کس جرمن صوبے میں مہاجرین کو پناہ ملنے کے امکانات زیادہ ہیں؟
شمشیر حیدر
27 مارچ 2017
تارکین وطن کو جرمنی میں سیاسی پناہ ملنے کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ انہوں نے کس ملک سے اور کس وجہ سے ہجرت کی۔ لیکن محقیقن کے مطابق جرمنی میں پناہ کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ تارکین وطن کس جرمن ریاست میں ہیں۔
اشتہار
جرمنی کی مختلف وفاقی ریاستوں میں تارکین وطن کو تسلیم شدہ مہاجر یا سیاسی پناہ کا حق دار تسلیم کرنے کی شرح بھی مختلف ہے۔ یعنی تارکین وطن کو سیاسی پناہ ملنے کا انحصار صرف اس بات پر نہیں ہے کہ وہ کہاں سے اور کس وجہ سے ہجرت کر کے جرمنی پہنچے، بلکہ یہ بات بھی بہت اہمیت کی حامل ہے کہ انہوں نے سیاسی پناہ کی اپنی درخواست جرمنی کے کس صوبے میں جمع کرا رکھی ہے۔ یہ بات کونسٹانز یونیورسٹی سے وابستہ دو محققین نے اپنے ایک تحقیقی جائزے میں لکھی ہے۔
اس جائزے کے مصنفین، لیزا ریڈل اور گیرالڈ شنائڈر کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں سیاسی پناہ دیے جانے کے قوانین کے یکساں ہونے کے باجود جرمنی کی کچھ وفاقی ریاستوں میں مہاجرین کو پناہ ملنے کے امکانات زیادہ اور کچھ میں نہایت کم ہیں۔
ان محقیقن کا کہنا ہے کہ جرمنی کے وفاقی دفتر برائے مہاجرت اور ترک وطن (BAMF) کے اہلکار ہر مختلف صوبوں میں ایک ہی اصول کے تحت فیصلہ نہیں کرتے بلکہ ان صوبوں میں مہاجرین کو تسلیم کرنے کی حکومتی پالیسیاں اور وہاں کا سماجی ماحول بھی ان فیصلوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے ان محقیقن نے ملکی سیاسی پناہ کے نظام کو ’پناہ کی لاٹری‘ قرار دیا ہے۔
محقیقن نے 2010ء سے لے کر 2015ء تک مختلف جرمن صوبوں میں سیاسی پناہ دیے جانے سے متعلق فیصلوں کا جائزہ لیا۔ اس جائزے کے نتائج میں معلوم ہوا کہ مذکورہ عرصے کے دوران جرمن وفاقی ریاست زارلینڈ میں 69 فیصد اور بریمن میں 55.7 فیصد تارکین وطن کو سیاسی پناہ ملی۔ اس کے مقابلے میں اسی عرصہ کے دوران سیکسنی میں 26.9 فیصد جب کہ برلن میں صرف 24.6 فیصد تارکین وطن کو باقاعدہ مہاجر تسلیم کرتے ہوئے سیاسی پناہ کا حق دار سمجھا گیا۔
سیاسی پناہ دیے جانے میں مختلف صوبوں میں پایا جانے والا یہ فرق صرف مجموعی طور پر ان پانچ سالوں ہی میں نہیں، بلکہ انفرادی طور پر ہر ایک برس کے دوران بھی ایسا ہی فرق قائم رہا۔
شام سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کی پناہ کی درخواستیں تو قریب ہر ریاست میں منظور کر لی گئیں۔ لیکن اس جائزے میں لکھا گیا ہے کہ عراقی اور افغانی باشندوں کو مختلف جرمن صوبوں میں پناہ دینے یا نہ دینے کے رجحان میں خاصا فرق پایا گیا۔
مثال کے طور پر زیریں سیکسنی میں 75.5 فیصد عراقیوں کو پناہ دی گئی لیکن سیسکنی انہالٹ میں صرف 37.5 فیصد عراقیوں کو پناہ کا حق دار سمجھا گیا۔ اسی طرح جرمن وفاقی ریاست نارتھ رائن ویسٹ فیلیا (NRW) میں قریب پینتیس فیصد افغان باشندوں کو پناہ دے دی گئی لیکن برانڈنبرگ میں محض دس فیصد افغان باشندوں کی سیاسی پناہ کی درخواستیں منظور ہوئیں۔
مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے کئی ممالک میں بڑھتی ہوئی شورش مہاجرت کے عالمی بحران کا سبب بنی ہے۔ اس تناظر میں یورپ بھی متاثر ہوا ہے۔ آئیے تصویری شکل میں دیکھتے ہیں کہ اس بحران سے نمٹنے کی خاطر یورپ نے کیا پالیسی اختیار کی۔
تصویر: picture-alliance/PIXSELL
جنگ اور غربت سے فرار
سن دو ہزار چودہ میں شامی بحران کے چوتھے سال میں داخل ہوتے ہی جہاں اس عرب ملک میں تباہی عروج پر پہنچی وہاں دوسری طرف انتہا پسند گروہ داعش نے ملک کے شمالی علاقوں پر اپنا قبضہ جما لیا۔ یوں شام سے مہاجرت کا سلسلہ تیز تر ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی دیگر کئی ممالک اور خطوں میں بھی تنازعات اور غربت نے لوگوں کو ہجرت پر مجبور کر دیا۔ ان ممالک میں عراق، افغانستان، ارتریا، صومالیہ، نائجر اور کوسووو نمایاں رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پناہ کی تلاش
