کسی بھی مذہب کو یا کوئی مذہبی گالی دینے پر 400 یورو جرمانہ
26 جولائی 2019
شمالی اٹلی کے ایک چھوٹے سے شہر میں مقامی حکومت کی طرف سے منظور کردہ ایک نئے قانون کے مطابق آئندہ کسی بھی مذہب کو گالی دینے والے کسی بھی شہری کو سخت سزا دی جا سکے گی۔ جرمانے کی یہ سزا کم از کم بھی چار سو یورو ہو گی۔
اشتہار
اطالوی دارالحکومت روم سے ملنے والی نیوز ایجنسی کے این اے کی رپورٹوں کے مطابق شمالی اٹلی کے شہر ساؤنارا (Saonara) کی بلدیاتی انتظامیہ نے فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ جو کوئی بھی کسی عوامی جگہ پر یعنی کسی بھی عقیدے کے پیروکاروں کے لیے مقدس شخصیات کو کوئی گالی دیتے ہوئے ان کی اجتماعی یا انفرادی توہین کا مرتکب ہو گا، اسے کم از کم بھی 400 یورو جرمانہ کیا جا سکے گا۔
اطالوی اخبار 'کوریئرے دَیل وَینیتو‘ نے آج اپنی جمعہ 26 جولائی کی اشاعت میں لکھا کہ ایسی سزائیں سناتے ہوئے یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ کوئی مذہبی نوعیت کی گالی کس مذہب کے خدا یا مقدس شخصیت کو دی گئی تھی۔ مزید یہ کہ اگر اس 'جرم‘ کا ارتکاب کوئی نابالغ فرد کرے گا، تو اسے سنائی جانے والی جرمانے کی سزا کی ادائیگی کے پابند اس کے والدین ہوں گے۔
اخلاقی پستی پر تشویش
اخبار کے مطابق ساؤنارا کے منتظم بلدیاتی ادارے کے ارکان نے یہ فیصلہ اس لیے کیا ہے کہ ایک تو انہیں شہر میں مذہبی معاملات کے حوالے سے عمومی اخلاقیات کے گرتے جانے پر تشویش تھی اور دوسرے اس اقدام کا مقصد عام لوگوں کو اس دکھ سے بچانا بھی ہے، جو انہیں کسی بھی مذہب کو دی جانے والی کوئی گالی سن کر محسوس ہوتا ہے۔
کے این اے نے اس بارے میں شہر کے میئر والٹر اشٹیفان کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے، ''اس نئے بلدیاتی ضابطے کا مقصد ان مسلسل بڑھتی ہوئی عوامی شکایات کا تدارک بھی تھا، جن کے مطابق شہر کے مختلف پارکوں میں شام کے وقت جو نوجوان اکثر جمع ہو جاتے ہیں، ان کی آپس کی گفتگو میں سنائی دینے والی مذہبی نوعیت کی گالیاں شہر کے مجموعی اخلاقی ماحول کو بھی خراب کر رہی ہیں۔‘‘
کس مذہب کے کتنے ماننے والے
دنیا بھر میں ہر دس میں سے آٹھ افراد کسی نہ کسی مذہبی برادری کا حصہ ہیں۔ امریکی تحقیقاتی ادارے پیو ریسرچ سینٹر کے جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا کے سات ارب سے زائد افراد میں کس مذہب کے کتنے پیرو کار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Gupta
مسیحی، آبادی کے تناسب سے پہلے نمبر پر
دنیا بھر میں سب سے زیادہ آبادی مسیحیت سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہے۔ عالمی آبادی میں اِن کی حصہ داری قریب 31.5 فیصد بنتی ہے جبکہ ان کی کل تعداد تقریباﹰ 2.2 ارب ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Tibbon
مسلمان
اسلام دنیا کا دوسرا بڑا مذہب ہے، جس کے ماننے والوں کی تعداد 1.6 ارب مانی جاتی ہے۔ مسلمانوں کی آبادی کی عالمی سطح پر شرح 23.2 فیصد ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Al-Shaikh
سیکولر یا ملحد
عالمی آبادی کا تقریباﹰ سولہ فیصد ایسے افراد پر مشتمل ہے جو کسی مذہب میں یقین نہیں رکھتے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Uz Zaman
ہندوازم
