1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمیری خاتون صحافی کے لیے 2020 کا فوٹوجرنلزم ایوارڈ

12 جون 2020

بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والی خاتون فوٹوجرنلسٹ مسرت زہرا کو بین الاقوامی فوٹو جرنلزم ایواڈ کا حق دار قرار دیا گیا ہے۔ مسرت زہرا کے خلاف اپریل میں بھارتی حکام نے متنازعہ قانون کے تحت مقدمہ بھی درج کیا تھا۔

Indien Kaschmir | Fotojournalismus | Masart Zahara
تصویر: M. Zahara

جمعرات کے روز انٹرنیشنل وومینز میڈیا فاؤنڈیشن نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والی مسرت زہرا کو سن 2020 کے 'آنیا نیڈرینگ ہاؤس جرات‘ فوٹوجرنلزم ایوارڈ کی فاتح قرار دیا۔

ایوارڈ منتخب کرنے والی جیوری نے مسرت زہرا کے کام اور ان کے 'احساس فکر‘ کی تعریف بھی کی۔ سری نگر سے تعلق رکھنے والی زہرا تصاویر کے ذریعے بھارت کے زیر انتظام متنازعہ علاقے کے باسیوں کی روز مرہ زندگیوں کی عکاسی کرتی ہیں۔

یہ ایوارڈ جرمن خاتون فوٹو جرنلسٹ آنیا نیڈرینگ کے نام سے منسوب ہے، جنہیں سن 2014 میں افغانستان میں قتل کر دیا گیا تھا۔ خاتون صحافیوں کی یہ عالمی تنظیم سن 1990 سے آزادی صحافت اور خاص طور پر جرات مند خاتون صحافیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے سرگرم ہے۔ سالانہ ایوارڈ جیتنے والی خواتین کو ایوارڈ کے علاوہ بیس ہزار ڈالر بھی دیے جاتے ہیں۔

ادارے کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر الیزا لیز مونیوز کا کہنا تھا، ''حکومتی دھمکیوں کے باعث دنیا بھر میں بے تحاشا کمیونیٹیز شدید خطرات، نقصان اور سینسرشپ کا سامنا کر رہی ہیں اور دنیا بھر میں آزادی صحافت زوال پذیر ہے۔ ایسے وقتوں میں آنیا کی میراث ہمیں یاد دلاتی ہے کہ شہ سرخیوں کے پیچھے موجود کمیونیٹیز ہی سول اور سماجی مظالم کا حقیقی ہدف ہیں۔‘‘

مسرت زہرا 'بھارت میں زیر عتاب‘

مسرت زہرا کی تصاویر بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بسنے والے لوگوں کو روز مرہ زندگیوں میں درپیش مشکلات کی جھلک پیش کرتی ہیں۔ متنازعہ خطے میں بسنے والے شہریوں کو لاک ڈاؤن، انٹرنیٹ کی بندش جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور سن 1989 سے سینکڑوں عام شہری مارے بھی جا چکے ہیں۔

ادارے کے بیان میں بتایا گیا کہ زہرا کا شمار ان چند خواتین میں ہوتا ہے جو کشمیر میں صحافتی ذمہ داریاں ادا کر رہی ہیں اور انہیں اپنی رپورٹنگ کے باعث اکثر مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ اس وقت بھی زہرا کے خلاف سوشل میڈیا پر تصاویر شائع کرنے کے بعد سے مقدمہ دائر ہے اور انہیں جرمانے اور سات سال تک کی قید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ایوارڈ ملنے کے بعد مسرت زہرا نے اپنے بیان میں کہا، ''یہ ایوارڈ ظاہر کرتا ہے کہ چھوٹے علاقوں سے تعلق رکھنے والے مجھ جیسے  صحافیوں کے کام کو تسلیم کیا جا رہا ہے۔‘‘

ربیکا اشٹاؤڈنمائر (ش ح / ع ا)

بھارتی کریک ڈاؤن سے کشمیر میں مذہبی آزادی بھی متاثر

02:27

This browser does not support the video element.

مسرت زہرا کو بھارت میں کن مقدمات کا سامنا ہے، پڑھیے نئی دہلی سے ہمارے مدیر کی اس خصوصی رپورٹ میں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں