کشمیریوں کو وسیع تر خودمختاری دی جائے، بھارتی مسلم دانشور
7 اکتوبر 2016بھارتی زیر انتظام کشمیر میں جاری حکومت مخالف مظاہروں کے تناظر میں بھارت بھر کے مختلف علاقوں میں مقیم مسلم دانشوروں نے زور دیا ہے کہ اگر یہ مسئلہ حل کرنا ہے تو جموں اور کشمیر میں وسیع تر خودمختاری دینا ہو گی۔ جولائی میں کشمیری علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور ان مظاہروں کے خاتمے کی خاطرعسکری کریک ڈاؤن کے نتیجے میں کم ازکم اسّی افراد ہلاک جبکہ ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں۔
’حکومت غیر ریاستی عناصر پر پابندی عائد کرنے میں ناکام رہی‘
پاکستان کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دے گا، آرمی چیف
’ہمارا دفاع توڑنا ناممکن ہے‘، پاکستانی فوج کا اصرار
کشمیر میں کنٹرول لائن پر فائرنگ، پاکستان میں غصے کی لہر
ایک طرف اسلام آباد حکومت بھارتی کشمیر میں تشدد کی سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہے تو دوسری طرف نئی دہلی کا الزام ہے کہ پاکستان کشمیر میں بھارت مخالف جذبات کو بھڑکانے کا کام کر رہا ہے۔ بھارتی زیر انتظام کشمیر میں اُڑی میں فوجی ہیڈکوارٹرز میں حملے اور بعدازاں بھارتی فورسز کی طرف سے پاکستانی زیر انتظام پاکستان میں ’اسٹریٹیجک اسٹرائیکس‘ کے دعوؤں کے بعد دونوں ممالک میں تناؤ بڑھ چکا ہے۔ حالیہ دنوں میں کشمیر کی لائن آف کنٹرول پر تقریبا روزانہ ہی فائرنگ کا تبادلہ جاری ہے۔
کیا خودمختاری اس تشدد کا حل ہو سکتا ہے؟
بھارت میں مسلمان دانشوروں کا کہنا ہے کہ کشمیر میں جاری تشدد کا حل یہ نہیں کہ اسے علاقے کو آزادی دے دی جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ بارہ اعشاریہ پانچ ملین نفوس پر مشتمل بھارت کی اس ریاست کو زیادہ خودمختاری دے دی جانا چاہیے۔ بھارت میں غیر سرکاری ادارے ’امن ٹرسٹ‘ کے ڈائریکٹر جمال قدوائی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’اس ملک میں ایک اور تقسیم مسئلے کا حل نہیں ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے دیگر متبادل راستوں پر غور کرنا چاہیے، جن میں سرحدوں پر سخت پہرے میں کمی اور کشمیریوں کی زیادہ خودمختاری شامل ہو سکتی ہے۔‘‘ تنازعات کے خاتمے کے لیے سرگرم امن ٹرسٹ کے سربراہ نے مزید کہا کہ اس تناظر میں بھارتی حکومت کو زیادہ بڑا کردار ادا کرنا چاہیے۔
بھارت میں اقلیتوں کے ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشن اور نیشنل کمیشن کے رکن ظفر آغا نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’کشمیر کے مسئلے کا دیرپا حل نہ تو اس میں ہے کہ اس کا پاکستان کے ساتھ الحاق کر دیا جائے اور نہ اس میں کہ وہاں بھارتی فورسز کی بڑی نفری تعینات رہے۔ میرے خیال میں اس ریاست کے لوگوں کے لیے زیادہ خودمختاری دینے سے ہی مثبت انداز میں آگے بڑھا جا سکتا ہے۔‘‘
بھارت میں فعال سنیئر صحافی فراز احمد کے بقول، ’’ کشمیری کب تک بندوقوں کے سائے تلے سانس لیتے رہیں گے؟ وہ گزشتہ پچیس برسوں سے موت اور تباہی دیکھتے آئے ہیں۔ میرے خیال میں یہ ایک اہم وقت ہے کہ بھارتی حکومت اس مسئلے کے حل کی خاطر قابل عمل متبادل راستوں پر غور کرنا شروع کر دے۔ میرے خیال میں کشمیریوں کے لیے وسیع تر خودمختاری ایک اہم متبادل ہو سکتا ہے۔‘‘
بھارتی قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان محمد اظہر الدین کے بقول نئی دہلی کا کہنا ہے کہ کشمیر بھارت کا ’اٹوٹ انگ‘ ہے لیکن وہاں جاری تشدد کے خاتمے کی خاطر سرکار کو مقامی لوگوں کو خودمختاری دینا ہو گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ کشمیر میں طویل عرصے سے جاری تشدد کا خاتمہ کرنے کے لیے فوری کوشش کرنا چاہیے۔