1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
آزادی صحافتبھارت

کشمیری صحافت کی حالت زار، کیا سب ٹھیک ہے؟

7 جولائی 2022

مئی کے مہینے میں جب جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے رہنما محمد یاسین ملک کو عمر قیدکی سزا سنائی گئی تو اس کیس کی تفصیلات جاننے کے لیے میں نے سری نگر سے شائع ہونے والے اخبارات سے رجوع کیا۔

تصویر: Privat

مگر یہ کیا؟ اکثر اخبارات نے بس مختصراً ایک یا دو کالم میں اس خبر کو شائع کیا تھا۔ اس سے بہتر کوریج تو دہلی کے اخبارات نے دی تھی اور ٹی وی چینلوں نے پرائم ٹائم پر اس پر خاصی بحث بھی کی تھی۔ میں نے سوچا، چلو اداریے کے صفحات پر تو کچھ تفصیلات مل جائیں گی۔

 ایک کثیر الاشاعت اُردو روزنامہ کے ادارتی صفحات پر قارئین کو اس دن ٹیکنالوجی کے اثرات اور پھل کھانے کے فوائد سے روشناس کروایا جا رہا تھا۔ یہ سب کچھ مجھے انتہائی عجیب سا لگا۔ میں نے پھر اخبارات کے آرکائیوز کو کھنگال کر تفصیلات نکالنے کی کوشش کی تو اس پر بھی مایوسی ہاتھ لگی۔

ماضی میں اس موضوع پر شائع اسٹوریز بھی غائب تھیں۔ کشمیر میں پریس کی صورت حال کا اندازہ تو اُسی دن لگ گیا تھا، جب پچھلے  سال سری نگر کا پریس کلب بند کر دیا گیا تھا مگر صور ت حال اس قدر خراب  ہے، اس کا وہم و گمان تک نہ تھا۔

جب میں نے سری نگر میں کام کرنے والے ایک  صحافی دوست کو فون کیا تو اس نے قہقہ لگا کر پوچھا، ''دہلی کے ایک صحافی کو آخر آج اتنا وقت کیسے ملا کہ کشمیر کے صحافی کی  خبر و خیریت دریافت کرے؟"

اس صحافی نے کہا کہ وہ صحافت کو دفنانے پر  مجبور ہو چکے ہیں اور بس حکومت کی ہاں میں ہاں ملا کر اپنا پیٹ پال رہے  ہیں۔ ان کی کہنا تھا کہ سبھی اخبارات پر غیر اعلانیہ اور سخت سینسر شب عائد ہے۔ اس حد تک کہ ان اخبارات نے یاسین ملک کی عمر قید جیسی اہم خبر کو چھاپنے اور اس کو معقول جگہ دینے سے بھی حتیٰ الامکان گریز کیا۔

ان اخبارات کا سرسری مطالعہ کرنے سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ یا تو ان صحافتی اداروں نے خود کو سیلف سینسر کر رکھا ہے یا پھر کوئی 'نادیدہ ہاتھ‘ انہیں صحیح رپورٹنگ کرنے سے روک رہا ہے۔ جب میں نے ایک اُردو اخبار کے ایڈیٹر سے  بات کی تو انہوں بتایا کہ وہ صحافت کرنا نہیں بھولے لیکن فی الوقت اپنے گھر کسی مصیبت کو دعوت نہیں دینا چاہتے۔

کیا عمران ریاض کی گرفتاری کی مذمت کی جانا چاہیے؟

کسی انڈسٹری وغیرہ کی عدم موجوگی کی وجہ سے کشمیر میں اخبارات اپنے اداروں کو چلانے کے لیے زیادہ تر سرکاری اشتہارات پر انحصار کرتے ہیں اور معمولی سی غلطی سرکاری اشتہارات کا حصول ناممکن بنا دیتی ہے۔

