کس یورپی ملک میں زیادہ پاکستانی مہاجرین کو پناہ ملی؟
شمشیر حیدر
21 جون 2017
گزشتہ دو برسوں کے دوران ایک لاکھ سے زائد پاکستانی تارکین وطن نے یورپی یونین کے مختلف رکن ممالک میں سیاسی پناہ کی درخواستیں دیں۔ کون سے یورپی ممالک میں پاکستانی شہریوں کو پناہ ملنے کے امکانات زیادہ ہیں؟
اشتہار
یوروسٹیٹ کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ دو برسوں کے دوران ایک لاکھ سے زائد پاکستانی شہریوں نے مختلف یورپی ممالک میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ جرمنی اور اٹلی پاکستانی تارکین وطن کی پسندیدہ منزل رہے۔
لکسمبرگ میں قائم یورپی یونین کے دفتر شماریات یوروسٹَیٹ نے گزشتہ برسوں کے دوران پاکستانی شہریوں کی درخواستوں پر سنائے گئے فیصلوں سے متعلق اعداد و شمار بھی جاری کیے ہیں، جن کے مطابق سن 2015 اور سن 2016 کے دوران یورپی یونین کے اٹھائیس رکن ممالک میں حکام نے مجموعی طور پر اکاون ہزار سے زائد پاکستانی تارکین وطن کی درخواستوں پر فیصلے سنائے۔ ان نصف لاکھ سے زائد پاکستانی باشندوں میں سے قریب ساڑھے دس ہزار کو باقاعدہ طور پر مہاجر تسلیم کرتے ہوئے پناہ دے دی گئی، جب کہ چالیس ہزار پاکستانیوں کی درخواستیں مسترد کر دی گئیں۔
پاکستانی تارکین وطن کے کرچی کرچی خواب
مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران ہزارہا پاکستانی بھی مغربی یورپ پہنچے ہیں۔ یونان سے ایک پاکستانی افتخار علی نے ہمیں کچھ تصاویر بھیجی ہیں، جو یورپ میں بہتر زندگی کے خواب اور اس کے برعکس حقیقت کے درمیان تضاد کی عکاس ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
بہتر مستقبل کے خواب کی تعبیر، بیت الخلا کی صفائی
جو ہزاروں پاکستانی تارکین وطن اپنے گھروں سے نکلے، ان کی منزل جرمنی و مغربی یورپی ممالک، اور خواہش ایک بہتر زندگی کا حصول تھی۔ شاید کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ خطرناک پہاڑی اور سمندری راستوں پر زندگی داؤ پر لگانے کے بعد انہیں ایتھنز میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں بیت الخلا صاف کرنا پڑیں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
ایجنٹوں کے وعدے اور حقیقت
زیادہ تر پاکستانی صوبہ پنجاب سے آنے والے تارکین وطن کو اچھے مستقبل کے خواب انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے ایجنٹوں نے دکھائے تھے۔ جرمنی تک پہنچانے کے ابتدائی اخراجات پانچ لاکھ فی کس بتائے گئے تھے اور تقریباﹰ ہر کسی سے یہ پوری رقم پیشگی وصول کی گئی تھی۔ جب یہ پاکستانی شہری یونان پہنچے تو مزید سفر کے تمام راستے بند ہو چکے تھے۔ اسی وقت ایجنٹوں کے تمام وعدے جھوٹے اور محض سبز باغ ثابت ہوئے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پاکستانیوں سے امتیازی سلوک کی شکایت
شام اور دیگر جنگ زدہ ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو بلقان کی ریاستوں سے گزر کر جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک جانے کی اجازت ہے۔ یورپی حکومتوں کے خیال میں زیادہ تر پاکستانی شہری صرف اقتصادی وجوہات کی بنا پر ترک وطن کرتے ہیں۔ اسی لیے انہیں یورپ میں پناہ دیے جانے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ لیکن اکثر پاکستانیوں کو شکایت ہے کہ یونان میں حکام ان سے نامناسب اور امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
کیمپ میں رہنا ہے تو صفائی تم ہی کرو گے!