تقریباﹰ ایک ارب آبادی کے ساتھ ہندو دنیا میں تیسری بڑی مذہبی برادری ہیں۔ یہ کُل آبادی کا پندرہ فیصد ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Gupta
چینی روایتی مذہب
چین کے روایتی مذہب کو ماننے والوں کی کُل تعداد 39.4 کروڑ ہے اور دنیا کی آبادی میں اِن کی حصہ داری 5.5 فیصد ہے۔
تصویر: picture alliance/CPA Media
بدھ مت
دنیا بھر میں 37.6 کروڑ افراد بدھ مت کے پیرو کار ہیں۔ جن میں سے نصف چین میں آباد ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS
نسلی مذہبی گروپ
اس گروپ میں مذہبی برادریوں کو نسل کی بنیاد پر رکھا گیا ہے۔ اس گروپ میں شامل افراد کی کُل تعداد قریب 40 کروڑ ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Heunis
سکھ مذہب
اپنی رنگا رنگ ثقافت کے لیے دنیا بھر میں مشہور سکھوں کی کُل آبادی 2.3 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔
تصویر: NARINDER NANU/AFP/Getty Images
یہودی مذہب
یہودیوں کی تعداد عالمی آبادی میں 0.2 فیصد ہے جبکہ اس مذہب کے ماننے والوں کی تعداد 1.4 کروڑ کے قریب ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Rothermel
جین مت
جین مذہب کے پیروکار بنیادی طور پر بھارت میں آباد ہیں ۔ جین مت کے ماننے والوں کی تعداد 42 لاکھ کے آس پاس ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/N. Ut
شنتو عقیدہ
اس مذہب کے پیروکار زیادہ تر جاپان میں پائے جاتے ہیں اور اس عقیدے سے منسلک رسوم اُس خطے میں صدیوں سے رائج ہیں تاہم اس کے پیرو کاروں کی تعداد صرف تین ملین ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Mayama
11 تصاویر1 | 11
'بنیادی تربیت کا فقدان‘
ساؤنارا کے میئر نے کہا، ''کئی نوجوان لڑکے لڑکیاں تو ایسے بھی ہوتے ہیں، جو ہر دو لفظ بولتے ہوئے درمیان میں کوئی نہ کوئی گالی ضرور دیتے ہیں۔‘‘ میئر والٹر اشٹیفان کے الفاظ میں، ''اس نئے مقامی قانون کا مقصد لوگوں کو اخلاقیات کا کوئی درس یا خطبہ دینا نہیں بلکہ اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ عوام کی بنیادی تربیت اور پرورش مناسب ہو، ایک ایسا پہلو جسے عرصہ ہوا نظر انداز کر دیا گیا تھا۔‘‘
’اللہ، یسوع، بدھا سبھی محترم‘
میئر اشٹیفان کے الفاظ میں، ''اپنے گھر میں جس کا جو جی چاہے، وہ کر سکتا ہے۔ لیکن عوامی مقامات پر اب ہر کسی کو اس بات کا دھیان رکھنا ہو گا کہ وہ کس بارے میں کیا کہہ رہا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا، ''بات کسی ایک مذہب کی نہیں بلکہ تہذیب اور ثقافت کی ہے۔ ذکر چاہے اللہ کا ہو، پیغمبر اسلام محمد کا، بدھا کا، یسوع مسیح کا یا کنواری مریم کا، اب پبلک میں کسی بھی عقیدے کو اور کوئی بھی مذہبی گالی نہیں دی جا سکے گی۔‘‘
ساؤنارا کے شہریوں کو اس نئے قانون سے باخبر کرنے کے لیے بلدیاتی انتظامیہ نے اطالوی اور انگریزی کے علاوہ ان چند دیگر زبانوں میں بھی بہت سے پمفلٹ چھپوا لیے ہیں، جو اس شہر کے رہائشی اپنے اپنے گھروں میں مادری زبانوں کے طور پر بولتے ہیں۔
م م / ع ب / کے این اے
کِپا، ٹوپی، پگڑی، چادر اور دستار
دنیا کے مختلف مذاہب میں عقیدت کے طور پر سر کو ڈھانپا جاتا ہے۔ اس کے لیے کِپا، ٹوپی، پگڑی، چادر اور دستار سمیت بہت سی مختلف اشیاء استعمال کی جاتی ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ کس مذہب میں سر کو کیسے ڈھکا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Dyck
