کشمیری، شدت پسندوں اور سکیورٹی فورسز دونوں سے خوفزدہ
5 نومبر 2019اٹھائیس اکتوبر کو کشمیر کے کلگام ضلع میں جن پانچ مزدوروں کو قتل کیا گیا تھا، ان کا تعلق بھارتی ریاست مغربی بنگال سے تھا۔ اس واقعے میں ایک مزدور ظہور دین زندہ بچ گیا تھا۔ وہ سری نگر کے ایک ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ اس نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ہلاک کیے جانے والے دیگر مزدوروں کے ساتھ وہ بھی ایک کرائے کے کمرے میں رہتا تھا۔
ظہور دین نے بتایا کہ وہ لوگ رات کے کھانے کی تیاری کر رہے تھے، جس وقت مسلح افراد ان کے کمرے میں داخل ہوئے اور انہیں اپنے ساتھ نیچے لے گئے، ''اس وقت اندھیرا تھا اور میری نظر کمزور ہے۔ ہم خوفزدہ تھے اور ہم ان کے ساتھ نیچے چلے گئے۔ مسلح افراد چند سو میٹر دور اپنے ساتھ ایک بیکری کی جانب لے گئے اور پھر انہوں نے ہم پر فائرنگ کر دی‘‘۔ ظہور دین نے مزید بتایا کہ اسے ہاتھ اور پیر پر چار گولیاں لگیں اور پھر فائرنگ کی آواز سن کر وہاں پہنچنے والے افراد نے اسے زخمی حالت میں ہسپتال پہنچایا۔
دوسری جانب جموں وکشمیر پولیس کے ڈائریکٹر جنرل دلباغ سنگھ نے بتایا کہ مزدوروں کو ہلاک کرنے والے شدت پسندوں کی شناخت کر لی گئی ہے اور انہیں جلد ہی گرفتار کر لیا جائے گا۔ تاہم انہوں نے اس حوالے سے زیادہ تفصیل نہیں بتائی۔
پانچ اگست کو نئی دہلی حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد سے اس خطے میں شدید کشیدگی پائی جاتی ہے۔ اس کے بعد بھارتی حکام نے مواصلاتی رابطوں پر پابندی عائد کر دی تھی اور کسی ممکنہ بد امنی کے خدشے کے تحت ہزاروں افراد کو گرفتار کر لیا تھا۔ ان میں سے بعض کو رہا بھی کر دیا گیا ہے۔
بھارتی پولیس کا کہنا ہے کہ شدت پسند تنظیمیں دوسرے علاقوں سے آئے ہوئے مزدوروں کو نشانہ بنا رہی ہیں۔ اس بیان میں واضح کیا گیا کہ یہ اس خطے میں کام کرنے والے ہزاروں غیر کشمیریوں کو نکالنے کی ان کی ایک نئی حکمت عملی ہو سکتی ہے۔
یہ مزدور زیادہ تر کاشت کاری اور تعمیراتی شعبوں میں کام کرتے ہیں۔ حالیہ دنوں کے دوران کیے گئے حملوں میں کم از کم گیارہ غیر کشمیری مزدور مارے جا چکے ہیں جبکہ کئی سو افراد نے وادی بھی چھوڑ دی ہے۔
دوسری جانب روئٹرز سے بات کرنے والے کئی دیہاتیوں نے بتایا کہ انہیں اس واقعے کی تحقیقات کے سلسلے میں سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں سے بھی خوف آتا ہے۔ جس سڑک پر ان مزدوروں کو قتل کیا گیا، وہاں پر غلام نبی کی گوشت کی دکان بھی ہے۔ ان کے بقول،''یہاں صرف شدت پسندوں اور سکیورٹی فورسز کے پاس ہتیھار ہیں۔ ہم عام شہریوں کے پاس کوئی ہتھیار نہیں لیکن ہم بدستور متاثر ہو رہے ہیں۔‘‘
ع ا / ا ب ا ( روئٹرز)