کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا احترام کیا جائے، اقوام متحدہ
شیراز راج
11 جولائی 2019
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمشن کی کشمیر میں غیر مشروط رسائی کے سوال پر کشمیری نمائندوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس چھپانے کو کچھ نہیں اور اسے اخلاقی برتری حاصل ہو گی۔
اشتہار
یہ رپورٹ مئی سن 2018 سے اپریل سن 2019 تک کے حالات و واقعات کا احاطہ کرتی ہے اور جون ۲۰۱۸ میں جاری کی جانے والی پہلی رپورٹ کا تسلسل ہے۔ رپورٹ میں تجویز کیا گیا کہ افسپاک (آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ-۱۹۹۰ ) کو فورا ختم کرے اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے مرتکب سیکورٹی اہلکاروں کے خلاف قانونی کارروائی کے لیے وفاقی حکومت سے اجازت لینے کی شرط فورا واپس لی جائے، سن 2014 کے بعد سے ہونے والی تمام تر شہری ہلاکتوں کے آزادانہ تحقیقات کرئی جائیں، کشمیری خواتین پر ہونے والے جنسی حملوں کی تحقیقات کرائی جائیں اور مجرموں کو سزا دی جائے، پیلٹ گن کا استعمال فوری طور پر ختم کیا جائے اور سیکورٹی فورسز کی جانب سے طاقت کے استعمال کو عالمی قانون کے معیارات کے مطابق لایا جائے، پبلک سیفٹی ایکٹ-1968 میں ترامیم کی جائیں، اب تک دریافت ہونے والی اجتماعی قبروں کی آزادانہ تحقیقات کرائی جائیں، بھارت شہریوں کے جبری گمشدگی اور تشدد اور غیر قانونی سزاؤں کے خلاف عالمی دستاویزات پر دستخط کرے اور عالمی قانون کے مطابق کمشیریوں کے حق خود ارادیت کا مکمل احترام کرے۔
آزاد کشمیراور گلگت بلستستان کے حوالے سے حکومت پاکستان سے کہا گیا ہے کہ وہ، 'دہشت گردی مخالف قوانین کے غلط استعمال کو ترک کرتے ہوئے ان میں عالمی معیارات کے مطابق ترامیم کرے، آزاد کشمیر کے عبوری آئین کی ان شقوں میں ترامیم کی جائیں جو شہریوں کے حق آذادی رائے اور حق تنظیم سازی پر قدغنیں عائد کرتی ہیں، اظہار رائے کی پاداش میں گرفتار صحافیوں، سیاسی ورکروں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو رہا کیا جائے، مذہبی اقلیتوں سے امتیازی سلوک ختم کیا جائے، پاکستان جبری گمشدگیوں اور غیر انسانی سزاؤں اور تشدد کے خلاف کنونشنوں پر دستخط کرے، جبری گمشدگیوں کے خلاف قائم تحقیقاتی کمشن کو مکمل بااختیار کرے اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا مکمل احترام کرے۔‘
یہ رپورٹ لشکر طیبہ، جیش محمد، حزب المجاہدین اور حرکت المجاہدین کی مبینہ کارروائیوں کا ذکر کرتی ہے اور ایف اے ٹی ایف کا حوالہ دیتے ہوئے داعش، القاعدہ، جماعت الدعوہ، فلاح انسانیت فاؤنڈیشن، حقانی نیٹ ورک اور طالبان سے منسلک افراد کے خلاف کارروائیوں کے حوالے سے پاکستان سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اپنی، 'تزویراتی خامیوں‘ کو دور کرے اور اپنے ایکشن پلان پر مکمل عمل درامد کرے۔‘
ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے، جموں کشمیر سول سوسائٹی اتحاد کے سربراہ اور جبری گمشدگیوں کے خلاف ایشیائی فیڈریشن کے صدر، خرم پرویز کا کہنا تھا کہ 'اگر بھارت کہتا ہے کہ یہ رپورٹ حقائق کے برخلاف اور جانبدار ہے تو اسے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کشمن کو کشمیر میں رسائی دینی چاہیے تاکہ سچ سامنے آ سکے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ، 'اس رپورٹ نے کشمیریوں کےمسائل اور انکی جدوجہد کو آواز دی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر اجاگر ہو گا وگرنہ کشمیریوں کے انسانی حقوق کو عموما نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔‘
جموں و کشمیر کے معروف اخبار کشمیر ٹائمز کی ایڈیٹر، انورادھا بھسین نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہا، 'یہ رپورٹ حقیقت کی عکاسی کرتی ہے اور بہت متوازن ہے کیونکہ اس میں دہشت گردی کی بھی مذمت کی گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر بھارت اپنی جمہوریت اور آئین کی روح کو بچانا چاہتا ہے تو اسے کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کو ختم کرنا ہو گا۔‘‘
حالیہ انتخابات کے تحت یورپی پارلیمنٹ میں منتخب ہونے والے واحد کشمیری نژاد رکن شفیق محمد نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے تجارتی تعلقات کو انسانی حقوق کے احترام سے منسلک کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ اس رپورٹ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا، ‘میں اس رپورٹ کا خیرمقدم کرتا ہوں اور اس تجویز کو سراہتا ہوں کہ کشمیر کے دونوں حصوں میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمشن کو غیر مشروط رسائی حاصل ہونی چایے۔ کشمیر کونسل ای یو کے سربراہ علی رضا سید نے بھی شفیق محمد کے موقف کی حمایت کی۔
’کشمیری‘پاک بھارت سیاست کی قیمت کیسے چکا رہے ہیں؟
بھارت اور پاکستان کشمیر کے موضوع پر اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمالیہ کے اس خطے کو گزشتہ تین دہائیوں سے شورش کا سامنا ہے۔ بہت سے کشمیری نئی دہلی اور اسلام آباد حکومتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بڑی فوجی کارروائی
بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Anand
فوجیوں کی لاشوں کی تذلیل
بھارت نے ابھی بدھ کو کہا کہ وہ پاکستانی فوج کی جانب سے ہلاک کیے جانے والے اپنے فوجیوں کا بدلہ لے گا۔ پاکستان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ سرحد پر مامور فوجی اہلکاروں نے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ان کی لاشوں کو مسخ کیا۔
تصویر: H. Naqash/AFP/Getty Images
ایک تلخ تنازعہ
1989ء سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم باغی آزادی و خود مختاری کے لیے ملکی دستوں سے لڑ رہے ہیں۔ اس خطے کی بارہ ملین آبادی میں سے ستر فیصد مسلمان ہیں۔ اس دوران بھارتی فورسز کی کاررائیوں کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔
تشدد کی نئی لہر
گزشتہ برس جولائی میں ایک نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ نئی دہلی مخالف مظاہروں کے علاوہ علیحدگی پسندوں اور سلامتی کے اداروں کے مابین تصادم میں کئی سو افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
اڑی حملہ
گزشتہ برس ستمبر میں مسلم شدت پسندوں نے اڑی سیکٹر میں ایک چھاؤنی پر حملہ کرتے ہوئے سترہ فوجی اہلکاروں کو ہلاک جبکہ تیس کو زخمی کر دیا تھا۔ بھارتی فوج کے مطابق حملہ آور پاکستان سے داخل ہوئے تھے۔ بھارت کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان میں موجود جیش محمد نامی تنظیم سے تھا۔
تصویر: UNI
کوئی فوجی حل نہیں
بھارت کی سول سوسائٹی کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ کشمیر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کر کے نئی دہلی خود کو بے قصور نہیں ٹھہرا سکتا۔ شہری حقوق کی متعدد تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ وادی میں تعینات فوج کی تعداد کو کم کریں اور وہاں کے مقامی افراد کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
بھارتی حکام نے ایسی متعدد ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد، جن میں بھارتی فوجیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے دیکھا جا سکتا ہے، کشمیر میں سماجی تعلقات کی کئی ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے۔ ایک ایسی ہی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کہ فوج نے بظاہر انسانی ڈھال کے طور پر مظاہرہ کرنے والی ایک کشمیری نوجوان کواپنی جیپ کے آگے باندھا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/
ترکی کی پیشکش
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھارت کے اپنے دورے کے موقع پر کشمیر کے مسئلے کے ایک کثیر الجہتی حل کی وکالت کی۔ ایردوآن نے کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ بھارت نے ایردوآن کے بیان کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف بھارت اور پاکستان کے مابین دو طرفہ طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
غیر فوجی علاقہ
پاکستانی کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے زیر انتظام علاقوں سے فوج ہٹانے کے اوقات کار کا اعلان کرنا چاہیے اور ساتھ ہی بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم بھی کرانا چاہیے‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Singh
علیحدگی کا کوئی امکان نہیں
کشمیر پر نگاہ رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سےسخت انداز میں نمٹنے کی بھارتی پالیسی جزوی طور پر کامیاب رہی ہے۔ مبصرین کے بقول، جلد یا بدیر نئی دہلی کو اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈنا ہو گا۔