کشتی پر سوار سو سے زائد روہنگیا مہاجرین کی گرفتاری
16 نومبر 2018
میانمار کے امیگریشن حکام نے ایک کشتی پر سوار ایک سو سے زائد روہنگیا مہاجرین کو حراست میں لے لیا ہے۔ اس اقدام کو میانمار کی حکومت کا ایک سخت اقدام قرار دیا گیا ہے۔
اشتہار
روہنگیا مہاجرین واپسی کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے
بنگلہ دیش میں سات لاکھ سے زائد روہنگیا مہاجرین پرتشدد حالات سے فرار ہو کر گزشتہ برس پہنچے تھے۔ کیمپوں میں مقیم روہنگیا مہاجرین کے ایک گروپ نے جمعرات پندرہ نومبر کو میانمار واپسی کے خلاف انکار کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
میانمار واپسی کے خلاف مہاجرین کا احتجاج
جمعرات پندرہ نومبر کو میانمار واپسی کے خلاف ڈیڑھ سو روہنگیا مہاجرین نے میانمار کی سرحد پر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرے کے دوران مظاہرین’ واپس نہیں جائیں گے‘ کے نعرے لگاتے رہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی واپسی کے عمل پر مطمئن نہیں
بنگلہ دیش اور میانمار نے بائیس سو مہاجرین کی واپسی پر اتفاق کیا تھا۔ اس واپسی کے عمل پر اقوام متحدہ کے علاوہ انسانی حقوق کی تنظمیوں نے عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوسے تنقید کی تھی۔ ان اداروں کے مطابق روہنگیا مہاجرین کی واپسی سے دوبارہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
روہنگیا اقلیت کا میانمار کی فوج کے ہاتھوں استحصال
سات لاکھ سے زائد روہنگیا مہاجرین میانمار کی راکھین ریاست سے اپنی جانیں بچا کر بنگلہ دیش اگس سن 2017 میں داخل ہوئے تھے۔ ان مہاجرین کا کہنا ہے کہ میانمار کی فوج اور بدھ شہریوں نے اُن کے خاندانوں کا قتلِ عام کیا اور اُن کی خواتین کی اجتماعی عصمت دری بھی کی۔ اقوام متحدہ کے ماہرین نے بھی ان واقعات میں نسل کشی کا الزام میانمار کی فوجی قیادت پر عائد کیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
’میں واپس نہیں جاؤں گا‘
پینتیس سالہ روہنگیا مہاجر نورلامین اپنی بیوی اور خاندان کے ہمراہ جمٹولی ریفیوجی کیمپ میں مقیم ہے۔ یہ کاکس بازار کے نواح میں ہے۔ نورلامین اور اس کے خاندان نے واضح کیا ہے کہ وہ اپنے خوف کی وجہ سے میانمار واپس نہیں جانا چاہتے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
دس لاکھ سے زائد روہنگیا ریفیوجی کیمپوں میں
بنگلہ دیشی بندرگاہی شہر کاکس بازار کے ریفیوجی کیمپ میں دس لاکھ سے زائد روہنگیا مہاجرین زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس باعث قدرے کمزور معاشی حالات والے ملک بنگلہ دیش کو اسں انسانی المیے سے نبردآزما ہونے میں شدید پیچیگیوں اور مشکلات کا سامنا ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS/M. R.l Hasan
5 تصاویر1 | 5
میانمار کے امیگریشن حکام نے جس کشتی کو سمندر میں روکا، وہ رنگون سے تیس کلومیٹر کے فاصلے پر تھی۔ کشتی پر ایک سو چھ روہنگیا مہاجرین سوار تھے۔ مقامی امیگریشن افسر نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ ان گرفتار ہونے والے روہنگیا افراد کا تعلق راکھین سے ہو سکتا ہے اور امکاناً یہ بنگالی ہیں جو راکھین ہی میں رہتے ہیں۔
اس کشتی کی تصاویر ایک خاتون رکن پارلیمنٹ اے میا میا میُو نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی ہیں۔ کشتی پر سوار خواتین نے اسکارف پہن رکھے ہیں۔ تصویر میں کشتی پر سوار بچے بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ پکڑی جانے والی کشتی پر پچاس مرد، اکتیس عورتیں اور پچیس بچے سوار تھے۔ یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ کشتی بنگلہ دیش کی جانب روانہ تھی یا اُس کی منزل ملائیشیا تھی۔
امدادی ورکروں کے مطابق گزشتہ ہفتے کے دوران بھی درجنوں روہنگیا مہاجرین نے کشتیوں پر سوار ہو کر ملائیشیا پہنچنے کی کوشش کی تھی۔ بنگلہ دیش میں اکتوبر کے بعد بارشوں کے موسم کے ختم ہونے پر اب سمندر قدرے پرسکون ہے اور ایسے میں بنگلہ دیش کے ریفیوجی کیمپوں اور میانمار سے روہنگیا نسل کے افراد ملائیشیا پہنچنے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں۔
بدھ مت کے ملک میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کو بنگالی قرار دیا جاتا ہے۔ اس باعث میانمار کی حکومت انہیں بنگلہ دیش کے غیر قانونی تارکین وطن قرار دیتی ہے۔ اس کے علاوہ میانمار کے حکومتی اور عوامی حلقے روہنگیا کو اپنے ملک کا کوئی نسلی اقلیتی گروپ ماننے سے بھی انکاری ہیں۔
اگست سن 2017 میں میانمار کی ریاست راکھین میں روہنگیا بستیوں کو فوجی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ فوج کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ملک کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث افراد کے خلاف سرگرم تھی۔ اس دوران سینکڑوں افراد کی ہلاکت اور کئی خواتین اور لڑکیوں کا جنسی استحصال بھی کیا گیا۔ سات لاکھ سے زائد روہنگیا مہاجرین میانمار سے جانیں بچا کر اس وقت بنگلہ دیش میں عارضی کیمپوں میں مقیم ہیں۔ ان کی واپسی کی مفاہمت بنگلہ دیش اور میانمار کی حکومتوں کے درمیان طے پا چکی ہے لیکن ابھی واپسی کا عمل شروع نہیں ہو سکا ہے۔