سرکاری اشتہار بند ہو جانے سے اخبار کا گزارا مشکل ہو جاتا ہے اور پھر صحافیوں اور دیگر عملے  کی چھٹی کرنا پڑتی ہے۔ دباؤ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب گزشتہ سال ستمبر میں بزرگ رہنما سید علی شاہ گیلانی کا انتقال ہوا تو سری نگر کے اکثر اخبارات میں ان کی موت کی خبر ایک ہی کالم میں چھپی، جب کہ دہلی کے اخبارات اور بین الاقوامی میڈیا نے اسے تفصیل سے کور کیا تھا۔

سری نگر کے ایک انگریزی ہفت روزہ نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے علی شاہ گیلانی کی تصویر کے ساتھ پروفائل  شائع کیا تو اگلے روز ہی سزا کے طور پر اس کے اشتہارات بند کر دیے گئے اور  یہ ابھی تک جاری نہیں کیے گئے۔

سید گیلانی کے دست راست محمد اشرف صحرائی اس سے قبل جیل میں انتقال کر گئے تھے۔ وادی کشمیر کے اکثر اخبارات میں اس کو رپورٹ تک نہیں کیا گیا۔ گزشتہ ماہ ایک کشمیری صحافی شاہد تانترے، جو کاروان میگزین کے لیے لکھتے  ہیں، نے ایک خط میں انکشاف کیا کہ پولیس ان کو بار بار تھانے میں طلب کرتی ہے۔ ان کے والد کو بھی پولیس اسٹیشن میں بلا کر گھنٹوں انتظار کروایا گیا۔ تانترے کو پولیس افسران نے بتایا کہ کشمیر میں رہ کر ان کو حکومت  کے خلاف نہیں لکھنا چاہیے ورنہ ان کو گرفتاری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ان کو بتایا گیا کہ ان کے پاس کشمیر چھوڑنے کا آپشن موجود ہے۔

تانترے کی خوش قسمتی ہے کہ ان کی تنظیم ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ اگست 2019ء میں جموں و کشمیر سے بھارتی آئین کی دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد سے کشمیری صحافیوں کی زندگی ایک ڈراؤنے خواب سے کم نہیں ہے۔ اب حکومت پر تنقید برداشت نہیں کی جاتی۔ جب ہلاکتوں کی خبریں آ رہی ہوں، تو اخبارات کو گل لالہ کے باغ کی تصویروں سے صفحات مزین کرنا پڑتے ہیں۔ بس یہ لگنا چاہیے کہ کشمیر میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔

کشمیر کے وہ اخبارات، جو برسوں سے دنیا کے لیے بطور ایک ایسی کھڑکی کا کام کرتے آ رہے ہیں، جس کے اندر جھانک کر کشمیر کے حالات کو دیکھا جاتا تھا، اب ایک بند روشن دان کی  مثال پیش کرتے ہیں۔

 ہر دو تین ماہ بعد سکیورٹی ایجنسیاں کشمیر میں کسی نہ کسی صحافی کے دروازے پر دستک دینے پہنچ جاتی ہیں اور یہ منظر خود بخود دوسروں کے  ذہنوں میں خوف پیدا کر دیتا ہے کیونکہ اگلی باری ان کی ہو سکتی ہے۔ خیر  ایک ایک کر کے سبھی کی باریاں آ رہی ہیں۔

نیویارک کی صحافتی تنظیم کمیٹی فار پروٹیکشن آف جرنلسٹس کے مطابق اب کشمیری میڈیا ایک بریکنگ پوائنٹ پر پہنچ گیا ہے، جہاں صحافی سوچ رہے ہیں کہ اس پیشے کو زندہ اور جاری رکھنا کب تک ممکن ہے اور اس مصنوعی زندگی کو جینا اور پھر دنیا کو دکھانا کہ سب  کچھ ٹھیک ٹھاک ہے، کب تک جاری رہ سکتا ہے؟

اخبارات کے مالکان بھی اپنی سرکولیشن کے لگاتار گرنے سے پریشان ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں، جب حقیقی صحافت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، کشمیر کی چار بڑی  یونیورسٹیاں نئی نسل کو صحافت سیکھانے کا کورس پڑھا رہی ہیں۔

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

روہنی سنگھ روہنی سنگھ نئی دہلی میں مقیم فری لانس صحافی ہیں۔
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں