کشمير ميں پوليس مقابلوں ميں شہريوں کی ہلاکت، معاملہ کچھ اور
5 فروری 2022
پاکستان ميں ہر سال پانچ فروری کو کشمير کے ساتھ يکجہتی کا دن منايا جاتا ہے۔ بھارت کے زير انتظام کشمير ميں مسلح عليحدگی پسند تحريک جاری ہے مگر بھارتی فوج پر بھی انسانی حقوق کی سنگين خلاف ورزيوں کے الزمات ہيں۔
تصویر: Tauseef Mustafa/AFP
اشتہار
سن 2020ء ميں موسم گرما کی ايک صبح ابرار چوہان معمول کے وقت سے ذرا پہلے اٹھ گيا۔ بھارت کے زير انتظام کشمير کا رہائشی چوہان چاہتا تھا کہ روانگی سے قبل ذرا دير اپنے چھوٹے بيٹے کے ساتھ کھيل لے۔ وہ اپنے بہنوئی کے ساتھ سيب کے کھيتوں ميں کام کرنے کے ليے نکلا اور پھر کبھی لوٹ کر واپس نہ آيا۔ ابرار کی بيوی شيريں اختر بتاتی ہيں، ''ميں نے ان سے کہا کہ وہ ہميں تنہا چھوڑ کر نہ جائيں مگر وہ گھر ميں کچھ تعمير کا کام کرانے اور ہمارے بيٹے کو کسی اچھے اسکول ميں داخلہ دلانے کے ليے کچھ رقم جمع کرنا چاہتے تھے۔‘‘
ابرار چوہان ان تين افراد ميں سے ايک تھا، جنہيں بھارتی فوج نے سن 2020 ميں 17 جولائی کے روز شوپياں ميں سيب کے باغات ميں قائم ايک پہاڑی پر واقع ايک مکان ميں ہلاک کر ديا تھا۔ واقعے کے بعد بھارتی فوج نے بيان جاری کيا کہ اس نے 'پاکستانی جنگجوؤں‘ کو ہلاک کر ديا ہے، جو ان پر فائرنگ کر رہے تھے اور جن سے اسلحہ برآمد ہوا۔ نعشوں کی تصاوير سے ان کی شناخت ہوئی، تو وہ 25 سالہ ابرار چوہان، اس کا 16 سالہ بہنوئی ابرار خان اور 21 سالہ امتياز حسين نکلے۔
اس واردات کے بعد خطے ميں کافی احتجاج ديکھا گيا۔ تفتيش شروع کی گئی تاکہ اس بات کی جڑ تک پہنچا جا سکے کہ ان تينوں کو، جن کا پاکستان سے کوئی تعلق نہ تھا، بھارتی فوج نے کيوں قتل کيا۔ پھر دسمبر سن 2020 ميں تحقيقات ختم ہوئيں تو پتا چلا کہ ان تينوں کو ايک اسکيم سے فائدہ حاصل کرنے کے ليے قتل کيا گيا تھا، جس ميں جنگجوؤں کو ہدف بنانے پر بھارتی فوج کے افسران کو نوازا جاتا تھا۔ چند کيسز ميں شہريوں کو جنگجو بتا کر انہيں قتل کر ديا جاتا تھا، صرف انعام کی رقم وصول کرنے کی خاطر۔
اس مخصوص واقعے ميں دو سويلين مخبروں اور ايک فوجی افسر پر الزام ہے کہ انہوں نے قريب 27 ہزار ڈالر کا انعام وصول کرنے کی خاطر يہ جعلی ڈھونگ رچايا۔ پوليس کے مطابق فوج کے کپتان بھپندرا سنگھ نے اپنے اعلٰی افسران تک بھی اس واقعے کی جعلی معلومات پہنچائيں۔
شيريں اختر اور ابرار چوہانتصویر: privat
بھارت کے زير انتظام کشمير ميں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فوجيوں کے حوالے سے کسی بھی قسم کی تفتيش يا قانونی کارروائی کے ليے 'آرمڈ فورسز اسپيشل پاورز ايکٹ‘ کے تحت نئی دہلی حکومت سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ فوج کا موقف ہے کہ کارروائی کے خوف کے بغير جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کرنے کے ليے يہ ايکٹ لازمی ہے۔ ناقدين کی رائے ميں يہ نا مناسب يا ناکافی وجوہات کی بنا پر فوج کو قتل کرنے، گرفتار کرنے اور بلا وارنٹ تلاشی لينے کے اختيارات ديتا ہے۔ شوپياں والے واقعے ميں بھی فوج نے اسی قانون کا سہارا ليا۔
’جموں و کشمير کے انضمام کا ادھورا خواب پورا ہو گيا‘
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں دفعہ 370 کے خاتمے کو ایک سال مکمل ہو گیا ہے۔ اس دوران کئی احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ بھارتی سکیورٹی اہلکار اور کشمیری عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپوں میں کئی ہلاکتیں بھی ہوئیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Dar Yasin
وادی میں مکمل لاک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا تھا
ایک سال قبل بھارتی حکومت نے بھارتی زیر انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے وادی میں مکمل لاک ڈاؤن نافذ کر دیا تھا۔ کشمیریوں کے پاس یہ خصوصی حیثیت صدراتی حکم کے تحت گزشتہ ستر سالوں سے تھی۔ بھارتی حکومت نے اس فیصلے کے فوری بعد کشمیری رہنماؤں کو ان کے گھروں میں نظر بند کر دیا ور بڑی تعداد میں گرفتاریاں بھی کی گئیں۔
تصویر: AFP/R. Bakshi
احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع
لاک ڈاؤن کے فوری بعد بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ بھارتی سکیورٹی فورسز کی جانب سے مظاہرین پر شدید کریک ڈاؤن کیا گیا۔ احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بھارت کے دیگر علاقوں میں بھی پھیل گیا۔ مودی مخالف جذبات رکھنے والے سرگرم کارکنوں اور شہریوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو واپس بحال کیا جائے۔
تصویر: Imago Images/S. Majeed
اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا اجلاس
اگست 2019ء میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے بھارت کے زیر انتطام کشمیر پر ایک خصوصی اجلاس منعقد کیا جس میں یہ اعلان کیا گیا کہ بھارت کا یہ دعویٰ درست نہیں ہے کہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Nietfeld
بھارتی سکیورٹی فورسز کی جانب سےشہریوں پر مبینہ تشدد
لاک ڈاؤن کے پہلے ماہ ہی برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی جانب سے انکشاف کیا گیا کہ بھارتی افواج کی جانب سے سویلین شہریوں پر تشدد کیا گیا۔ اس رپورٹ میں بی بی سی نے ان مقامی افراد سے گفتگو کی جنہوں نے دعویٰ کیا کہ ان پر بھارتی سکیورٹی فورسز کی جانب سے شدید تشدد کیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا
ستمبر دو ہزار انیس میں پاکستان، برطانیہ، بھارت اور خود بھارتی زیر انتطام کشمیر میں بھی احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔ لاک ڈاؤن کے باعث کشمیر کی معیشت بد حالی کا شکار ہونا شروع ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
نیشنل کانفرس کے اراکین کو ان کی قیادت سے ملاقات کی اجازت
گزشتہ برس اکتوبر میں بھارتی حکومت نے نیشنل کانفرس کے اراکین کو ان کی قیادت سے ملاقات کی اجازت دی۔ اسی ماہ پولیس نے جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کی بہن اور بیٹی سمیت کئی خواتین کو احتجاجی مظاہرہ کرنے پر گرفتار کر لیا۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
جموں و کشمير اب دو مختلف خطے بن گئے
اکتیس اکتوبر کو سرکاری طور پر بھارتی وفاقی حکومت کے احکامات لاگو ہوئے اور جموں و کشمير اب دو مختلف خطے بن گئے، ایک جموں و کشمیر اور دوسرا لداخ، جن کے انتظامات اب براہ راست وفاقی حکومت کے ہاتھ میں چلے گئے۔ اس حوالے سے بھارتی وزير داخلہ امت شاہ نے اس پيش رفت پر کہا، ’’جموں و کشمير کے انضمام کا ادھورا خواب آج پورا ہو گيا ہے۔‘‘
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustfa
مقامی معیشت کو تقریباﹰ ڈیڑھ بلین ڈالر کے برابر نقصان
نومبر میں جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق مودی حکومت کی طرف سے اگست 2019ء میں جموں کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت کے خاتمے کے اعلان کے بعد صرف کشمیر میں سکیورٹی شٹ ڈاؤن کے نتیجے میں مقامی معیشت کو تقریباﹰ ڈیڑھ بلین ڈالر کے برابر نقصان ہوا تھا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/M. Mattoo
انٹرنیٹ اور فون سروسز کو بحال کر دیا گیا
نومبر میں ہی بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع لداخ کے خطہ کرگل میں ایک سو پینتالیس روز کے بعد انٹرنیٹ اور فون سروسز کو بحال کر دیا گیا۔ تاہم وادی کمشیر میں اس پر پابندیاں عائد رہیں۔ دسمبر میں اعلان کیا گیا کہ کشمیر میں موبائل فون کی ٹیکسٹ میسیجنگ سروس بحال کی جائے گی تاہم یہ بحالی بہت محدود تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/X. Galiana
اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا اجلاس
جنوری دو ہزار بیس میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے ایک مرتبہ پھر کشمیر کی صورتحال پر اجلاس بلایا۔ اس موقع پر چین کی جانب سے کہا گیا کہ کشمیر کی قمست کا فیصلہ وہاں کی عوام کو کرنا چاہیے اور چین کشمیریوں کے حق رائے دہی کی حمایت کرتا ہے۔
تصویر: Imago Images/ZUMA Press/F. Khan
پاکستانی وزیر اعظم کا خطاب
رواں سال فروری میں بھارتی زیر انتظام کشمیر میں لاک ڈاؤن کو چھ ماہ سے زائد کا عرصہ گزر گیا۔ پاکستانی وزیر اعظم نے پانچ فروری کو مظفرآباد میں پاکستانی زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنا ہی ایک دن کشمیر کی آزادی کا سبب بنے گا۔‘‘
تصویر: AFP/Getty Images
عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت دیگر رہنماؤں کی نظر بندی کا سلسلہ جاری
بھارت کی جانب سے عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت دیگر رہنماؤں کی نظر بندی کا سلسلہ جاری ہے۔ فروری میں ہی امریکی صدر کی جانب سے کشمیر کی صورتحال کا حل نکالنے کے لیے ثالثی کے کردار کی پیش کش کی گئی۔
تصویر: Getty Images/S. Hussain
انٹرنیٹ پر عائد پابندیوں میں کچھ کمی
اس سال مارچ میں انٹرنیٹ پر عائد پابندیوں میں کچھ کمی کی جاتی ہے۔ لیکن انٹرنیٹ کی انتہائی سست رفتار کے ساتھ۔
تصویر: Reuters/A.
