اٹلی آنے والے ایک مہاجر مارک سامی کے ذہن میں اب تک وہ منظر محفوظ ہے، جب اسے اپنی سات ماہ کی حاملہ منگیتر کو لیبیا کے ساحل پر اس لیے روتا چھوڑ کر آنا پڑا کیونکہ انسانی اسمگلرز نے اسے کشتی چلانے پر مجبور کر دیا تھا۔
انسانی اسمگلر قانون کی گرفت سے بچنے کے لیے کم عمر مہاجرین کے ہاتھ میں کشتی کے پتوار تھما دیتے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/B. Janssen
اشتہار
سامی کی منگیتر لوئیس سات ماہ کی حاملہ تھی۔ وہ دونوں ایک ساتھ اٹلی جانا چاہتے تھے لیکن انسانی اسمگلروں نے اُس کی منگیتر کو یہ کہہ کر روک لیا کہ وہ اگلی کشتی پر آئے گی اور خود سامی کو ایک سیٹیلائٹ فون اور ایک قطب نما دے کر کشتی اٹلی کی طرف لے جانے کے لیے مجبور کیا۔
سامی کے انکار پر انہوں نے اس کی ٹانگوں کے درمیان کلاشنکوف سے فائر کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ کشتی لے جانے پر تیار نہ ہوا تو اُسے اور اُس کی منگیتر دونوں کو مار دیا جائے گا۔ یہ گزشتہ جولائی کی بات ہے۔ لیکن بجائے اس کے کہ سامی کے ساتھ بطور ِ مہاجر سلوک کیا جاتا، اٹلی میں پولیس نے اسے غیر قانونی امیگریشن میں سہولت کار ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے گرفتار کر لیا۔
افریقی ملک ٹوگو سے تعلق رکھنے والا سامی اُن سینکڑوں مہاجرین میں سے ایک ہے، جو اٹلی میں غیر قانونی مہاجرت میں سہولت فراہم کرنے کے الزام میں گرفتار ہیں۔ اطالوی پولیس، دفترِاستغاثہ اور عدالتیں انسانوں کی غیر قانونی اسمگلنگ کے خلاف نبرد آزما ہیں۔
یہ تارکینِ وطن دراصل انسانی اسمگلروں کے ایک نئےحربے کا شکار ہیں۔ یہ انسانی اسمگلر قانون کی گرفت سے بچنے کے لیے مہاجرت کے سفر پر آمادہ اِن افراد کے ہاتھ میں، جن میں سے زیادہ تر کم عمر مہاجر ہوتے ہیں، کشتی کے پتوار تھما دیتے ہیں ۔
تقریباﹰ روزانہ ہی اطالوی حکام کشتیاں چلانے والے افراد کو حراست میں لیتے ہیں تاہم اِس حوالے سے وہ بھی پُر یقین نہیں کہ آیا یہ تارکینِ وطن ہی ہیں یا انسانی اسمگلرز۔ اگرچہ حراست میں لیے جانےوالے ان افراد کے حوالے سے جامع اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں تاہم اس سال صرف پوزالو کی بندرگاہ سے ہی 179 مبینہ انسانی اسمگلروں کو گرفتار کیا گیا۔ گزشتہ سال یہ تعداد 147 تھی۔
اطالوی پولیس اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ وہ انسانی اسمگلنگ کے اُن اصل ذمّہ داران تک نہیں پہنچ سکی ہے، جو اس غیر قانونی کاروبار کے ذریعے اچھا خاصا منافع کما رہے ہیں۔ کٹانیا میں ڈپٹی پراسیکیوٹر آندریا بونوموکا کہنا ہے کہ ابھی تک لیبیا میں پولیس ایک بھی انسانی اسمگلر کو گرفتار نہیں کر سکی ہے۔ بونومو کے مطابق انسانی اسمگلنگ کا جرم ثابت ہونے پر پندرہ سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
ایتھنز کا تھری اسٹار ہوٹل، اب مہاجرین کے پاس
تین سو سے زائد مہاجرین اور پناہ گزینوں نے یونانی دارالحکومت ایتھنز کے ایک سات منزلہ خالی ہوٹل کو اپنا مسکن بنا لیا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکن سٹی پلازہ ہوٹل میں داخل ہوئے اور اس پر قبضہ کر لیا۔
تصویر: Jodi Hilton/DW/Pulitzer Center
فیملی ہوٹل
سٹی پلازہ ہوٹل خالی پڑا تھا، مگر اپریل میں افغان، ایرانی، عراقی اور شامی مہاجرین اپنے اہل خانہ سمیت اس ہوٹل میں رہنے لگے۔ یہاں مقیم مہاجرین کے خاندان زیادہ تر بچوں اور معمر افراد کے ہم راہ ہیں۔
تصویر: Jodi Hilton/DW/Pulitzer Center
برسوں سے بند
یونانی اقتصادی بحران کے دوران اس ہوٹل کے مالک کو متعدد مالیاتی مسائل درپیش ہوئے، تو اس نے سٹی پلازہ ہوٹل بند کر کے یہ جائیداد بیچنے کی کوشش شروع کر دی۔ اب اس ہوٹل کے استقبالیہ پر مہاجرین کو خوش آمدید کہا جاتا ہے اور ان کے کمروں کی چابیاں ان کے حوالے کی جاتی ہیں۔
تصویر: Jodi Hilton/DW/Pulitzer Center
ہوٹل میں منتقلی
ایک شامی خاندان جو سٹی پلازہ ہوٹل میں منتقل ہوا ہے۔ متعدد افراد اس مہاجر بستی سے اس ہوٹل میں منتقل ہوئے جو اس کیمپ کی دگرگوں اور ابتر صورت حال کی شکایت کرتے رہے ہیں۔ مہاجر بستی میں نہ نکاسیء آب کا کوئی درست انتظام تھا، نہ سر چھپانے کی کوئی مناسب جگہ اور نہ ہی معقول مقدار میں خوراک۔
تصویر: Jodi Hilton/DW/Pulitzer Center
صفائی کا خیال رکھیے
ہر روز یہاں بسنے والے مہاجرین کمروں اور اس ہوٹل کی عمارت کی صفائی کرتے ہیں۔ دو شامی بچے، دس سالہ سیزر اور سات سالہ سدرا ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں جا جا کر مٹی، گرد اور دھول کو ختم کرنے میں مدد کرتے نظر آتے ہیں۔
تصویر: Jodi Hilton/DW/Pulitzer Center
چھت کی تلاش
کمپیوٹر کے ماہر اور مترجم علی جعفانی کی تعلق افغانستان سے ہے۔ ان کی اہلیہ وجیہہ اور دو بیٹے بھی ان کے ساتھ ہیں۔ یہ افراد پہلے ایتھنز کے پرانے ہوائی اڈے میں پناہ گزین تھے، تاہم اب یہ خاندان اس ہوٹل میں آن مقیم ہوا ہے۔ جعفانی کا کہنا ہے، جب انہوں نے افغانستان سے سفر کا آغاز کیا تو سرحدیں کھلی ہوئی تھی، تاہم تین ہفتے بعد جب وہ یونان پہنچنے تو صورت حال تبدیل ہو چکی تھی اور وہ یونان میں پھنس کر رہ گئے۔
تصویر: Jodi Hilton/DW/Pulitzer Center
رضاکار بھی موجود
اطالوی رضاکار اور شامی مہاجرین مل کر اس ہوٹل کے باورچی خانے میں کھانا پکانے میں مصروف ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر یہاں خیرات کی گئی خوارک پہنچتی ہے اور یہاں موجود یہ افراد حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق کھانا پکا کر یہاں مقیم افراد میں تقسیم کرتے ہیں۔
تصویر: Jodi Hilton/DW/Pulitzer Center
کھانے کا وقت
ہوٹل کے کھانے کے مقام پر یہ کھانا پیش کیا جاتا ہے، جہاں متعدد شہریتوں کے حامل افراد مل کر اسے نوش کرتے ہیں۔
تصویر: Jodi Hilton/DW/Pulitzer Center
بچوں کا کمرہ
رضاکاروں نے ہوٹل میں ایک کمرہ بچوں کے مشاغل کے لیے بھی وقف کر رکھا ہے۔ بچے یونان میں موجود مہاجرین کا ایک بڑا حصہ ہیں اور یہی اس ہوٹل میں موجود مہاجرین اور ان کے بچوں کی تعداد کے تناسب سے بھی ظاہر ہے۔
تصویر: Jodi Hilton/DW/Pulitzer Center
اب وقت سونے کا ہے
فیضان داؤد تین برس کے ہیں اور ان کے بھائی راشد کی عمر سات برس ہے۔ یہ دونوں شام سے ہجرت کر کے یونان پہنچنے والے ایک خاندان کے ہمراہ ہیں۔ سٹی پلازہ پہنچنے سے پہلے، یہ ایک ایسی عمارت میں مقیم تھے، جہاں سو مہاجرین رہ رہے تھے جب کہ وہاں بیت الخلا صرف ایک تھا۔ یہاں اس خان دان کے پاس بیت الخلا اور جائے حمام اپنا ہے۔