کسی افغان شہری کو جرمنی بدر نہ کیا جائے، ایس پی ڈی
شمشیر حیدر ڈی پی اے
26 جون 2017
جرمن پارلیمان میں دوسری بڑی سیاسی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی نے اپنے وفاقی کنونشن کے دوران فیصلہ کیا کہ افغانستان کی سکیورٹی صورت حال بہتر ہونے تک جرمنی سے افغان مہاجرین کی ملک بدری مکمل طور پر روک دی جانا چاہیے۔
اشتہار
سوشل ڈیموکریٹک پارٹی اس وقت وفاقی حکومت میں چانسلر میرکل کی اتحادی جماعت ہے تاہم آئندہ عام انتخابات کے دوران چانسلر میرکل اور اسی سیاسی جماعت کے مارٹن شُلس کے مابین جرمن چانسلر کے عہدے کے لیے مقابلہ ہو گا۔
ایس پی ڈی نے اتوار پچیس جون کے روز ڈورٹمنڈ میں منعقد ہونے والے پارٹی کے وفاقی کنونشن کے دوران افغان مہاجرین کی جرمنی بدری کی مخالفت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومتی اتحاد میں شامل اس دوسری بڑی سیاسی جماعت نے افغان مہاجرین کی ملک بدری اس وقت تک روک دینے کا مطالبہ کیا ہے، جب تک افغانستان میں امن و امان کی صورت حال بہتر نہیں ہو جاتی۔
کابل پھر لرز اٹھا
افغان دارالحکومت کابل میں ہوئے تازہ کار بم حملے کے نتیجے میں چار سو سے زائد افراد ہلاک یا زخمی ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/O. Sobhani
افغان وزارت داخلہ کے ترجمان نجیب دانش نے بتایا ہے کہ یہ دھماکا مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے آٹھ بجے ہوا۔
تصویر: Reuters/M. Ismail
یہ حملہ زنباق اسکوائر کے نزدیک ہوا، جہاں قریب ہی حکومتی دفاتر کے علاوہ افغان صدر کا دفتر بھی ہے۔
تصویر: Reuters/M. Ismail
اس ٹرک بم حملے کے نتیجے میں کم از کم اسّی افراد ہلاک جبکہ ساڑھے تین سو زخمی ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/M. Ismail
دھماکے کے بعد جائے حادثہ سے اٹھنے والے دھوئیں کے بادلوں نے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
تصویر: Reuters/H. Sayedi
افغان طالبان نے کابل میں ہونے والے تازہ بم حملے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
تصویر: Reuters/M. Ismail
افغان صدر اشرف غنی نے اس حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ انہوں نے اسے ایک ’بزدلانہ کارروائی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح حکومت کے حوصلے پست نہیں ہوں گے۔
تصویر: Reuters/M. Ismail
جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل نے تصدیق کر دی ہے کہ کابل میں ہوئے اس حملے کی وجہ سے وہاں واقع جرمن سفارتخانہ بھی متاثر ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس واقعے میں عمارت کے باہر موجود افغان سکیورٹی گارڈ مارا گیا جبکہ عملے کے دیگر مقامی ارکان بھی زخمی ہوئے ہیں۔
تصویر: Reuters/M. Ismail
دھماکے کی شدت کو دیکھتے ہوئے ملکی وزارت صحت نے خدشہ ظاہر ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
اس دھماکے کی وجہ سے تیس گاڑیاں بھی تباہ ہو گئیں جبکہ قریبی عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا۔
تصویر: Reuters/O. Sobhani
طبی ذرائع کے مطابق اس بم حملے میں سینکڑوں افراد زخمی ہوئے، جن میں سے کئی کی حالت نازک ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
فرانسیسی وزارت خارجہ نے بھی تصدیق کر دی ہے کہ اس دھماکے کے باعث کابل میں فرانس کے سفارتخانے کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sobhani
پاکستان کی طرف سے بھی اس خونریز کارروائی پر کابل حکومت کے ساتھ اظہار افسوس کیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sobhani
12 تصاویر1 | 12
ملکی عام انتخابات کے لیے تیار کیے جانے والے پارٹی منشور میں اس کنونشن میں شریک مندوبین کی اکثریت نے اس حوالے سے یہ تحریر منظور کی: ’’افغانستان کی سکیورٹی صورت حال کے باعث وہاں زندگیاں محفوظ نہیں ہیں، اس لیے اگلے اعلان تک کسی کو ملک بدر کر کے افغانستان نہیں بھیجا جائے گا۔‘‘
پارٹی کنونشن کے دوران کمشن نے تجویز دی تھی کہ منشور میں ایک عمومی جملہ شامل کیا جائے کہ تارکین وطن کو ملک بدر کر کے کسی جنگ زدہ علاقے میں نہیں بھیجا جائے گا اور خاص طور پر صرف افغان مہاجرین کی ملک بدری کا ذکر نہ کیا جائے۔ تاہم یہ تجویز منظور نہیں کی گئی اور منشور میں خاص طور پر افغان پناہ گزینوں کی ملک بدری روکے جانے کے حوالے سے تحریر شامل کی گئی۔
پارٹی کنونشن کے بعد ایس پی ڈی کی جانب سے چانسلر کے عہدے کے امیدوار مارٹن شُلس نے عوامی نشریاتی ادارے اے آر ڈی سے کی گئی اپنی ایک گفت گو میں کہا کہ پارٹی کے اس فیصلے سے ’جرائم میں ملوث تارکین وطن‘ کی ملک بدری پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ شُلس کا کہنا تھا کہ جرمنی میں دہشت گردی کے منصوبے بنانے والے اور عوام کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے والے غیر ملکیوں کو کسی صورت جرمنی میں پناہ نہیں دی جا سکتی اور انہیں ’جلد از جلد ملک بدر‘ کر دیا جانا چاہیے۔
گزشتہ ماہ کابل دہشت گردانہ حملے کے ایک بڑے واقعے کے بعد جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے افغان مہاجرین کی ملک بدری عارضی طور پر روک دینے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم ایس پی ڈی نے افغانستان کی سکیورٹی صورت حال بہتر ہونے تک ملک بدریاں روک دینے کا اعلان کیا ہے۔ چانسلر میرکل نے جرائم پیشہ اور دہشت گردی میں ملوث افراد کے علاوہ ایسے افغان تارکین وطن کی ملک بدری جاری رکھنے کا اعلان بھی کیا تھا جو جرمن حکام کے ساتھ اپنی حقیقی شناخت کے بارے میں تعاون نہیں کر رہے۔
افغان تارکین وطن کی ملک بدری جرمنی میں کافی متنازعہ معاملہ ہے۔ انسانی حقوق اور مہاجرین کی مدد میں سرگرم سماجی تنظیمیں افغانستان کو غیر محفوظ قرار دیتی ہیں اور ملک بدری کی مخالفت کر رہی ہیں۔
يورپی يونين اور ترکی کے مابين طے پانے والی ڈيل کے تحت اب تک 326 مہاجرين کو ملک بدر کيا جا چکا ہے، جن ميں 201 پاکستانی ہيں۔ يہ پناہ گزين بھاری رقوم خرچ کر کے يونان پہنچے ہيں اور ترکی ملک بدری کا خوف انہيں کھائے جا رہا ہے۔
تصویر: Jodi Hilton
ليسبوس پر ’غير قانونی‘ قيام
مقامی ميئر کے پريس آفيسر ماريو آندروئٹس کے مطابق مہاجرين نے وہاں جو کيمپ لگا رکھا ہے، وہ مکمل طور پر غير قانونی ہے۔ ان کے بقول وہ اس مسئلے کا پر امن انداز ميں حل نکالنے کی کوشش ميں ہيں تاہم اگر مہاجرين نے کيمپ نہيں چھوڑا تو پوليس کو طلب کيا جا سکتا ہے۔ يہ ليسبوس کے اس ايک کيمپ کی بات کر رہے ہيں، جہاں کئی پاکستانی موجود ہيں۔
تصویر: Jodi Hilton
سمندر سے بچائے جانے والے
مائيٹيلين کی بندرگاہ پر يونانی کوسٹ گارڈز کی جانب سے حراست ميں ليے جانے والے تارکين وطن کا ايک گروپ پوليس کی ايک بس پر انتظار کر رہا ہے۔ يہ تصوير رواں ہفتے اس وقت لی گئی تھی، جب يونان نے سياسی پناہ کے ليے غير مستحق سمجھے جانے والوں کی ترکی ملک بدری شروع کردی تھی۔
تصویر: Jodi Hilton
واپسی کا طويل سفر، مستقبل غير واضح
آٹھ اپريل کے روز 202 تارکين وطن کو ملک بدر کيا گيا۔ اس گروپ ميں ايک سو تيس پاکستانی شامل تھے۔ دوسرے نمبر پر افغان شہری تھے۔ اس کے علاوہ چند بنگلہ ديشی، کانگو کے کچھ شہری، چند ايک بھارتی اور سری لنکن تارکين وطن کو بھی ملک بدر کيا گيا۔
تصویر: Jodi Hilton
بھوک ہڑتال
ليسبوس پر قائم ايک حراستی مرکز موريا کے مہاجر کيمپ ميں پاکستانی تارکين وطن بھوک ہڑتال پر تھے۔ جنگی حالات سے فرار ہونے والا ايک نوجوان بلوچی لڑکا احتجاج کرتے ہوئے ایک کھمبے پر چڑھ گيا تھا اور دھمکی دينے لگا کہ وہ خود کو پھانسی دے دے گا۔ بعد ازاں اس کے ساتھيوں نے اسے سمجھایا اور وہ نیچے اتر آیا۔
تصویر: Jodi Hilton
ايک بے بس باپ
اڑتيس سالہ اعجاز اپنے اہل خانہ کے ليے ذريعہ معاش کا واحد ذريعہ ہیں۔ انہوں نے يورپ تک پہنچنے کے ليے اپنا مکان بيچ ڈالا تھا۔ وہ کہتے ہیں، ’’ميں بہت غريب آدمی ہوں۔‘‘ اپنے اہل خانہ کو غربت سے چھٹکارہ دلانے کا اعجاز کا خواب چکنا چور ہو کر رہ گيا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اسے يورپ ميں مرنا قبول ہے ليکن ترکی جانا نہيں۔
تصویر: Jodi Hilton
خوف کی زندگی
ايک پاکستانی تارک وطن پوليس سے بھاگ کر ’نو بارڈر کچن کيمپ‘ کی طرف جا رہا ہے۔ مہاجرين کو کيمپوں کے آس پاس ہی رکھا جاتا ہے اور رات کے وقت پوليس انہيں بندرگاہ کے علاقے اور شہر کے مرکز ميں نہيں جانے ديتی۔
تصویر: Jodi Hilton
مفت کھانا
تارکين وطن کھانے کے ليے قطاروں ميں کھڑے ہيں۔ نو بارڈر کيمپ ميں يہ مہاجرين سب کچھ مل کر ہی کرتے ہيں۔ اس کيمپ ميں کوئی کسی کا سربراہ نہيں اور سب کو برابر سمجھا جاتا ہے اور فيصلے مشترکہ طور پر مشاورت کے بعد کيے جاتے ہيں۔
تصویر: Jodi Hilton
سرد راتيں
پاکستانی تارکين وطن کا ايک گروپ خود کو گرم رکھنے کے ليے آگ لگا کر ہاتھ تاپ رہا ہے۔ ان ميں سے کچھ کا کہنا ہے کہ ترکی ميں انہيں يرغمال بنا ليا گيا تھا اور تاوان کے بدلے چھوڑا گيا تھا۔ ان ميں ايک پاکستانی حسن بھی ہے، جس نے اپنے خلاف قتل کی متعدد کوششوں کے بعد ملک چھوڑا تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ ترکی اس کے ليے محفوظ ملک نہيں۔