شامی باشندوں کی ایک بڑی تعداد سن دو ہزار گیارہ سے ہی جنگ و جدل سے چھٹکارہ پانے کی خاطر ہمسائے ممالک ترکی، لبنان اور اردن کا رخ کرنے لگی تھی۔ لیکن سن دو ہزار پندرہ میں یہ بحران زیادہ شدید ہو گیا۔ ان ممالک میں شامی مہاجرین اپنے لیے روزگار اور بچوں کے لیے تعلیم کے کم مواقع کی وجہ سے آگے دیگر ممالک کی طرف ہجرت کرنے لگے۔ تب مہاجرین نے یورپ کا رخ کرنا بھی شروع کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
طویل مسافت لیکن پیدل ہی
سن دو ہزار پندرہ میں 1.5 ملین شامی مہاجرین نے بلقان کے مختلف رستوں سے پیدل ہی یونان سے مغربی یورپ کی طرف سفر کیا۔ مہاجرین کی کوشش تھی کہ وہ یورپ کے مالدار ممالک پہنچ جائیں۔ بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آمد کے سبب یورپی یونین میں بغیر ویزے کے سفر کرنے والا شینگن معاہدہ بھی وجہ بحث بن گیا۔ کئی ممالک نے اپنی قومی سرحدوں کی نگرانی بھی شروع کر دی تاکہ غیر قانونی مہاجرین کو ملک میں داخل ہونے سے روکا جا سکے۔
تصویر: Getty Images/M. Cardy
سمندرعبور کرنے کی کوشش
افریقی ممالک سے یورپ پہنچنے کے خواہمشند پناہ کے متلاشی نے بحیرہ روم کو عبور کرکے اٹلی پہنچنے کی کوشش بھی جاری رکھی۔ اس دوران گنجائش سے زیادہ افراد کو لیے کئی کشتیاں حادثات کا شکار بھی ہوئیں۔ اپریل سن 2015 میں کشتی کے ایک خونریز ترین حادثے میں آٹھ سو افراد ہلاک گئے۔ یہ کشتی لیبیا سے اٹلی کے لیے روانہ ہوئی تھی۔ رواں برس اس سمندری راستے کو عبور کرنے کی کوشش میں تقریبا چار ہزار مہاجرین غرق سمندر ہوئے۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
یورپی ممالک پر دباؤ
مہاجرین کی آمد کے سلسلے کو روکنے کی خاطر یورپی یونین رکن ممالک کے ہمسایہ ممالک پر دباؤ بڑھتا گیا۔ اس مقصد کے لیے ہنگری، سلووینیہ، مقدونیہ اور آسٹریا نے اپنی قومی سرحدوں پر باڑیں نصب کر دیں۔ پناہ کے حصول کے قوانین میں سختی پیدا کر دی گئی جبکہ شینگن زون کے رکن ممالک نے قومی بارڈرز پر عارضی طور پر چیکنگ کا نظام متعارف کرا دیا۔
تصویر: picture-alliance/epa/B. Mohai
کھلا دروازہ بند ہوتا ہوا
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے مہاجرین کی یورپ آمد کے لیے فراخدلانہ پالیسی اپنائی۔ تاہم ان کے سیاسی مخالفین کا دعویٰ ہے کہ میرکل کی اسی پالیسی کے باعث مہاجرین کا بحران زیادہ شدید ہوا، کیونکہ یوں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو تحریک ملی کہ وہ یورپ کا رخ کریں۔ ستمبر سن دو ہزار سولہ میں بالاخر جرمنی نے بھی آسٹریا کی سرحد پر عارضی طور پر سکیورٹی چیکنگ شروع کر دی۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
ترکی کے ساتھ ڈیل
سن دو ہزار سولہ کے اوائل میں یورپی یونین اور ترکی کے مابین ایک ڈیل طے پائی، جس کا مقصد ترکی میں موجود شامی مہاجرین کی یورپ آمد کو روکنا تھا۔ اس ڈیل میں یہ بھی طے پایا کہ یونان پہنچنے والے مہاجرین کو واپس ترکی روانہ کیا جائے گا۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس ڈیل کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ کہا جاتا ہے کہ اس ڈیل کی وجہ سے یورپ آنے والے مہاجرین کی تعداد میں واضح کمی ہوئی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Altan
مہاجرین کا نہ ختم ہونے والا بحران
مہاجرین کے بحران کی وجہ سے یورپ میں مہاجرت مخالف جذبات میں اضافہ ہوا ہے۔ یورپی ممالک ابھی تک اس بحران کے حل کی خاطر کسی لائحہ عمل پر متفق نہیں ہو سکے ہیں۔ رکن ممالک میں مہاجرین کی منصفانہ تقسیم کا کوٹہ سسٹم بھی عملی طور پرغیرمؤثر ہو چکا ہے۔ مشرق وسطیٰ اور دیگر کئی ممالک میں بدامنی کا خاتمہ ابھی تک ختم ہوتا نظر نہیں آتا جبکہ مہاجرت کا سفر اختیار کرنے والے افراد کی اموات بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