1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمور واقعہ: یہ بھی تو کوئی پوچھے کہ ’ٹرکایا‘ کیوں؟

18 نومبر 2020

کشمور واقعے کے ہیرو محمد بخش برڑو اور اس کی بیٹی کو انعام و اکرام سے ضرور نوازا جانا چاہیے، لیکن کیا کسی نے اس افسر سے یہ بھی پوچھا ہے کہ اس نے اس مظلوم ماں کے رابطہ کرنے پر ’پہلے اسے ٹرکایا’ کیوں؟ افسر اعوان کا بلاگ

Deutsche Welle | Redakteur Afsar Baig-Awan
تصویر: privat

ہر ماں اور ہر باپ جس کی بیٹی یا بیٹیاں ہيں یا ہر وہ انسان جو سینے میں دل رکھتا ہے، وہ سندھ کے علاقے کشمور میں پیش آنے والے واقعے پر جیسے دہل کر رہ گیا ہے۔ علاج کے لیے ایک ہسپتال کے بیڈ پر لیٹی گم صم بچی میں یا پھر اس ویڈیو میں جس میں یہ معصوم روح اپنے کپڑے اٹھا کر اپنی ماں کو خود کے ساتھ پیش آنے والے 'سلوک‘ کا بتا رہی ہے، ہر ماں اور ہر باپ کو اپنی بیٹی دکھائی دیتی ہے جو کسی بھی صاحب اولاد کے لیے بھیانک خواب سے کم نہیں۔

اس واقعے کی تفصیل سے ہر ایک آگاہ ہے، اس لیے اس پر بات کرنے کے بجائے میں کچھ اور پہلوؤں پر بات کرنا چاہتا ہوں جو شاید بنیاد ہیں اس طرح کے واقعات کی یا یوں کہیں کہ سب سے اہم اور مرکزی مسئلہ ہیں۔ کیوں تمام تر قانون سازی اور احتیاطی تدابیر کے بعد بھی اس طرح کے واقعات رکنے کا نام نہیں لے رہے۔ اگر اس سوال کا جواب تلاش کیا جائے تو اس کے پیچھے نظر آتا ہے ایک رویہ جسے کہتے ہیں 'ٹرکانا‘۔  

بچی کی بازیابی میں مرکزی کردار ادا کرنے والے سندھ پولیس کے اے ایس آئی محمد بخش برڑو اور ان کی بیٹی ریشماں برڑو کو پیر 16 نومبر کو کراچی میں منعقد ہونے والی ایک خصوصی تقریب میں نہ صرف ان کی بہادری پر تعریف و توصیف سے نوازا گیا، بلکہ ان کو اس پر 10 لاکھ روپے کا انعام بھی دیا گیا۔ اس لڑکی اور اے ایس آئی کے اس اقدام کو یقیناﹰ سراہا جانا چاہیے۔ لیکن ایک سوال ہے یا یوں کہیں کہ ایک لفظ ہے جو میرے دماغ سے چپک کر رہ گیا ہے اور وہ لفظ ہے 'ٹرکانا‘۔

پانچ سالہ بچی سے انسانیت سوز سلوک

جسمانی اور نفسیاتی اذیتوں میں قید غیر محفوظ بچے

ریپ جسمانی ہوس ہے یا طاقت کا اظہار؟‬

بچی کی بازیابی کے بعد جب اسے ہسپتال میں داخل کرایا گیا تو وہاں محمد بخش برڑو نے لاڑکانہ کے ایک صحافی محمد شہزاد کو ابتدائی انٹرویو دیتے ہوئے کہا، ''اصل میں یہ تھا کہ یہ (بچی کی والدہ تبسم مغل) میرے پاس تھانے آئی۔ میں نے اس کو پہلے ’ٹرکا‘ دیا تھا۔ لیکن یہ میرے گھر آ گئی میرے پیچھے۔ پھر ادھر رو رہی تھی۔ مجھے ترس آ گیا۔۔۔‘‘

یعنی کشمور کے تھانہ صدر کے اے ایس آئی محمد بخش برڑو نے انصاف کے لیے تھانے پہنچنے والی سائلہ تبسم مغل کا مسئلہ سننے کے بعد 'پہلے اسے ٹرکا دیا‘۔

بچی کی والدہ کے مطابق اسے اور اس کی بچی کو اغواء کرنے والوں نے جب اسے اس شرط کے ساتھ واپس جانے کی اجازت دی کہ وہ کوئی اور لڑکی لے کر آئے گی تو ہی اس کی بچی اسے واپس کی جائے گی، تو وہ کراچی واپس پہنچی اور اس نے تھانہ صدر کراچی سے رابطہ کیا۔ تبسم مغل کے بقول ڈی ایس پی تھانہ صدر کراچی نے ان سے کہا کہ معاملہ بہت سیریس ہے، بچی کی جان کو خطرہ ہے اس لیے واپس کشمور جائیں اور وہاں تھانہ صدر سے رابطہ کریں تاکہ وہ اس پر کوئی کارروائی کریں۔ پولیس اب اپنے ایک اے ایس آئی کے کارنامے کو اپنی نیک نامی کے لیے تو پیش کر رہی ہے مگر یہ سوال کیوں نہیں کوئی پوچھ رہی کہ تھانہ صدر کراچی نے ایک مجبور اور لاچار ماں کو 'ٹرکانے‘ کی بجائے اس کی دادرسی کیوں نہیں کی اور پولیس کے اندرونی نظام کو اس جرم کی بیخ کنی کے لیے کیوں نہیں استعمال کیا گیا۔

محمد بخش برڑو کی بہادری پر اسے انعام و اکرام سے ضرور نوازا جانا چاہیے، لیکن کیا کسی پولیس افسر نے، میڈیا نے یا کسی متعلقہ ادارے نے اس پولیس افسر سے یہ بھی پوچھا ہے کہ اس مظلوم خاتون نے جب اس سے رابطہ کیا تو قانونی طور پر تو وہ اس کا پابند تھا کہ اس پر فوری ایکشن لیتا اور بچی کی بازیابی کے لیے ہر ممکن طریقہ اپناتا۔ 'ٹرکایا‘ اس نے کس قانون کے تحت؟ اور اگر وہ خاتون اس کے پیچھے اس کے گھر نہ پہنچتی اور رو رو کر اس قدر منت سماجت نہ کرتی کہ اس پولیس افسر کے خاندان کو دباؤ ڈالنا اور اس کی مدد کرنے پر آمادہ کرنا پڑا، تو ایسی صورت میں کیا ہواتا؟ اور اس صورت میں اگر بچی کو کچھ ہو جاتا تو اس کا ذمہ دار کون ہوتا؟

کیا کسی نے یہ بھی سوچا ہے کہ اس واقعے کو گزرے دس دن ہو چکے تھے اور تبسم مغل نے نا صرف کشمور پولیس سے رابطہ کیا جس نے حسب توقع اسے 'ٹرکا‘ دیا پھر اس نے ایک مقامی مدرسے کا دروازہ بھی مدد کے لیے کھٹکایا مگر وہاں سے بھی اسے یہ کہہ کر 'ٹرکا‘ دیا گیا کہ یہ خطرناک معاملہ ہے اور پولیس ہی اس کی مدد کر سکتی ہے۔ یہ مظلوم خاتون کراچی پولیس کے پاس بھی پہنچتی ہے جہاں سے پھر اسے 'ٹرکا‘ دیا جاتا ہے اور کشمور پولیس کے پاس واپس جانے کو کہا جاتا ہے۔ پھر جب اے ایس آئی محمد بخش بڑرو اپنی ذمہ داری نبھانے کے لیے نہیں بلکہ ترس کھا کر اس خاتون کی مدد پر آمادہ ہوتا ہے اور ایک چھوٹی سی بچی کو جانوروں سے بھی بدتر سلوک کا شکار ہوجانے کے بعد بازیاب کرا لیا جاتا ہے تو اس موقع پر جو ویڈیو بنتی ہے، اس پر پورے ملک میں ہر ایک کی انسانیت اور قانون پسندی جاگ جاتی ہے۔

اگر یہ واقعہ یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر نا آتی تو کیا پھر بھی ہمارا نظام یہ پھرتیاں دکھاتا جو اب کیمرے کے سامنے دکھائی جا رہی ہیں؟ یا پھر ہمارا نظام روزانہ کے واقعات کی طرح  اسے بھی'ٹرکا‘ دیتا۔ پھر بدقسمتی کی بات یہ ہے اور جس پر اعتراض بھی بالکل درست کیا جا رہا ہے کہ اس معصوم بچی اور اس کی ماں کی شناخت ویڈیو فوٹیج کے ذریعے عام نہیں کی جانا چاہیے تھی۔ لیکن یوں لگتا ہے کہ معاملے کو مزید سنسنی خیز بنانے کی دوڑ میں میڈیا اور صحافیوں نے صحافتی اصول و ضوابط کو بھی 'ٹرکا‘ ہی دیا۔

پھر اس تمام واقعے کا ایک اور خوفناک پہلو بھی ہے جس پر میں نے تو اب تک کہیں کوئی بات نہیں سنی۔ ملزم رفیق ملک کو ایک شریک ملزم خیر اللہ کو گرفتار کرنے کے لیے لے جایا جاتا ہے تو خیر اللہ پولیس کو دیکھتے ہی فائرنگ کر دیتا ہے۔ کوئی پولیس اہلکار گولی کی زد میں نہیں آتا البتہ رفیق ملک کئی ایک گولیاں لگنے کے سبب موقع پر ہی مارا جاتا ہے۔ میرا تو خیال ہے کہ سندھ پولیس نے مناسب تفتیش کرتے ہوئے سارے معاملے کی حقیت اور محرکات کو جاننے کی کوشش کرنے کے بجائے پوری پاکستانی قوم کو یہاں بھی 'ٹرکا‘ ہی دیا ہے۔

پولیس، حکومت اور ذمہ دار ادارے ہر جائز اور ضروری کام کرنے کے بجائے عوام کو 'ٹرکاتے‘ رہیں، مگر مت بھولیے یہ ظلم ایک نا ایک دن آپ تک، آپ کے خاندان تک اور آپ کے بچوں تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ ’ٹرکانے‘ کی روایت کو اب 'ٹرکا‘ دیا جائے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں