کشمیر: پاکستانی میڈیا سے بات کرنے پر حریت رہنما گرفتار
4 مارچ 2022بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ایک اور سرکردہ علیحدگی پسند رہنما غلام احمد ڈار کو پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔ پولیس نے گیلانی گروپ کی حریت کانفرنس کے نائب چیئرمین پر پاکستانی میڈیا پر اشتعال انگیز بیانات دینے جیسے الزامات عائد کیے ہیں۔
پولیس کے مطابق چند روز قبل غلام احمد ڈار کو سرینگر کے بٹہ مالو علاقے میں ان کی رہائش گاہ سے حراست میں لیا گیا تھا اور پھر انہیں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔
پی ایس اے کے تحت گرفتار شخص پر بغیر کوئی مقدمہ چلائے دو برس تک قید میں رکھا جا سکتا ہے اور پھر اگر ضرورت ہو تو عدالت کے سامنے پیش کرنے کے بغیر ہی اس میں توسیع بھی کی جا سکتی ہے۔
مودی حکومت نے کشمیر کی تمام علیحدگی پسند تنظیموں کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ ان جماعتوں کے بیشتر رہنما، سینکڑوں کارکنان اور انسانی حقوق سے وابستہ افراد عدالتی چارہ جوئی کے بغیر برسوں سے جیلوں میں ہیں۔
ڈار کے خلاف الزامات کیا ہیں؟
جموں کشمیر پولیس کے سینیئر حکام کے مطابق غلام احمد ڈار کے خلاف، ''وادی کشمیر کے امن عامہ، بالخصوص سری نگر شہر کے امن کو نقصان پہنچانے والے بیانات دینے'' کے لیے مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق حریت رہنما نے کشمیر کی صورت حال سے متعلق ریڈیو پاکستان سے بات چیت کی تھی جو 25 فروری کو نشر کی گئی اور انہیں بیانات کے پس منظر میں انہیں گرفتار کیا گیا۔ فی الوقت انہیں سرینگر کی سینٹرل جیل میں رکھا گیا ہے۔
ریڈیو پاکستان سے بات چیت میں غلام احمد ڈار نے وادی کشمیر میں بھارتی فورسز کی جانب سے کشمیری رہنماؤں اور کارکنان کی اندھا دھند گرفتاریوں اور اس عمل میں تیزی سے اضافے کی شدید الفاظ میں مذمت کی تھی۔
پولیس نے پی ایس اے ڈوزیئر میں ''معتبر ذرائع سے ملنے والی پختہ معلومات'' کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ غلام احمد ڈار، ''حریت کارکنان کے ساتھ بند کمرے میں ملاقاتیں کرتے ہیں تاکہ انہیں سری نگر اور وادی کے دیگر حصوں میں حریت کی سرگرمیاں جاری رکھنے پر راضی کیا جا سکے۔''
اس ڈوزیئر میں کہا گیا کہ حریت رہنما مبینہ طور پر اپنے کارکنان کی حوصلہ افزائی کرنے کی بھر پور کوشش کر رہے تھے۔ اور انہوں نے ماضی قریب میں کشمیر سے متعلق اس، ''پاکستانی موقف کی حمایت کی تھی کہ کشمیر تقسیم ہند کا ایک نا مکمل ایجنڈا ہے اور اسے جموں و کشمیر کی عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرنے کی ضرورت ہے۔''
یہ ڈوزیئر پولیس نے تیار کیا ہے، جس میں ڈار پر یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ وہ جموں و کشمیر میں ''امن و امان کے مسائل کو ہوا دینے'' کے لیے ایک پروگرام ترتیب دینے کی حکمت عملی طے کرنے کے خاطر، ''علیحدگی پسند حلقوں میں اپنا اثر و رسوخ کافی استعمال کر رہے ہیں۔''
پولیس کے مطابق، ڈار کی سرگرمیاں جموں و کشمیر کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ اور انہیں، ''ملک مخالف نظریے کی تشہیر کے لیے سازگار حالات پیدا کرنے کا ذمہ دار پا یا گیا ہے۔''
پولیس نے تکنیکی معلومات کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اگر انہیں آزاد چھوڑ دیا گیا تو اس بات کا امکان موجود ہے کہ وہ منشیات کی تجارت کے ذریعے دہشت گرد تنظیموں کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے کی سازش کریں گے اور اس سے دہشت گرد تنظیمیں شدت پسندی کی سازشیں کر سکتی ہیں۔
غلام احمد ڈار کا سیاسی سفر
پینسٹھ سالہ علیحدگی پسند رہنما غلام احمد ڈار گلزار کے نام سے بھی معروف ہیں۔ ان کا تعلق سرحدی ضلع کپوارہ سے ہے تاہم وہ کافی عرصے
سے سری نگر میں مقیم ہیں۔ وہ جموں و کشمیر انصاف پارٹی کے سربراہ بھی تھے۔ وہ ان چند علیحدگی پسند رہنماؤں میں سے ایک ہیں جنہیں ابھی تک جیل نہیں بھیجا گیا تھا۔
مودی حکومت نے اگست 2019 میں کشمیر سے متعلق جو متنازعہ اقدامات کیے تھے اس کے بعد ہند نواز رہنماؤں سمیت تقریبا ًتمام علیحدگی پسند رہنماؤں کو جیل بھیجا دیا گیا تھا۔ چند ہند نواز رہنماؤں کو چھوڑ کر اب تقریباً تمام جیل سے باہر آ چکے ہیں تاہم حریت اور انسانی حقوق کے بیشتر کارکن اب بھی جیلوں میں ہیں۔
ایک وقت تھا کہ جب غلام احمد ڈار پیپلز کانفرنس کے رہنما عبدالغنی لون کے قریبی ساتھی تھے۔ تاہم لون کے قتل کے بعد، وہ ان کے بیٹوں سجاد اور بلال لون سے الگ ہو گئے اور حریت کانفرنس کے اس دھڑے میں شامل ہو گئے جس کی قیادت سید علی شاہ گیلانی کر رہے تھے۔ بعد میں وہ گیلانی کے پریس معاون بن گئے۔
گزشتہ برس ڈار کو جیل میں قید علیحدگی پسند رہنما شبیر احمد شاہ کے ساتھ ہی حریت کانفرنس کا نائب چیئرمین مقرر کیا گیا تھا۔