کِپا
یورپی یہودیوں نے سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں مذہبی علامت کے طور پر یارمولکے یا کِپا پہننا شروع کیا تھا۔ یہودی مذہبی روایات کے مطابق تمام مردوں کے لیے عبادت کرنے یا قبرستان جاتے وقت سر کو کِپا سے ڈھانپنا لازمی ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Rothermel
بشپ کا تاج
مائٹر یا تاج رومن کیتھولک چرچ کے بشپس مذہبی رسومات کے دوران پہنتے ہیں۔ اس تاج نما ٹوپی کی پشت پر لگے دو سیاہ ربن بائبل کے عہد نامہ قدیم اور جدید کی علامت ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/P. Seeger
پگڑی
سکھ مذہب کا آغاز شمالی بھارت میں پندرہویں صدی میں ہوا تھا۔ سکھ مت میں داڑھی اور پگڑی کو مذہبی اہمیت حاصل ہے۔ پگڑی عام طور پر سکھ مرد ہی باندھتے ہیں۔ نارنگی رنگ سب سے زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Dyck
چادر
مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں خواتین چادر اوڑھتی ہیں، جسے فارسی میں چادور کہتے ہیں۔ فارسی میں اس کے معنی خیمے کے ہیں۔ اس لباس سے پورا جسم ڈھک جاتا ہے۔ زیادہ تر سیاہ رنگ کی چادر استعمال کی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M.Kappeler
راہباؤں کا حجاب
دنیا بھر میں مسیحی راہبائیں مذہبی طور پر ایک خاص قسم کا لباس پہنتی ہیں۔ یہ لباس مختلف طوالت اور طریقوں کے ہوتے ہیں اور ان کا دار و مدار متعلقہ چرچ کے مذہبی نظام پر ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Baumgarten
ہیڈ اسکارف
ہیڈ اسکارف کو حجاب بھی کہا جا سکتا ہے۔ حجاب پہننے پر مغربی ممالک میں شدید بحث جاری ہے۔ ترک اور عرب ممالک سے تعلق رکھنے والی خواتین کی ایک بڑی تعداد اپنے سروں کو ہیڈ اسکارف سے ڈھکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Schiffmann
شیتل
ھاسیدک برادری سے تعلق رکھنے والی شادی شدہ کٹر یہودی خواتین پر لازم ہے کہ وہ اپنے سر کے بال منڈوا کر وگ پہنیں۔ اس وگ کو شیتل کہا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot/Y. Dongxun
بیرت
رومن کیھتولک پادریوں نے تیرہویں صدی سے بیرت پہننا شروع کیا تھا۔ اس کی تیاری میں کپڑا، گتا اور جھالر استعمال ہوتے ہیں۔ جرمنی، ہالینڈ، برطانیہ اور فرانس میں اس ہیٹ کے چار کونے ہوتے ہیں جبکہ متعدد دیگر ممالک میں یہ تکونی شکل کا ہوتا ہے۔
تصویر: Picture-alliance/akg-images
نقاب یا منڈاسا
کاٹن سے بنا ہوا یہ اسکارف نما کپڑا کم از کم پندرہ میٹر طویل ہوتا ہے۔ اسے زیادہ تر مغربی افریقہ میں استعمال کیا جاتا ہے۔ طوارق جنگجو اپنا چہرہ چھپانے اور سر کو ڈھکنے کے لیے اسے بہت شوق سے پہنتے ہیں۔
یہودی شٹریمل مخمل اور فر سے بنائی جاتی ہے۔ شادی شدہ یہودی مرد اس ہیٹ کو چھٹیوں اور مذہبی تقاریب میں پہنتے ہیں۔ یہ جنوب مشرقی یورپ میں آباد ھاسیدک یہودی برادری نے سب سے پہلے پہننا شروع کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto
ہیٹ
شمالی امریکا کی آمش برادری کا شمار قدامت پسند مسیحیوں میں ہوتا ہے۔ آمش اٹھارہویں صدی میں یورپ سے امریکا جا کر آباد ہوئے تھے۔ ان کی خواتین بالکل سادہ جبکہ مرد تھوڑے مختلف قسم کے فیلٹ ہیٹ پہنتے ہیں۔