کس کی دوہری شہریت زیادہ حساس، سیاستدان یا بیوروکریٹ
8 جنوری 2025پاکستان کے حالیہ قوانین کے مطابق کوئی بھی دوہری شہریت رکھنے والا شخص پارلیمنٹ کا ممبر نہیں ہو سکتا، لیکن بیوروکریٹس پر یہ قانون لاگو نہیں ہوتا۔ قانون کے مطابق دوہری شہریت رکھنے والے لوگ سی ایس ایس کا امتحان بھی دے سکتے ہیں اور سرکاری نوکریوں پر تعینات کیے جا سکتے ہیں۔
قانون دان اور ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ بیوروکریٹس ملک میں اہم عہدوں پر فرائض انجام دیتے ہیں اور دوہری شہریت رکھنے والوں کو بیوروکریسی میں شامل نہیں کیا جانا چاہیے۔
ماہرین اور قانون سازوں کا ماننا ہے کہ سیاستدانوں کے مقابلے میں بیوروکریٹس کے لیے دوہری شہریت کی اجازت دینے والے قانون کو ختم کرنا زیادہ اہم ہے کیونکہ بیوروکریٹس کو زیادہ حساس معلومات تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔
افسر شاہی کے لئے دوہری شہریت: پھر زیرِ بحث
اسلام آباد: اقتدار کے لیے جوڑ توڑ اور سیاسی مشاورتیں
قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا اور خاص طور پر بیوروکریٹس، ججوں اور ارکانِ پارلیمان کے لیے اس عمل کو محدود کرنے کے لیے سخت اقدامات کا مطالبہ کیا۔ کئی پارلیمنٹیرینز نے بیوروکریٹس کے لیے دوہری شہریت کی اجازت دینے والے قانون کی مخالفت کی۔
پیپلز پارٹی کے رکن نبیل گبول نے اجلاس کے دوران اس خیال کی سخت مخالفت کی کہ کسی کو محض عہدہ دینے کے لیے شہریت یا پاسپورٹ دیا جائے۔
ایسے قوانین کون بناتا ہے؟
قانون سازوں کا ماننا ہے کہ سیاستدانوں کو دوہری شہریت کی اجازت نہ دینے کی وجہ یہ ہے کہ بیوروکریٹس ہی قانون بناتے ہیں، کیونکہ قانون سازوں کی صلاحیت کمزور ہے۔
قومی اسمبلی کے رکن آغا رفیع اللہ نے، جو پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں اور اسٹینڈنگ کمیٹی کا حصہ تھے، ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، '' پالیسیز اور قوانین کے مسودے زیادہ تر بیوروکریٹس ہی لکھتے ہیں، اور اسی وجہ سے انہیں دوہری شہریت کی اجازت ہے، جبکہ وہ انتہائی ذمہ دارانہ عہدوں پر کام کرتے ہیں، اور اس عمل کو محدود کیا جانا چاہیے۔‘‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں سیاستدان قوانین بناتے ہیں، لیکن پاکستان میں ان کے پاس صلاحیت نہیں، اس لیے بیوروکریٹس فائدہ اٹھاتے ہیں۔ معروف صحافی اور تجزیہ کار ابصار عالم کے بقول، ''تمام ترقی یافتہ ممالک میں سیاستدانوں کے پاس تحقیقاتی ٹیمیں ہوتی ہیں جو ان کی مدد سے قوانین کا مسودہ تیار کرتی ہیں، لیکن پاکستان میں یہ ذمہ داری بیوروکریٹس کو دی گئی ہے جو خاموشی سے اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں اور کسی بھی نئے قانون یا ترمیم میں کوئی ایسی شق شامل کرنے سے گریز کرتے ہیں جو ان کے خلاف جاتی ہو۔‘‘
کس کی دوہری شہریت زیادہ حساس ہے، سیاستدانوں یا بیوروکریٹس کی؟
آغا رفیع اللہ کے مطابق سیاستدانوں کو کسی حساس معلومات تک رسائی نہیں ہوتی، جبکہ اہم عہدوں پر فائز بیوروکریٹس ہی نہیں بلکہ نچلے درجے پر کام کرنے والے افراد کو بھی سیاستدانوں سے زیادہ دستاویزات تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔
ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ دوہری شہریت صرف قومی سلامتی کے لحاظ سے ہی حساس نہیں بلکہ اس سے وفاداری اور کارکردگی کے متعلق بھی سوالات اٹھتے ہیں۔ سینیئر صحافی اور تجزیہ کار ابصار عالم کے مطابق، ''ہمارا ہمسایہ ملک بھارت تو اپنے کسی شہری کو دوہری شہریت کی اجازت ہی نہیں دیتا۔ یوں یہ سوال تو پیدا ہی نہیں ہوتا کہ بھارت کے کسی سیاستدان یا بیوروکریٹ کے پاس کسی اور ملک کی شہریت ہو یا وہ دوہری شہریت کے ساتھ ملکی الیکشن میں ووٹ ڈال سکے۔ ویسے بھی سول سرونٹ کے طور پر کام کرنے والوں کی وفاداریاں صرف ایک ہی ملک سے ہونا چاہییں۔ ‘‘
قومی سلامتی کے مسئلے پر، ابصار عالم کہتے ہیں، ''کسی قانون ساز سے پوچھیں کہ کیا وہ نادرا کے ڈیٹا یا کسی اور حساس ڈیٹا تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں؟ سلامتی کے اداروں کے پاس اور بیوروکریٹس کے پاس پارلیمنٹیرینز سے کہیں زیادہ معلومات ہوتی ہیں، اور ان لوگوں کے لیے سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ صرف ایک ملک کی وفاداری لازمی ہونی چاہیے۔‘‘