بھارتی زیر انتظام ریاست جموں و کشمیر میں آٹھ سالہ بچی کے ریپ اور قتل میں ملوث آٹھ مشتبہ افراد کے خلاف باقاعدہ قانونی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔ اس کیس کی ابتدائی سماعت کے بعد اگلی پیشی تاریخ اٹھائیس اپریل کو ہو گی۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز نے بھارتی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ مسلمان بچی آصفہ کے ریپ اور قتل میں ملوث آٹھ ملزمان کو پیر کے دن جموں و کشمیر کی ایک عدالت میں پیش کیا گیا۔
ان پر جنسی زیادتی اور قتل کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ یہ واردات جموں کے علاقے کٹھوعہ میں جنوری میں رونما ہوئی تھی، جس کے بعد ریاست جموں و کشمیر سمیت بھارت بھر میں مظاہرے بھی کیے جاتے رہے۔
اس کیس کی وجہ سے بھارت میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے خلاف بھی جذبات ابھرے ہیں کیونکہ ابتدائی چھان بین سے معلوم ہوا تھا کہ مودی کی قوم پرست پارٹی سے تعلق رکھنے والے کچھ وزراء نے تحقیقاتی عمل کے دوران ملزمان کا ساتھ دیا تھا۔ مقامی میڈیا کے مطابق اسی تناظر میں پیر کے دن بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی آبائی ریاست گجرات کے دارالحکومت احمد آباد میں بڑے مظاہروں کی کال دی گئی ہے۔
عدالت کو بتایا گیا ہے کہ کشمیری لڑکی کو اغوا کرنے کے بعد ایک مندر میں قید رکھا گیا، اسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور ایک ایک ہفتے بعد اس کا گلہ گھونٹا گیا اور اسے پتھر مار کر ہلاک کر دیا گیا۔
اس لرزہ خیز کارروائی کا مرکزی ملزم ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ سنجی رام ہے۔ جن آٹھ افراد کو عدالتی کارروائی کا سامنا ہے، ان میں سے دو پولیس اہلکار بھی ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے رشوت لے کر چھان بین میں رخنے ڈالنے کی کوشش کی تھی۔
پیر کے دن کی سماعت سے قبل اس لڑکی کی وکیل دیپیکا سنگھ روات نے کہا ہے کہ اسے دھمکیاں موصول ہو رہی ہیں کہ اگر اس نے اس کیس کی پیروی کی تو اسے بھی جنسی زیادتی کا نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا جائے گا۔ انہوں نے استغاثہ سے استدعا کی ہے کہ اس کیس کی سنوائی بھارتی زیر انتظام جموں و کشمیر سے باہر کی جائے۔
دیپیکا نے روئٹرز کو بتایا، ’’مجھے کل ہی دھمکی ملی کہ ’ہم تمہیں نہیں چھوڑیں گے‘۔ میں یہ بات سپریم کورٹ کو بتاؤں گی کہ میری جان کو خطرہ ہے۔‘‘ جنوری میں ریپ اور قتل کے اس واقعے کے بعد دیپیکا ہی تھیں، جنہوں نے اس کیس کو اٹھایا اور عدالت سے رجوع کیا۔ گزشتہ ہفتے ہی اس کیس کی چارج شیٹ داخل دفتر کی گئی تھی۔
اس بہمیانہ کارروائی کی تفصیلات منظر عام پر آنے کے بعد بھارت بھر میں مظاہروں کی ایک لہر شروع ہو گئی۔ بھارتی وزیر اعظم نریندری مودی نے عوام سے وعدہ کیا ہے کہ اس جرم میں ملوث لوگوں کو انصاف کے کٹہرے میں ضرور لایا جائے گا۔
ع ب / ع س / روئٹرز
’کشمیری‘پاک بھارت سیاست کی قیمت کیسے چکا رہے ہیں؟
بھارت اور پاکستان کشمیر کے موضوع پر اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمالیہ کے اس خطے کو گزشتہ تین دہائیوں سے شورش کا سامنا ہے۔ بہت سے کشمیری نئی دہلی اور اسلام آباد حکومتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بڑی فوجی کارروائی
بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Anand
فوجیوں کی لاشوں کی تذلیل
بھارت نے ابھی بدھ کو کہا کہ وہ پاکستانی فوج کی جانب سے ہلاک کیے جانے والے اپنے فوجیوں کا بدلہ لے گا۔ پاکستان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ سرحد پر مامور فوجی اہلکاروں نے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ان کی لاشوں کو مسخ کیا۔
تصویر: H. Naqash/AFP/Getty Images
ایک تلخ تنازعہ
1989ء سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم باغی آزادی و خود مختاری کے لیے ملکی دستوں سے لڑ رہے ہیں۔ اس خطے کی بارہ ملین آبادی میں سے ستر فیصد مسلمان ہیں۔ اس دوران بھارتی فورسز کی کاررائیوں کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔
تشدد کی نئی لہر
گزشتہ برس جولائی میں ایک نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ نئی دہلی مخالف مظاہروں کے علاوہ علیحدگی پسندوں اور سلامتی کے اداروں کے مابین تصادم میں کئی سو افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
اڑی حملہ
گزشتہ برس ستمبر میں مسلم شدت پسندوں نے اڑی سیکٹر میں ایک چھاؤنی پر حملہ کرتے ہوئے سترہ فوجی اہلکاروں کو ہلاک جبکہ تیس کو زخمی کر دیا تھا۔ بھارتی فوج کے مطابق حملہ آور پاکستان سے داخل ہوئے تھے۔ بھارت کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان میں موجود جیش محمد نامی تنظیم سے تھا۔
تصویر: UNI
کوئی فوجی حل نہیں
بھارت کی سول سوسائٹی کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ کشمیر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کر کے نئی دہلی خود کو بے قصور نہیں ٹھہرا سکتا۔ شہری حقوق کی متعدد تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ وادی میں تعینات فوج کی تعداد کو کم کریں اور وہاں کے مقامی افراد کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
بھارتی حکام نے ایسی متعدد ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد، جن میں بھارتی فوجیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے دیکھا جا سکتا ہے، کشمیر میں سماجی تعلقات کی کئی ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے۔ ایک ایسی ہی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کہ فوج نے بظاہر انسانی ڈھال کے طور پر مظاہرہ کرنے والی ایک کشمیری نوجوان کواپنی جیپ کے آگے باندھا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/
ترکی کی پیشکش
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھارت کے اپنے دورے کے موقع پر کشمیر کے مسئلے کے ایک کثیر الجہتی حل کی وکالت کی۔ ایردوآن نے کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ بھارت نے ایردوآن کے بیان کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف بھارت اور پاکستان کے مابین دو طرفہ طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
غیر فوجی علاقہ
پاکستانی کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے زیر انتظام علاقوں سے فوج ہٹانے کے اوقات کار کا اعلان کرنا چاہیے اور ساتھ ہی بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم بھی کرانا چاہیے‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Singh
علیحدگی کا کوئی امکان نہیں
کشمیر پر نگاہ رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سےسخت انداز میں نمٹنے کی بھارتی پالیسی جزوی طور پر کامیاب رہی ہے۔ مبصرین کے بقول، جلد یا بدیر نئی دہلی کو اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈنا ہو گا۔