ہدف سے چپک جانے والے بم، کشمير ميں بھارتی دستے خوف ميں مبتلا
28 فروری 2021
بھارتی حکام کو خدشہ ہے کہ ريموٹ کنٹرول کی مدد سے چلنے والے چھوٹے سائز کے بم بھارت کے زير انتظام کشمير ميں عليحدگی پسندی کو ايک نئی تحريک دے سکتے ہيں۔ ايسے بموں کو ’چپکُو بم‘ کہا جا رہا ہے۔
اشتہار
چھوٹے، مقناطيس کی مدد سے گاڑيوں سے چپک جانے والے اور ريموٹ کنٹرول کی مدد سے چلنے والے 'اسٹکی‘ یا 'چپکُو‘ بم ان دنوں بھارتی حکام کے ليے ايک مسئلہ بنے ہوئے ہيں۔ بھارت کے زير انتظام کشمير میں ايک پوليس افسر وجے کمار کے بقول ايسے بم اپنی چھوٹی ساخت کے باوجود کافی طاقت ور ہوتے ہيں۔ وجے کمار نے بتايا، ''ايسے بموں کی آمد اور استعمال سے کشمير ميں سکيورٹی کی صورتحال ضرور متاثر ہو گی کيونکہ اس خطے ميں پوليس اور سکيورٹی دستوں اپنی گاڑيوں میں کافی زیادہ نقل و حرکت کرتے ہیں۔‘‘
اشتہار
'اسٹکی بم‘ ہیں کيا؟
'اسٹکی بم‘ کی اصطلاح ايسے بموں کی ليے استعمال کی جا رہی ہے جو اپنے ہدف کے ساتھ چپکنے کے صلاحيت کے حامل ہوتے ہيں اور ان کے ذریعے دور سے ہی دھماکا کیا جا سکتا ہے۔ ايسے بم افغانستان ميں تواتر سے استعمال کيے جاتے رہے ہيں۔ گزشتہ کچھ عرصے ميں ججوں، سکيورٹی فورسز کے اہلکاروں، صحافيوں اور مخصوص اہداف کو نشانہ بنانے کے ليے ايسے ہی بم استعمال کیے جا رہے ہيں۔ ايک طرف تو ان سے سويلين ہلاکتوں ميں کمی آئی ہے مگر ساتھ ہی خوف کا احساس بھی بڑھ گيا ہے۔
'اسٹکی بم‘ کشمير کيسے پہنچے؟
کشمير ميں حال ہی ميں ايک کارروائی کے دوران پندرہ ايسے بم برآمد ہوئے۔ ايک بھارتی سکيورٹی اہلکار نے اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر بتايا کہ پکڑے گئے تمام بم کشميری ساخت کے يا مقامی سطح پر تيار کردہ نہيں تھے۔ اس اہلکار نے دعویٰ کيا، ''ان سب کو سرنگوں کے ذريعے يا ڈرون طياروں کی مدد سے پہنچايا گيا تھا۔‘‘ خبر رساں ادارے روئٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق غالباً اس بھارتی اہلکار کا اشارہ یہ تھا کہ يہ بم شاید روايتی حريف ملک پاکستان سے اسمگل کيے جا رہے ہيں۔
کشمير کے ایک حصے کا انتظام بھارت کے پاس ہے اور ایک حصے کا پاکستان کے پاس۔ دونوں ملکوں کے کشيدہ تعلقات کی ايک کليدی وجہ کشمير پر اختلافات ہيں۔ بھارت کا الزام ہے کہ پاکستان عليحدگی پسندی کی تحريک کی عسکری پشت پناہی کرتا ہے جبکہ پاکستان اس الزام کو مسترد کرتا آيا ہے۔
پاک بھارت کشيدگی کی مختصر تاريخ
04:32
بھارتی خدشات کيا ہيں؟
بھارت کے زير انتظام کشمير دنيا کے ان خطوں ميں شامل ہے جہاں تعيات فوجی دستوں کی تعداد بہت ہی زيادہ ہے۔ 2019ء ميں اس خطے کی خصوصی آئينی حيثيت کے خاتمے اور مقامی سطح پر احتجاجی تحريک کے باعث کشمير ميں مزيد فوجی دستے تعينات کر دیے گئے تھے۔
حکام کو خدشہ ہے کہ 'اسٹکی‘ یا 'چپکُو بم مقناطيس کی مدد سے باآسانی سکيورٹی دستوں کی گاڑیوں سے چپک سکتے ہيں اور يوں ايسی گاڑياں آسان ہدف بن سکتی ہيں۔ چوں کہ کشمير ميں بھارتی فوج اور فوجی ساز و سامان کی نقل و حرکت معمول کی بات ہے، اس لیے یہ سب مسلح عليحدگی پسندوں کے ہدف ہو سکتے ہيں۔
وجے کمار کا کہنا ہے کہ نئی طرز کے اس ہتھيار کے تناظر ميں حکام اپنی حکمت عملی تبديل کرنے پر مجبور ہو گئے ہيں۔ رکاوٹيں کھڑی کر کے فوجی اور نجی ٹريفک کے راستوں ميں فاصلہ بڑھايا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی حساس علاقوں ميں اضافی کيمرے بھی نصب کيے جا رہے ہيں۔ فوجی قافلوں کی نقل و حرکت کے نگرانی کے ليے ڈرون بھی استعمال ميں ہيں۔
دنیا میں سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے والے ممالک
سویڈش تحقیقی ادارے ’سپری‘کی تازہ رپورٹ کے مطابق سن 2002 کے مقابلے میں سن 2018 میں ہتھیاروں کی صنعت میں 47 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ پانچ برسوں کے دوران سعودی عرب نے سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے میں بھارت کو پیچھے چھوڑ دیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
