1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کس یورپی ملک میں زیادہ پاکستانی مہاجرین کو پناہ ملی؟

شمشیر حیدر
21 جون 2017

گزشتہ دو برسوں کے دوران ایک لاکھ سے زائد پاکستانی تارکین وطن نے یورپی یونین کے مختلف رکن ممالک میں سیاسی پناہ کی درخواستیں دیں۔ کون سے یورپی ممالک میں پاکستانی شہریوں کو پناہ ملنے کے امکانات زیادہ ہیں؟

Griechenland Lesbos pakistanische Flüchtlinge
تصویر: Jodi Hilton

یوروسٹیٹ کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ دو برسوں کے دوران ایک لاکھ سے زائد پاکستانی شہریوں نے مختلف یورپی ممالک میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ جرمنی اور اٹلی پاکستانی تارکین وطن کی پسندیدہ منزل رہے۔

لکسمبرگ میں قائم یورپی یونین کے دفتر شماریات یوروسٹَیٹ نے گزشتہ برسوں کے دوران پاکستانی شہریوں کی درخواستوں پر سنائے گئے فیصلوں سے متعلق اعداد و شمار بھی جاری کیے ہیں، جن کے مطابق سن 2015 اور سن 2016 کے دوران یورپی یونین کے اٹھائیس رکن ممالک میں حکام نے مجموعی طور پر اکاون ہزار سے زائد پاکستانی تارکین وطن کی درخواستوں پر فیصلے سنائے۔ ان نصف لاکھ سے زائد پاکستانی باشندوں میں سے قریب ساڑھے دس ہزار کو باقاعدہ طور پر مہاجر تسلیم کرتے ہوئے پناہ دے دی گئی، جب کہ چالیس ہزار پاکستانیوں کی درخواستیں مسترد کر دی گئیں۔

جرمنی میں نئی زندگی (2): کسے پناہ ملے گی اور کسے جانا ہو گا؟

ان دو برسوں کے دوران مجموعی طور پر پاکستان سے تعلق رکھنے والے پناہ کے کامیاب درخواست گزاروں کا تناسب اکیس فیصد رہا۔ سن 2015 میں یورپ بھر میں ساڑھے چھبیس فیصد پاکستانیوں کی درخواستیں منظور کی گئی تھیں جب کہ یہ تناسب سن 2016 میں کم ہو کر قریب سترہ فیصد رہ گیا۔

پچھلے دو برسوں کے دوران چھیالیس ہزار سے زائد پاکستانیوں نے سیاسی پناہ حاصل کرنے کے لیے درخواستیں صرف دو ممالک، جرمنی اور اٹلی میں جمع کرائی تھیں۔ تاہم یونین کے اٹھائیس رکن ممالک میں تعداد اور تناسب کے اعتبار سے جن ممالک میں پاکستانی شہریوں کو پناہ دیے جانے کا تناسب زیادہ رہا، اس کی تفصیل درج ذیل ہے:

اٹلی

گزشتہ دو برسوں کے دوران اٹلی میں بیس ہزار پاکستانی تارکین وطن کی پناہ کی درخواستوں پر ابتدائی فیصلے سنائے گئے جن میں سے قریب آٹھ ہزار (یعنی چالیس فیصد) کو پناہ دے دی گئی۔ اس لحاظ سے یونین کے کسی بھی دوسرے ملک کی نسبت اٹلی نے سب سے زیادہ پاکستانیوں کو اپنے ہاں پناہ دی۔

لیکن اٹلی میں بھی سن 2015 کے مقابلے میں گزشتہ برس پاکستانی تارکین وطن کو پناہ دیے جانے کے تناسب میں کمی دیکھی گئی۔ سن دو ہزار سولہ میں اٹلی میں سینتیس فیصد پاکستانی پناہ گزینوں کی درخواستیں منظور ہوئیں جب کہ اس سے ایک برس قبل یہی تناسب چوالیس فیصد سے بھی زائد تھا۔

’تارکین وطن کو اٹلی سے بھی ملک بدر کیا جائے‘

جرمنی

یورپ میں مہاجرین کے بحران کے دوران زیادہ تر تارکین وطن نے پناہ کی تلاش میں جرمنی کا رخ کیا تھا، جن میں ہزارہا پاکستانی بھی شامل تھے۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران جرمنی میں پاکستانی شہریوں کو پناہ دیے جانے کی مجموعی شرح صرف ساڑھے پانچ فیصد رہی۔ مجموعی طور پر ساڑھے گیارہ ہزار پاکستانیوں کی پناہ کی درخواستوں پر ابتدائی فیصلے سنائے گئے، جن میں سے محض 625 پاکستانی ہی جرمنی میں پناہ کے حقدار قرار پائے۔

اگر ان اعداد و شمار کا سالانہ بنیادوں پر جائزہ لیا جائے تو سن 2015 میں جرمنی میں سترہ فیصد پاکستانی درخواست گزاروں کو پناہ دی گئی اور یہ شرح پچھلے برس انتہائی کم ہو کر صرف چار فیصد رہ گئی، یعنی چھیانوے فیصد پاکستانیوں کی درخواستیں مسترد کر دی گئیں۔

برطانیہ

برطانیہ میں بھی اس عرصے میں ہزارہا پاکستانی شہریوں کی دائر کردہ پناہ کی درخواستوں میں سے ساڑھے چھ ہزار سے زائد کا فیصلہ ہو گیا اور ان میں سے اسّی فیصد سے زائد مسترد کر دی گئیں۔

یونین کی دیگر رکن ریاستیں

یورپی یونین کی رکن دیگر پچیس ریاستوں میں بہت کم تعداد میں پاکستانی تارکین وطن نے اپنی پناہ کی درخواستیں جمع کرائی تھیں۔ تناسب کے اعتبار سے اسپین  میں 48 جب کہ پرتگال میں پینتالیس فیصد پاکستانیوں کی درخواستیں منظور ہو گئیں لیکن ان دونوں ممالک میں بالترتیب 215 اور 55 پاکستانی تارکین وطن کی پناہ کی درخواستوں پر فیصلے سنائے گئے تھے۔ دوسرے لفظوں میں تناسب زیادہ تھا مگر مجموعی تعداد بہت کم۔

یونان میں چار ہزار پاکستانیوں کی درخواستوں پر فیصلے سنائے گئے، جن میں سے صرف نوے افراد پناہ کے حقدار سمجھے گئے۔

اسی طرح فرانس میں ساڑھے چار ہزار سے زائد پاکستانیوں کی درخواستیں نمٹائی گئیں، جن میں سے سات فیصد سے بھی کم افراد کو مہاجر تسلیم کیا گیا۔

گزشتہ برس چیک جمہوریہ، بلغاریہ، ڈنمارک، ایسٹونیا اور لکسمبرگ جیسے یورپی ممالک میں کسی ایک بھی پاکستانی شہری کو پناہ نہ ملی۔

امیدوں کے سفر کی منزل، عمر بھر کے پچھتاوے

03:00

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں