کشمیری لیڈر عالم رہا، مودی برہم
9 مارچ 2015![سولہ جولائی 2006ء کی اس تصویر میں جموں و کشمیر مسلم لیگ کے سربراہ مسرت عالم (درمیان میں) ایک مظاہرے کی قیادت کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں](https://static.dw.com/image/18303564_800.webp)
ہفتہ سات مارچ کو رہا کیے جانے والے 44 سالہ مسرت عالم پر 2010ء میں وادیٴ کشمیر میں ہونے والے وہ بھارت مخالف احتجاجی مظاہرے منظم کرنے کا الزام تھا، جن میں سکیورٹی فورسز کے ساتھ تصادم کے واقعات میں ایک سو سے زیادہ افراد مارے گئے تھے۔
مسرت عالم ساڑھے چار سال تک جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے رہے ہیں۔ اُن کی رہائی پر پیر نو مارچ کو بھارتی پارلیمان میں زبردست احتجاج دیکھنے میں آیا۔ پارلیمان میں وزیر اعظم نریندر مودی بھی موجود تھے، جنہوں نے عالم کی رہائی کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں اُن کے ساتھ کوئی صلاح و مشورہ نہیں کیا گیا تھا اور یہ کہ وہ اس فیصلے پر بہت غصے میں ہیں۔
مودی نے اس فیصلے کے بارے میں پارلیمان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا: ’’مَیں اس علیحدگی پسند رہنما کی رہائی پر احتجاج کرنے والوں کے ساتھ ہوں۔ مَیں اس بات کا یقین دلاتا ہوں کہ وفاقی حکومت ایسے کسی اقدام کو قبول نہیں کرے گی۔ ہم ملک کی وحدت اور سالمیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔‘‘
مودی نے کہا کہ اس سلسلے میں ریاست جموں و کشمیر کی حکومت سے وضاحت طلب کر لی گئی ہے۔ واضح رہے کہ جموں و کشمیر میں مودی کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے مقامی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت قائم کر رکھی ہے۔ مسرت عالم کی رہائی کے بعد ان دونوں جماعتوں کے درمیان پائی جانے والی نظریاتی خلیج اور بھی وسیع ہو گئی ہے۔
پیر کے روز بھارتی اپوزیشن نے پارلیمان کی کارروائی میں بار بار رخنہ ڈالتے ہوئے مسرت عالم کی رہائی پر احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ اگر قومی سلامتی کے حوالے سے اہم فیصلوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ صلاح و مشورہ نہیں کیا گیا تو بی جے پی کو پی ڈی پی کی حمایت ترک کر دینی چاہیے۔
پی ڈی پی کے سربراہ مفتی محمد سعید آج کل جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ ہیں اور اُنہوں نے ہی مسرت عالم کی رہائی کے احکامات جاری کیے تھے۔ مفتی سعید کا یہ فیصلہ اُن کی اُن مفاہمتی کوششوں کا ایک حصہ ہے، جو وہ اِس بحران زدہ ریاست میں جاری امن عمل میں علیحدگی پسندوں کو بھی شریک کرنے کے لیے کر رہے ہیں۔
مسرت عالم علیحدگی پسند حریت گروپ کے ایک رہنما ہیں اور جموں و کشمیر مسلم لیگ کے سربراہ ہیں۔ وہ اپنے خلاف ستائیس فوجداری مقدمات میں اپنی ضمانت کروا چکے ہیں۔ ایسے میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے سیاستدانوں کا موقف یہ ہے کہ اُنہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھنے کا مزید کوئی جواز نہیں تھا۔
بھارت کا الزام ہے کہ پاکستان بھارت کے زیرِ انتظام ریاست جموں و کشمیر میں کشمیری عسکریت پسندوں کی پشت پناہی کر رہا ہے اور وہاں شورش کو ہوا دینے کے لیے علیحدگی پسندوں کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔
جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ 1980ء کے عشرے کے اواخر سے جموں و کشمیر میں جاری علیحدگی پسند تحریک کے دوران اب تک تقریباً پنتالیس ہزار افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