں نے مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔ ان کا حکومتی امداد کا مطالبہ بھی شدت پکڑتا جا رہے ہے۔
تصویر: AP
ناکافی کمائی:
بھارتی کسانوں کی ایک بڑی تعداد کم قیمت پر پیداوار کی فروخت اور مسلسل بڑھتے واجب الادا سودی قرضوں کے باعث سخت پریشان ہیں۔ ماہرین کے مطابق حکومت چاول اور گندم کے علاوہ دیگر زرعی پیداوار کی خرید انتہائی کم قیمت پر کرتی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
بڑا چیلنج:
کسانوں کی بڑھتی ہوئی بے چینی وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ مودی کی جانب سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ اگلے پانچ برسوں میں کسانوں کی آمدنی دگنی کر دیں گے۔ اگر اس وعدے پر عمل نہ کیا گیا تو کسانوں کا یہ احتجاج مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