ایسے درجنوں پاکستانی تارکین وطن کا کہنا ہے کہ یونانی حکام نے مہاجر کیمپوں میں صفائی کا کام صرف انہی کو سونپ رکھا ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو بالعموم مہاجر کیمپوں میں رکھنے کی اجازت نہیں ہے تاہم انہیں وہاں عارضی قیام کی اجازت صرف اس شرط پر دی گئی ہے کہ وہاں صفائی کا کام صرف وہی کریں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پردیس میں تنہائی، مایوسی اور بیماری
سینکڑوں پاکستانی تارکین وطن اپنے یونان سے آگے کے سفر کے بارے میں قطعی مایوس ہو چکے ہیں اور واپس اپنے وطن جانا چاہتے ہیں۔ ان میں سے متعدد مختلف ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو چکے ہیں۔ ایک یونانی نیوز ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے دو پاکستانی پناہ گزینوں نے خودکشی کی کوشش بھی کی تھی۔
تصویر: Iftikhar Ali
کم اور نامناسب خوراک کا نتیجہ
یونان میں پناہ کے متلاشی زیادہ تر پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ مہاجر کیمپوں میں انہیں ملنے والی خوراک بہت کم ہوتی ہے اور اس کا معیار بھی ناقص ۔ ایسے کئی تارکین وطن نے بتایا کہ انہیں زندہ رہنے کے لیے روزانہ صرف ایک وقت کا کھانا ہی میسر ہوتا ہے۔ ان حالات میں اکثر افراد ذہنی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر لاغر اور بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
وطن واپسی کے لیے بھی طویل انتظار
بہت سے مایوس پاکستانی پناہ گزینوں کے لیے سب سے اذیت ناک مرحلہ یہ ہے کہ وہ اپنے پاس کوئی بھی سفری دستاویزات نہ ہونے کے باعث اب فوراﹰ وطن واپس بھی نہیں جا سکتے۔ ان کے بقول ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے لازمی جانچ پڑتال کے بعد انہیں عبوری سفری دستاویزات جاری کیے جانے کا عمل انتہائی طویل اور صبر آزما ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
غریب الوطنی میں بچوں کی یاد
پاکستان کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والا اکتالیس سالہ سجاد شاہ بھی اب واپس وطن لوٹنا چاہتا ہے۔ تین بچوں کے والد سجاد شاہ کے مطابق اسے اپنے اہل خانہ سے جدا ہوئے کئی مہینے ہو چکے ہیں اور آج اس کے مالی مسائل پہلے سے شدید تر ہیں۔ سجاد کے بقول مہاجر کیمپوں میں کھیلتے بچے دیکھ کر اسے اپنے بچے بہت یاد آتے ہیں اور اسی لیے اب وہ جلد از جلد واپس گھر جانا چاہتا ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
اجتماعی رہائش گاہ محض ایک خیمہ
دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور پناہ گزینوں کو یونانی حکام نے پختہ عمارات میں رہائش فراہم کی ہے جب کہ پاکستانیوں کو زیادہ تر عارضی قیام گاہوں کے طور پر زیر استعمال اجتماعی خیموں میں رکھا گیا ہے۔ یہ صورت حال ان کے لیے اس وجہ سے بھی پریشان کن ہے کہ وہ یورپ کی سخت سردیوں کے عادی نہیں ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
جب انتظار کے علاوہ کچھ نہ کیا جا سکے
یونان میں ان پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی سفارت خانے کو اپنے لیے سفری دستاویزات کے اجراء کی درخواستیں دے چکے ہیں اور کئی مہینے گزر جانے کے بعد بھی اب تک انتظار ہی کر رہے ہیں۔ ایسے ایک پاکستانی شہری کے مطابق چند افراد نے بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت سے بھی اپنی وطن واپسی میں مدد کی درخواست کی لیکن جواب ملا کہ واپسی کے لیے درکار سفری دستاویزات صرف پاکستانی سفارتی مراکز ہی جاری کر سکتے ہیں
تصویر: Iftikhar Ali
پناہ نہیں، بس گھر جانے دو
یونان میں بہت سے پاکستانی تارکین وطن نے اسلام آباد حکومت سے درخواست کی ہے کہ ان کی جلد از جلد وطن واپسی کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ ان افراد کا دعویٰ ہے کہ ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانہ ’بار بار کے وعدوں کے باوجود کوئی مناسب مدد نہیں کر رہا‘۔ احسان نامی ایک پاکستانی تارک وطن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’نہ ہم واپس جا سکتے ہیں اور نہ آگے، پس پچھتاوا ہے اور یہاں ٹائلٹس کی صفائی کا کام۔‘‘
ان دو برسوں کے دوران مجموعی طور پر پاکستان سے تعلق رکھنے والے پناہ کے کامیاب درخواست گزاروں کا تناسب اکیس فیصد رہا۔ سن 2015 میں یورپ بھر میں ساڑھے چھبیس فیصد پاکستانیوں کی درخواستیں منظور کی گئی تھیں جب کہ یہ تناسب سن 2016 میں کم ہو کر قریب سترہ فیصد رہ گیا۔
پچھلے دو برسوں کے دوران چھیالیس ہزار سے زائد پاکستانیوں نے سیاسی پناہ حاصل کرنے کے لیے درخواستیں صرف دو ممالک، جرمنی اور اٹلی میں جمع کرائی تھیں۔ تاہم یونین کے اٹھائیس رکن ممالک میں تعداد اور تناسب کے اعتبار سے جن ممالک میں پاکستانی شہریوں کو پناہ دیے جانے کا تناسب زیادہ رہا، اس کی تفصیل درج ذیل ہے:
اٹلی
گزشتہ دو برسوں کے دوران اٹلی میں بیس ہزار پاکستانی تارکین وطن کی پناہ کی درخواستوں پر ابتدائی فیصلے سنائے گئے جن میں سے قریب آٹھ ہزار (یعنی چالیس فیصد) کو پناہ دے دی گئی۔ اس لحاظ سے یونین کے کسی بھی دوسرے ملک کی نسبت اٹلی نے سب سے زیادہ پاکستانیوں کو اپنے ہاں پناہ دی۔
لیکن اٹلی میں بھی سن 2015 کے مقابلے میں گزشتہ برس پاکستانی تارکین وطن کو پناہ دیے جانے کے تناسب میں کمی دیکھی گئی۔ سن دو ہزار سولہ میں اٹلی میں سینتیس فیصد پاکستانی پناہ گزینوں کی درخواستیں منظور ہوئیں جب کہ اس سے ایک برس قبل یہی تناسب چوالیس فیصد سے بھی زائد تھا۔
ایلان سے اومران تک مہاجرت کا سفر، مصائب ختم نہیں ہوئے
سن دو ہزار پندرہ اور سن دو ہزار سولہ میں یورپ میں بڑے پیمانے پر تارکین وطن کی آمد کی تصاویر دنیا بھر میں گردش کرتی رہیں اور رائے عامہ پر اثر انداز ہوئیں۔ تاہم مہاجرین کے مصائب کا مکمل احاطہ آج تک نہیں کیا جا سکا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/DHA
یونانی جزائر میں پڑاؤ
گزشتہ دو برسوں میں لاکھوں افراد جنگوں اور تنازعات کے باعث اپنے ممالک کو چھوڑ کر ترکی کے ذریعے یونان پہنچے۔ یونانی جزائر لیبسوس، شیوس اور ساموس میں اب بھی دس ہزار کے قریب تارکین وطن پھنسے ہوئے ہیں۔ یہاں اس سال جنوری سے مئی تک چھ ہزار نئے پناہ گزین بھی پہنچے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
یورپ کی جانب پیدل سفر
سن دو ہزار پندرہ اور سولہ میں ایک ملین سے زائد تارکین وطن نے ترکی اور یونان کے بعد ’بلقان روٹ‘ پر پیدل سفر کرتے ہوئے مغربی یورپ پہنچنے کی کوشش کی۔ مہاجرین کا یہ بہاؤ اُس وقت تھما، جب اس راستے کو باقاعدہ اور مکمل طور پر بند کر دیا گیا۔
تصویر: Getty Images/J. Mitchell
ایلان کُردی
اس تصویر نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ستمبر دو ہزار پندرہ میں تین سالہ شامی بچے ایلان کردی کی لاش ترکی کے ایک ساحل پر ملی۔ یہ تصویر سماجی رابطوں کی ویب سائٹوں پر مہاجرین کے بحران کی علامت بن گئی، جس کے بعد یورپ کے لیے اس بحران کو نظر انداز کرنا ممکن نہ تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/DHA
بلقان روٹ کی بندش
ہزاروں افراد نے یہ جاننے کے بعد کہ اب بلقان روٹ زیادہ عرصے تک کھلا نہیں رہے گا، کروشیا میں پہلے سے بھری ہوئی بسوں اور ٹرینوں میں سوار ہونے کی کوشش کی۔ اکتوبر سن دو ہزار پندرہ میں ہنگری نے اپنی سرحدیں بند کر دی تھیں۔
تصویر: Getty Images/J. J. Mitchell
ہنگری کی خاتون صحافی
ستمبر 2015ء میں ہنگری کی صحافی پیٹر لازسلو اس وقت عالمی خبروں میں آئی تھیں، جب میڈیا پر ایک فوٹیج جاری ہوئی تھی، جس میں وہ سرحد عبور کرنے والے ایک مہاجر کو ٹانگ اڑا کر گراتی ہیں، جب کہ یہ مہاجر اس وقت اپنے بازوؤں میں ایک بچہ بھی اٹھائے ہوئے تھا۔