1۔ سعودی عرب
سعودی عرب نے سب سے زیادہ عسکری ساز و سامان خرید کر بھارت سے اس حوالے سے پہلی پوزیشن چھین لی۔ سپری کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے دوران فروخت ہونے والا 12 فیصد اسلحہ سعودی عرب نے خریدا۔ 68 فیصد سعودی اسلحہ امریکا سے خریدا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/ H. Jamali
2۔ بھارت
عالمی سطح پر فروخت کردہ اسلحے کا 9.5 فیصد بھارت نے خریدا اور یوں اس فہرست میں وہ دوسرے نمبر پر رہا۔ سپری کے مطابق بھارت اس دوران اپنا 58 فیصد اسلحہ روس، 15 فیصد اسرائیل اور 12 فیصد اسلحہ امریکا سے درآمد کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/epa
3۔ مصر
مصر حالیہ برسوں میں پہلی مرتبہ اسلحہ خریدنے والے ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہوا۔ مصر کی جانب سے سن 2014 اور 2018ء کے درمیان خریدے گئے اسلحے کی شرح مجموعی عالمی تجارت کا تیرہ فیصد بنتی ہے۔ اس سے پہلے کے پانچ برسوں میں یہ شرح محض 1.8 فیصد تھی۔ مصر نے اپنا 37 فیصد اسلحہ فرانس سے خریدا۔
تصویر: Reuters/Amir Cohen
4۔ آسٹریلیا
مذکورہ عرصے میں اس مرتبہ فہرست میں آسٹریلیا کا نمبر چوتھا رہا اور اس کے خریدے گئے بھاری ہتھیاروں کی شرح عالمی تجارت کا 4.6 فیصد رہی۔ آسٹریلیا نے 60 فیصد اسلحہ امریکا سے درآمد کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Nearmy
5۔ الجزائر
شمالی افریقی ملک الجزائر کا نمبر پانچواں رہا جس کے خریدے گئے بھاری ہتھیار مجموعی عالمی تجارت کا 4.4 فیصد بنتے ہیں۔ اس عرصے میں الجزائر نے ان ہتھیاروں کی اکثریت روس سے درآمد کی۔
تصویر: picture-alliance/AP
6۔ چین
چین ایسا واحد ملک ہے جو اسلحے کی درآمد اور برآمد کے ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہے۔ سن 2014 اور 2018ء کے درمیان چین اسلحہ برآمد کرنے والا پانچواں بڑا ملک لیکن بھاری اسلحہ خریدنے والا دنیا کا چھٹا بڑا ملک بھی رہا۔ کُل عالمی تجارت میں سے 4.2 فیصد اسلحہ چین نے خریدا۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua/Pang Xinglei
7۔ متحدہ عرب امارات
متحدہ عرب امارات بھی سعودی قیادت میں یمن کے خلاف جنگ میں شامل ہے۔ سپری کے مطابق مذکورہ عرصے کے دوران متحدہ عرب امارات نے بھاری اسلحے کی مجموعی عالمی تجارت میں سے 3.7 فیصد اسلحہ خریدا جس میں سے 64 فیصد امریکی اسلحہ تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Emirates News Agency
8۔ عراق
امریکی اور اتحادیوں کے حملے کے بعد سے عراق بدستور عدم استحکام کا شکار ہے۔ عالمی برادری کے تعاون سے عراقی حکومت ملک میں اپنی عملداری قائم کرنے کی کوششوں میں ہے۔ سپری کے مطابق عراق بھاری اسلحہ خریدنے والے آٹھواں بڑا ملک ہے اور بھاری اسلحے کی خریداری میں عراق کا حصہ 3.7 فیصد بنتا ہے۔
تصویر: Reuters
9۔ جنوبی کوریا
سپری کی تازہ فہرست میں جنوبی کوریا سب سے زیادہ ہتھیار خریدنے والا دنیا کا نواں بڑا ملک رہا۔ اسلحے کی مجموعی عالمی تجارت میں سے 3.1 فیصد اسلحہ جنوبی کوریا نے خریدا۔ پانچ برسوں کے دوران 47 فیصد امریکی اور 39 فیصد جرمن اسلحہ خریدا گیا۔
تصویر: Reuters/U.S. Department of Defense/Missile Defense Agency
10۔ ویت نام
بھاری اسلحہ خریدنے والے ممالک کی فہرست میں ویت نام دسویں نمبر پر رہا۔ سپری کے مطابق اسلحے کی عالمی تجارت میں سے 2.9 فیصد حصہ ویت نام کا رہا۔
پاکستان گزشتہ درجہ بندی میں عالمی سطح پر فروخت کردہ 3.2 فیصد اسلحہ خرید کر نویں نمبر پر تھا۔ تاہم تازہ درجہ بندی میں پاکستان نے جتنا بھاری اسلحہ خریدا وہ اسلحے کی کُل عالمی تجارت کا 2.7 فیصد بنتا ہے۔ پاکستان نے اپنے لیے 70 فیصد اسلحہ چین، 8.9 فیصد امریکا اور 6 فیصد اسلحہ روس سے خریدا۔