کشتی حادثے کی جامع تحقیقات کی جائیں، ہنگری کے وزیر اعظم
31 مئی 2019
ہنگری کے وزیر اعظم وکٹور اوربان نے دریائے ڈینیوب میں رونما ہونے والے کشتی حادثے کی جامع تحقیقات کا حکم جاری کر دیا ہے۔ دارالحکومت کے وسط میں واقع اس دریا میں رواں ہفتے کشتی کے ایک حادثے میں سات افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے بتایا ہے کہ ہنگری کے وزیر اعظم وکٹور اوربان نے سرکاری ریڈیو سے گفتگو میں کہا کہ وہ دریائے ڈینیوب میں رونما ہونے والے کشتی حادثے پر افسردہ ہیں۔
انہوں نے ہلاک شدگان افراد کے لواحقین سے تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ حادثہ ایک ایسے مقام پر ہوا، جہاں کسی مسافر کے زندہ بچنے کے امکانات انتہائی کم تھے۔۔۔ یہ ایک دھچکا ہے‘۔
اوربان نے مزید کہا کہ اس حادثے کی جامع تحقیقات کی جائیں، ’’میں نے حکام کو کہا ہے کہ وہ اس معاملے کی سخت اور مکمل چھان بین کریں‘‘۔ مقامی میڈیا نے بتایا ہے کہ ہلاک ہونے والے تمام سات افراد کا تعلق جنوبی کوریا سے تھا، جو سیاحت کی غرض سے اس یورپی ملک آئے تھے۔
ہنگری کی پولیس نے جمعرات 30 مئی کو بتایا تھا کہ اس کروز کے کپتان کو حراست میں لیا جا چکا ہے اور اس سے تفتیشی عمل جاری ہے۔
بتایا گیا ہے کہ یہ حادثہ بدھ کی شام کو اس وقت رونما ہوا، جب یہ کشتی ایک بڑی لگژری کروز سے جا ٹکرائی۔ جب یہ حادثہ رونما ہوا تو اس وقت طوفانی بارش جاری تھی۔ تب اس کشتی میں 33 جنوبی کوریائی سیاح اور گائیڈز کے ساتھ عملے کے دو ارکان بھی موجود تھے۔
بعد ازاں بتایا گیا کہ فوری امدادی کاموں کے نتیجے میں سات سیاحوں کو بچا لیا گیا جبکہ سات مارے گئے۔ جمعے کے دن حکام نے بتایا کہ اکیس افراد ابھی تک لاپتہ ہیں، جن میں انیس جنوبی کوریائی سیاح بھی شامل ہیں۔
ریسکیو اور امدادی ورکرز نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ لاپتہ افراد کے زندہ بچنے کا امکان انتہائی کم ہے۔ جمعے کے دن جنوبی کوریائی ریسکیو ٹیم اور وزارت خارجہ کے اہلکار بھی بوڈاپیسٹ پہنچ چکے ہیں۔ ان میں وزیر خارجہ کانگ کیانگ بھی شامل ہیں۔
ع ب / اب ا / خبر رساں ادارے
کروز کی سواری، ایک میلی عیاشی
ماحولیاتی تنظمیوں کی جانب سے کروز لائنر صنعت کو برسوں سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ ان لگژری کشتیوں سے پیدا ہونے والی فضائی آلودگی ہے۔
تصویر: picture-alliance / John Bolt / S
کروز کا سفر کیجیے، زمین تباہ کیجیے
نابو، جرمنی کی فطرت اور حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کی تنظیم، کی جانب سے سن 2017 کی کروز کشتیوں کی رینکنگ جاری کی گئی ہے، جس کے مطابق آلودگی کم کرنے کے اعتبار سے اس صنعت کی پیش رفت نہایت کم رہی ہے۔ 77 کروز جہازوں میں سے 76 زہریلی ایندھن کا استعمال کرتے نظر آئے۔ نابو کے مطابق اس طرح کے ایندھن کے استعمال سے ایک کروز جہاز ایک سے فاصلے پر اتنی آلودگی پیدا کرتا ہے، جتنا پانچ ملین گاڑیاں مجموعی طور پر۔
تصویر: NABU/Wattenrat/E. Voss
نایاب کروز
اے آئی ڈی اے نووا وہ واحد کروز ہے، جو ایندھن کے طور پر کم زہریلے ایندھن ایل این جی کا استعمال کرتا ہے۔ یہ مارکیٹ میں آنے والا نیا کروز ہے۔ اسے شمال مغربی جرمن علاقے پاپن برگ میں مائر شپ یارڈ نے بنایا ہے۔ اسے ایل این جی کروز جہاز کے سات نئی جنریشنز میں پہلا قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H.-C. Dittrich
کم تباہ کن
ٹی یو آئی ایک سیاحتی کروز مہیا کرنے والی کمپنی ہے۔ اس کمپنی نے ہاپاگ لیوئڈ کروز کے ساتھ مل کر کروز جہازوں سے خارج ہوتی ضرر رساں گیس نائٹرک ایسڈ میں کمی کی تکنیک پر کام کیا ہے۔ لنگرانداز ہونے پر یہ کمپنیاں الیکٹرک پاور کا استعمال کرتی ہیں۔
تصویر: Imago/S. Spiegl
سمندر کی تازہ ہوا؟
بہت سی کروز کمپنیوں نے اپنے جہازوں پر مضر ذرات یا ڈیزل پارٹیکیولیٹ فلٹرز نصب نہیں کیے ہیں۔ ان جہازوں سے اوپر کی فضا تازہ اور صاف نہیں ہوتی۔ ان جہازوں کے عرشے پر کھڑے ہو کر سانس لینا، کسی مصروف شاہ راہ پر سانس لینے سے بیس گنا زیادہ نقصان دہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Bäsemann
کپتان کے ٹیبل کے پاس ہوا بہتر ہے
نابو کے سروے میں اے آئی ڈی اے نووا کی تعریف کی گئی ہے اور مشورہ دیا گیا ہے کہ دیگر کروز کمپنیاں بھی اس پر عمل کریں۔ اگر دیگر کروز کمپنیوں نے بھی ایل پی جی کو ایندھن کے طور پر استعمال کیا، تو ساحلی علاقوں کے مکین بہتر ہوا میں سانس لے پائیں گے۔
تصویر: Colourbox
صاف سیارہ؟ مشکل ہے
ایل پی جی کے استعمال کو گو کے ماحولیاتی کمپنیاں ڈیزل پر فوقیت دیتی ہیں، تاہم بات ماحول کے تحفظ کی ہو، تو سچائی یہی ہے کہ یہ ایندھن بھی کوئی بہت زیادہ ماحول دوست نہیں ہے۔ یہ بات نہایت واضح ہے کہ اس صنعت کو ٹیکنالوجی کے شعبے میں اصلاحات اور تبدیلیاں درکار ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Boylan
یہاں کروز نہیں چلیں گے
نابو کے سربراہ لائف مِلر کا کہنا ہے کہ جب تک اس صنعت میں نئی ٹیکنالوجی نہیں لائی جاتی اس وقت تک کروز جہازوں پر پابندی عائد کرنا چاہیے۔ نابو کے مطابق زیادہ آلودگی پھیلانے والے کروز جہازوں پر پابندی عائد کر دی جانا چاہیے۔