تصویر: Reuters/M. Djurica
مہاجرین پر تشدد
مارچ سن دو ہزار سولہ میں بلقان روٹ کی بندش کے بعد بلقان کی ریاستوں کے سرحدی راستوں پر افسوسناک مناظر دیکھنے میں آئے۔ سرحد عبور کرنے کی کوشش کے دوران مہاجرین پر ظالمانہ تشدد کی اطلاعات بھی سامنے آئیں۔
پانچ سالہ شامی بچے اومران کی یہ تصویر جب سن دو ہزار سولہ میں منظر عام پر آئی تو دنیا بھر میں لوگ صدمے کی کیفیت میں آ گئے۔ شامی صدر بشار الاسد کے حامیوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس اس تصویر کو پروپیگنڈا مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Aleppo Media Center
نیا لیکن انجان گھر
یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر کھینچی گئی یہ تصویر ایک شامی مہاجر کی ہے، جو برستی بارش میں اپنی بیٹی کو اٹھا کر لے جا رہا تھا، اس امید پر کہ اُس کے خاندان کو یورپ میں اچھا مستقبل ملے گا۔
تصویر: Reuters/Y. Behrakis
مدد کی امید
جرمنی تارکین وطن کی پسندیدہ ترین منزل ہے۔ جرمن چانسلر میرکل پناہ گزینوں کے لیے آئیکون کا درجہ رکھتی ہیں۔ تاہم اب بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آمد کے بعد جرمن حکومت نے مہاجرت کے حوالے سے قوانین کو سخت بنا دیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Hoppe
بحیرہ روم میں اموات
جنگوں، تنازعات اور غربت سے راہ فرار اختیار کر کے بہتر مستقبل کی تلاش میں یورپ پہنچنے کے خواہشمند تارکین وطن خطرات سے پُر سمندری راستے بھی اختیار کرتے ہیں۔ رواں برس اب تک اٹھارہ سو، جب کہ سن دو ہزار سولہ میں پانچ ہزار مہاجرین غیر محفوظ کشتیوں پر بحیرہ روم کے سفر کے دوران اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔
یورپ میں مہاجرین کے بحران کے دوران زیادہ تر تارکین وطن نے پناہ کی تلاش میں جرمنی کا رخ کیا تھا، جن میں ہزارہا پاکستانی بھی شامل تھے۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران جرمنی میں پاکستانی شہریوں کو پناہ دیے جانے کی مجموعی شرح صرف ساڑھے پانچ فیصد رہی۔ مجموعی طور پر ساڑھے گیارہ ہزار پاکستانیوں کی پناہ کی درخواستوں پر ابتدائی فیصلے سنائے گئے، جن میں سے محض 625 پاکستانی ہی جرمنی میں پناہ کے حقدار قرار پائے۔
اگر ان اعداد و شمار کا سالانہ بنیادوں پر جائزہ لیا جائے تو سن 2015 میں جرمنی میں سترہ فیصد پاکستانی درخواست گزاروں کو پناہ دی گئی اور یہ شرح پچھلے برس انتہائی کم ہو کر صرف چار فیصد رہ گئی، یعنی چھیانوے فیصد پاکستانیوں کی درخواستیں مسترد کر دی گئیں۔
برطانیہ
برطانیہ میں بھی اس عرصے میں ہزارہا پاکستانی شہریوں کی دائر کردہ پناہ کی درخواستوں میں سے ساڑھے چھ ہزار سے زائد کا فیصلہ ہو گیا اور ان میں سے اسّی فیصد سے زائد مسترد کر دی گئیں۔
یونین کی دیگر رکن ریاستیں
یورپی یونین کی رکن دیگر پچیس ریاستوں میں بہت کم تعداد میں پاکستانی تارکین وطن نے اپنی پناہ کی درخواستیں جمع کرائی تھیں۔ تناسب کے اعتبار سے اسپین میں 48 جب کہ پرتگال میں پینتالیس فیصد پاکستانیوں کی درخواستیں منظور ہو گئیں لیکن ان دونوں ممالک میں بالترتیب 215 اور 55 پاکستانی تارکین وطن کی پناہ کی درخواستوں پر فیصلے سنائے گئے تھے۔ دوسرے لفظوں میں تناسب زیادہ تھا مگر مجموعی تعداد بہت کم۔
یونان میں چار ہزار پاکستانیوں کی درخواستوں پر فیصلے سنائے گئے، جن میں سے صرف نوے افراد پناہ کے حقدار سمجھے گئے۔
اسی طرح فرانس میں ساڑھے چار ہزار سے زائد پاکستانیوں کی درخواستیں نمٹائی گئیں، جن میں سے سات فیصد سے بھی کم افراد کو مہاجر تسلیم کیا گیا۔
گزشتہ برس چیک جمہوریہ، بلغاریہ، ڈنمارک، ایسٹونیا اور لکسمبرگ جیسے یورپی ممالک میں کسی ایک بھی پاکستانی شہری کو پناہ نہ ملی۔