نئے قوانین کا نفاظ
اپریل میں بھارتی حکومت کی جانب سے نئے قوانین کا نفاظ کیا جاتا ہے۔ نئے قانون کے تحت کوئی بھی شخص جو جموں اور کشمیر میں پندرہ سال تک رہائش پذیر ہوگا وہ کشمیری ڈومیسائل کا اہل بن جائے گا۔
تصویر: AFP/T. Mustafa
بھارتی فوجیوں اور چار کشمیری جنگجوؤں کی ہلاکت
مئی میں بھارتی سکیورٹی فورسز اور کشمیری جنگجوؤں کے درمیان جھڑپ کے نتیجے میں پانچ بھارتی فوجیوں اور چار کشمیری جنگجوؤں کی ہلاکت رپورٹ کی گئی۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua News Agency/J. Dar
’بھارت جمہوریت کے امتحان میں ہار گیا’
اسی سال جولائی میں 'فورم فار ہیومن رائٹس ان جے اینڈ کے‘ نامی انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا تھا کہ کشمیر کئی لحاظ سے بھارتی جمہوریت کے لیے ایک امتحان رہا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بھارت اس امتحان میں بری طرح ناکام ثابت ہوا ہے۔
تصویر: AFP/T. Mustafa
بچے کی موجودگی میں اس کے نانا کی ہلاکت
جولائی میں ہی ایک چھوٹے بچے کی موجودگی میں اس کے نانا کی ہلاکت پر کشمیر میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ اس بچے کے نانا سکیورٹی افواج اور عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپ کا مبینہ طور پر نشانہ بن گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
چار اور پانچ اگست کے دوران سخت کرفیو نافذ
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں چار اور پانچ اگست کے دوران سخت کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ گزشتہ برس پانچ اگست کو ہی کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرتے ہوئے اسے وفاقی حکومت کے زیر انتظام علاقہ بنا دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
’یوم استحصال‘
پاکستان کی جانب سے پانچ اگست کو ’یوم استحصال‘ کہا جا رہا ہے۔ آج پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا،’’ کشمیر کا معاملہ ہر فورم پر اٹھاتے رہیں گے۔‘‘ وزیر اعظم پاکستان نے ملک کا ایک نیا ’سیاسی نقشہ‘ منظر عام پر لایا ہے جس میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو پاکستان کا حصہ دکھایا گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
19 تصاویر1 | 19
شيريں اختر نے ڈی ڈبليو سے بات کرتے ہوئے کہا، ''شروع ميں ہميں انصاف کی اميد تھی۔ مگر جب يہ کيس فوجی عدالت منتقل کيا گيا، تو ہميں يہ احساس ہوا کہ يہ کيس اس لمبی فہرست کی نظر ہو جائے گا، جو کشمير ميں بھارتی فوج کے جعلی مقابلوں کی ہے۔ اور انصاف نہيں مل پائے گا۔‘‘
انسانی حقوق کے ليے سرگرم کارکن ورندا گروور نے ڈی ڈبليو کو بتايا کہ 'آرمڈ فورسز اسپيشل پاورز ايکٹ‘ فوج کو بے انتہا اختيارات ديتا ہے۔ ''بھارتی فوجی جعلی مقابلوں ميں جنسی زيادتيوں، تشدد اور قتل کی مرتکب ہوئے ہيں اور وہ بھی اپنے خلاف کارروائی کے خوف کے بغير۔‘‘
اسی طرح کشمير کے ايک اور رہائشی 45 سالہ عبدالرشید خان کا کہنا ہے کہ قريب 22 سال قبل چار ديگر شہريوں کے ہمراہ ان کے والد کو بھارتی فوج کے اہلکاروں نے قتل کر ديا تھا۔ يہ واقعہ جنوبی کشمير ميں پيش آيا تھا اور اس کے بعد پھوٹنے والے مظاہروں ميں بھی آٹھ افراد مارے گئے تھے۔ سن 2007ء ميں پانچ فوجی افسران پر مظاہرين کو قتل کرنے کے ليے فرد جرم عائد کی گئی مگر 'آرمڈ فورسز اسپيشل پاورز ايکٹ‘ کے تحت فوج نے معاملہ فوجی عدالت منتقل کرا ليا اور پھر تمام الزامات خارج کر ديے گئے۔
ريٹائرڈ فوجی جنرل عطا حسنين نے ڈی ڈبليو کو بتايا کہ يہ قانون خطرناک ماحول ميں فوجيوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ ان کے بقول کشمير ميں جيسے حالات ہيں، وہاں فوجيوں سے غلطياں ہو سکتی ہيں۔ بھارتی فوج ميں سری نگر کور کے کمانڈر ليفٹيننٹ جنرل ڈی پی پانڈے نے حال ہی ميں کہا تھا کہ جب تک فوج انسداد دہشت گردی سے متعلق آپريشنز ميں مصروف ہے، 'آرمڈ فورسز اسپيشل پاورز ايکٹ‘ لازمی ہے۔ ان کے بقول جب سلامتی کی صورت حال بہتر ہو گی تو حکومت اس پر دوبارہ نظر ڈال سکتی ہے کہ آيا اس قانون کی ضرورت ہے يا نہيں۔